تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     13-09-2015

گڈ گورننس کے چہرے پر بدنما داغ

اللہ تعالیٰ اٹک اور سوہاوہ کی ڈیڑھ سو سے زائد معصوم بچیوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے جوباری باری اینٹی ڈینگی سپرے کے سبب ہسپتالوں میں پہنچ گئی ہیں۔ لگتا ہے‘ پنجاب کو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ ہر دوسرے چوتھے دن کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ظہور پذیر ہوتا ہے جو میاں شہباز شریف کی گڈ گورننس کے چہرے کو داغ دار کر دیتا ہے۔
پنجاب میں ڈینگی مچھر حملہ آور ہوا تو میاں شہباز شریف نے جنگی بنیادوں پر اس کے قلع قمع کی ٹھانی اور کافی حد تک کامیاب رہے۔ مخالفین اگرچہ الزامات لگاتے رہے کہ معاملے کی نوعیت اتنی سنگین تھی جتنی ظاہر کی گئی‘ نہ نمٹنے کے لیے اس قدر زیادہ وسائل جھونکنے اور ساری سرکاری مشینری کو مچھر مار مہم کے لیے وقف کر دینے کی ضرورت۔ مگر میاں صاحب نے کسی کی نہیں سنی اور ڈینگی مچھروں کی یلغار روک کر دم لیا۔
مچھر مار مہم کے دوران صرف محکمہ صحت‘ بلدیات اور تعلیم ہی بروئے کار نہ آئے بلکہ پنجاب کی سی آئی اے‘ سپیشل برانچ اور دیگر خفیہ ایجنسیوں نے بھی مچھروں کی سراغرسانی اور سدباب میں اپنا کردار ادا کیا۔ ایک بار جب مجھے ماڈل ٹائون میں واقع اینٹی ڈینگی وار روم میں چند گھنٹے گزارنے کا موقع ملا تو وہاںخیبر پختونخوا کے موجودہ انسپکٹر جنرل پولیس ناصر خان درانی اور کئی دوسرے پولیس افسران کو دیکھ کر حیرت ہوئی ۔ ایک پولیس افسر نے جو کسی خفیہ ادارے میں کام کررہے تھے‘ ڈینگی لاروے کا پتہ چلانے کے لیے اپنے مشن 007کی تفصیل فخر سے بیان کی۔ 
مہم کے نتیجے میں پنجاب کے شہریوں نے ڈینگی لاروے کے خوف سے نجات پائی اور حکومتی ملازمین کے علاوہ سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور طالب علموں نے بھی سجدۂ شکر ادا کیا کہ انہیں مچھروں کا پیچھا اور جابجا وزیر اعلیٰ ‘ وزراء اور ان کے چیلوں چانٹوں کا استقبال کرنے سے نجات ملی جس میں ان کا وقت ضائع ہوتا‘ شدید گرمی اور بھوک پیاس برداشت کرنا پڑتی اور بسا اوقات رسوائی بھی حصے میں آتی۔ تاہم ہر سال گرمیوں میں اینٹی ڈینگی سپرے کا رواج برقرار ہے‘ کوئی اور احتیاطی تدبیر ہو نہ ہو سرکاری ادارے کچھ مچھرکے خوف اور زیادہ تر میاں شہباز شریف کے ڈر سے سپرے ضرور کراتے ہیں۔
میں جس نجی رہائشی کالونی کا باسی ہوں وہاں دن میں ایک بار کبھی صبح گاہے شام مچھر مار سپرے کا رواج ہے۔ لوگ سپرے کے دوران اپنے گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں کھول دیتے ہیں تاکہ سپرے کے اثرات ان کے کمروں‘ کچن اور واش رومز وغیرہ تک پہنچیں اور مچھروں کی بیخ کنی میں مدد ملے مگر اس سپرے سے کسی کو بے ہوش ہوتے دیکھا نہ ہسپتال جاتے۔ سپرے کی بو ناگوار ہوتی ہے‘ ناقابل برداشت اور سانس کی نالیاں بند کر دینے والی نہیں ۔
حسب دستور اور حسب عادت وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ان دونوں واقعات کا نوٹس لے لیا ہے اور سکول اوقات میں سپرے نہ کرنے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے مگر کیا یہ مسئلہ کا حل ہے؟ انہیں معلوم نہیں کہ پنجاب کے طول و عرض میں ناقص‘ جعلی اور مضر صحت انسانی و زرعی ادویات دھڑلے سے فروخت ہو رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں کسانوں نے جو احتجاجی تحریک چلائی اس کا مقصد زرعی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ‘ ٹیکسوں میں کمی اور بھارتی سبزیوں کی درآمدات کی حوصلہ شکنی کے علاوہ جعلی اور ناقص زرعی ادویات کی روک تھام کے لیے حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانا بھی تھا۔ ان ادویات کی وجہ سے مختلف فصلوں اورآم‘ انار اور کنو کے باغات کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے اور ہماری زرعی معیشت تباہی کے کنارے پہنچ چکی ہے۔
جب تک کوئی حادثہ رونمانہ ہو ہم خواب خرگوش کے مزے لیتے اور لوگوں کی جان و مال ‘ صحت ‘ عزت کی حفاظت پر مامور ادارے مال پانی بنانے میں مشغول رہتے ہیں۔ اتنی بڑی اینٹی ڈینگی مہم چلی مگر یہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت کسی نے محسوس نہ کی کہ اینٹی ڈینگی ادویات کون سی ہیں‘ انہیں استعمال کرنے کا طریقہ کیا ہے اور سپرے سے پہلے اور بعد کس قسم کی حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ناتجربہ کار افراد یہاں ہر کام ڈھٹائی سے کرتے ہیں۔ ادویات فروخت کرنے‘ انجکشن لگانے اور اپنی مرضی کی ادویات سے سپرے کرنے تک انہیں کوئی روکنے والا نہیں ورنہ اٹک اورڈومیلی میں ایسی کیڑے مار دوا کا چھڑکائو نہ ہوتا جو انسانی جان کے لیے ضرررساں ہے اور جس کی وجہ سے معصوم بچیوں کی زندگی دائو پر لگ گئی۔
ہماری حکومتوں کے کرنے کا اصل کام لوگوں کو روکھی سوکھی ہی سہی دو وقت کی روٹی‘ تعلیم‘ صحت کی سہولت فراہم کرنا اور جان و مال کی حفاظت کی ضمانت دینا ہے مگر وہ بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم عوام کو 'بلٹ ٹرین‘ موٹروے پر انٹر نیٹ‘ اورسولر پاور پارک کے ذریعے چالیس روپے فی یونٹ بجلی فراہم کرنے کا خواب دکھاتی ہے۔ اپنی غلط ترجیحات کے سبب ہر روز کوئی نہ کوئی حادثہ ظہور پذیر ہوتا ہے اور ہم سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ ملک بھر کے سرکاری سکولوں کی عمارتیں محفوظ ہیں نہ طلبہ و طالبات کو گھر سے سکول لے جانے والی ٹرانسپورٹ تسلی بخش اور نہ حفظان صحت کے دوسرے اصولوں کی پابندی کا رواج ۔مگر مجال ہے کہ کسی وفاقی یا صوبائی حکومت نے اس پر کبھی توجہ دی ہو۔ پچاس فیصد سے زائد آبادی اب بھی بجلی سے محروم ہے جبکہ شہروں میں بسنے والی ایک نازک بدن ‘ نازک مزاج اور شور مچانے کی عادی مخلوق کو چوبیس گھنٹے بلا تعطل بجلی فراہم کرنے کے لیے موجودہ اور سابقہ حکومت کئی سال سے بائولی ہو گئی ہے۔ حکمرانوں کی اس کمزوری کا فائدہ نوسر بازوں نے اٹھایا۔ کسی زمانے میں تھرمل پاور پراجیکٹس کے ذریعے لوٹ مار کا بازار گرم تھا‘ 2008ء سے رینٹل پاور ‘ سولر پاور اور ایل این جی کی دھوم دھام ہے اور انہی منصوبوں کی آڑ میں کئی سو ارب روپے حکمرانوں اور ان کے چہیتوں کی جیبوں میں چلے گئے ہیں۔ ایک کلرک اور تھانہ محررکو پکڑنے کے لیے درجنوں محکمے فعال ہیں۔ ان محکموں کے اہلکار اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے جب تک اپنا حصہ وصول نہ کرلیں۔ مگر قومی معیشت کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگانے والوں سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں۔
نیب نام کا ایک محکمہ موجود ہے جس کے سربراہ کا تقرر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے مل جل کر کیا تھا مگر یہ یک چشم محکمہ جب کسی کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو اتفاق رائے سے چیئرمین کا تقرر کرنے والے سابق صدر شور مچاتے ہیں اور موجودہ وزیر اعظم اسے روک دیتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کی گرفتاری سے روکنا‘ اور علی نواز شاہ کی گرفتاری پر شور مچانا تازہ مثالیں ہیں۔بلاول بھٹو کو جس نیب سے گلہ ہے وہ ان کے اباّجی کے ہنر کا شاہکار ہے۔
ہماری حکمران اشرافیہ اپنے آپ کو ہر طرح کے احتساب اور مواخذے سے بالاتر سمجھتی ہے اور لوٹ مار‘ غفلت‘ نااہلی اور نمائشی اقدامات کو جمہوریت کا حسن‘ سیاست دانوں کا حق۔ عدالت سے سزا یافتہ علی نواز شاہ کی حوصلہ افزائی اور ناز برداری کے لیے جس طرح وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ جیل پہنچے اور انہیں اے کلاس کا مژدہ سنایا وہ حکمران اشرافیہ کے مزاج کا مظہر ہے۔ چند سال پیشتر ایک رکن اسمبلی کا بیٹا کسی جرم میں گرفتار ہوا تواس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عارف نکئی بہ نفس نفیس تھانے پہنچ گئے اور مجرم بھتیجے کو چھڑا لائے تھے۔ یہ سلسلہ رکا نہیں آج بھی جاری ہے۔
وزیر اعلیٰ نے نوٹس لے لیا ہے‘ پرنسپل سے لے کر سپرے مین تک گرفتار ہو گئے ہیں۔ ذمہ داروں میں سے جو بے وسیلہ ہوئے یقیناً سزا یاب ہوں گے مگر محکمہ تعلیم‘ صحت‘ زراعت کے اعلیٰ افسروں اور بااثر اہلکاروں سے کبھی پوچھ گچھ نہیں ہو گی کہ مضر صحت ادویات کی فروخت کیوں جاری ہے ؟ناتجربہ کار افراد سپرے کیوں کرتے پھرتے ہیں؟ اور جو ایس او پی آج جاری ہوا وہ پہلے جاری کرنے کی زحمت کیوں گوارا نہیں کی گئی ؟کلر کہار‘ قصور اور منڈی بہائوالدین میں درجنوں معصوم بچے اناڑی ڈرائیوروں‘ کھٹارا بسوں کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے‘ آج تک ان کے قاتلوں کو سزا نہیں ملی تواٹک اور جہلم کی بچیوں کی بے ہوشی پر نوٹس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ خوش فہمی کی گنجائش کم ہے سفارش‘ اقربا پروری‘ رشوت ستانی‘ دوست نوازی اور سیاسی مصلحتوں و مفاد کے تحت فیصلوں کے کلچر کی موجود گی میں خوش گمانی عبث۔
مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو خدا توفیق دے تو ایم کیو ایم سے سبق سیکھیں جو من مانی کرتے کرتے اس حال کو پہنچی کہ کراچی میں چند گھنٹے ہڑتال کرانے کی پوزیشن میں نہیں‘ تاجروں کی اپیل پر کامیاب ہڑتال ہوئی ۔ حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved