تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     13-09-2015

چلتا پھرتا‘ نشان پاکستان

سردار عتیق احمد خان اپنے بلند مرتبت والد سردار عبدالقیوم خان کی وفات کے بعد پہلی مرتبہ لاہور آئے تو دل ان سے ملاقات کے لئے بے چین تھا۔ مرحوم نے طویل علالت کے بعد راولپنڈی میں آخری سانس لی، لیکن انہیں ان کے آبائی علاقے میں سپردخاک کیا جانا تھا، اس لئے بہت جلد اسلام آباد میں نماز جنازہ ادا کرکے دھیرکوٹ کا رخ کر لیا گیا۔ لاہور سے اسلام آباد پہنچنا ممکن تھا نہ آزادکشمیر، اس لئے انہیں رسمی طور پر الوداع نہ کہا جا سکا۔ فون پر عتیق صاحب سے رابطہ ہوا تو کارواں آزادکشمیر کی حدود میں داخل ہو چکا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ راولپنڈی میں جلد ایصال ثواب کے لئے خصوصی محفل کا انعقاد ہوگا لیکن آبائی علاقے میں ان کا قیام طویل ہوتا گیا۔ ان کے سیکرٹری (عبدالجبار) نے لاہور آمد کی اطلاع دی، تو ان کی خدمت میں حاضر ہونا لازم ہوگیا۔ عزیزم(اور کالمسٹ)فرخ شہباز وڑائچ نے اطلاع دی کہ انہوں نے عتیق صاحب کو اپنے ہاں مدعو کیا ہے، برادران سجاد میر، ارشاد عارف، توفیق بٹ اور چند دوسرے دوست بھی ہوں گے۔ مرحوم سردار صاحب کے لئے فاتحہ وہیں پڑھی جائے گی۔ توفیق بٹ چند ہی روز پہلے والد کی نعمت سے محروم ہوئے ہیں، ان کے غم میں بھی (ایک بار پھر) شرکت ہو جائے گی۔ سو، عتیق صاحب کے ساتھ چند لمحے گزارنے اور تحریک آزادیٔ کشمیر کے عظیم مجاہد کی یاد تازہ کرنے کا اہتمام ہوگیا۔
سردار عتیق نے چونکہ طالب علم رہنما سے مدبر سیاستدان تک مختلف مراحل (ہمارے) دیکھتے ہی دیکھتے طے کئے ہیں، اس لئے دوبار آزادکشمیر کی وزارت عظمیٰ سنبھالنے ،مسلم کانفرنس کی صدارت کا بار برسوں اٹھانے اور (شاید) زندگی کے ساتویں عشرے پر دستک دینے کی تیاریاں کرنے کے باوجود ہمیں وہ ''برخوردار‘‘ ہی دکھائی دیتے ہیں، جس طرح مجید نظامی مرحوم مجھے اور سجاد میر کو ''منڈا کھنڈا‘‘ کہتے تھے، اسی طرح سردار عتیق اپنی تمام تر ثقاہت کے باوجود ہمیں ''طفلِ مکتب‘‘ ہی نظر آتے ہیں۔حالانکہ اب وہ خود مکتب ہیں اور اپنے مکتبِ فکر کے بلا شرکت غیرے امام۔ چھوٹے صاحبزادے عفّان ان کے ہمراہ تھے۔وہ ماشاء اللہ امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دو بچوں کے باپ بھی بن چکے ہیں اور اب پاکستان واپسی کے لئے پُرعزم ہیں۔
سردار عبدالقیوم کے سفرآخرت کی تفصیل سناتے (اور سنتے) ہوئے جہاں پاکستان کے اہل سیاست کے ذہنی افلاس پر ترس آتا رہا،وہاں یہ اطمینان بھی رہا کہ فوجی قیادت نے صرف اسلام آباد ہی میں نماز جنازہ کے انتظامات کی ذمہ داریاں (ازخود) نہیں اٹھائیں، انہیں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ الوداع بھی کہا۔ پاک فوج کے چاق و چوبند دستے نے انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا اور میت کے گرد لپیٹنے کے لئے پاکستانی پرچم فراہم کیا گیا۔ تدفین کے بعد ان کی قبر پر سبز ہلالی پرچم نصب ہواکہ یہی وہ پرچم ہے، جس کی سربلندی کے لئے مرحوم نے اپنی طویل زندگی وقف کئے رکھی۔ ان کا بلند کیا ہوا نعرہ ''کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ آج پوری شدت کے ساتھ سری نگر میں بلند ہو رہا ہے۔ کشمیر کے بیٹے اور بیٹیاں جان جوکھوں میں ڈال کر پاکستانی پرچم لہرا رہی ہیں اور کشمیر کو پاکستان بنانے کا اعلان ہو رہا ہے۔
سردار عبدالقیوم، قائد ملت چودھری غلام عباس کے دست راست تھے۔ ان ہی کو ڈوگرہ راجہ کے ظلم کے خلاف عوامی جہاد کا آغاز کرنے کے لئے پہلی گولی چلانے کا شرف حاصل ہوا اور ان ہی نے چودھری صاحب کی وفات کے بعد مسلم کانفرنس کی قیادت سنبھالی۔ مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبداللہ کی اپنی دنیا تھی تو آزادکشمیر اور پاکستان میں سردار عبدالقیوم ہماری دنیا کو آباد کئے رہے۔ آزادکشمیر کے صدر منتخب ہوئے، وزیراعظم بنے، اور کئی بار بنے، دنیا کے گوشے گوشے میں کشمیر کے مظلوم عوام کا پیغام پہنچایا... سردار عتیق بھیگتی آنکھوں کو یاد دلا رہے تھے کہ جب شیخ عبداللہ دنیا سے رخصت ہوئے تو بھارت کے صدر گیانی ذیل سنگھ اور وزیراعظم مسز اندرا گاندھی پروٹوکول کے تقاضوں اور احتیاطوں کو بالائے طاق رکھتے، بلکہ ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بارہ گھنٹے تک ان کے سفر آخرت میں ایک ساتھ شریک رہے۔ سردار عبدالقیوم کا جنازہ پاکستان کے صدر اور وزیراعظم سے محروم( یا محفوظ) رہا۔ وزیراعظم کئی روز بعد اظہار تعزیت کے لئے پہنچے۔سردار عبدالقیوم تو اس بات سے بے نیاز تھے کہ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کی سعادت کس کس کے حصے میں آئی، عارضی زندگی اس طرح کی خواہشات سے آلودہ نہ ہو پائی تو ابدی زندگی کو اس کی کیا پروا ہو سکتی ہے۔ وہ اپنے اللہ اور عوام کے لئے جئے، انہی کے سامنے جوابدہ رہے... ان سے بڑا کشمیری (اور پاکستانی) کوئی ہو نہیں سکتا تھا۔ اپنے بڑوں کو یاد رکھنا چھوٹوں کو بڑا بناتا اور بھلا دینابڑوں کو چھوٹا کر دیتا ہے۔ ارباب اقتدار اب (کم از کم) پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ''نشانِ پاکستان‘‘ تو ان کی خدمت میں پیش کر دیں کہ وہ تو تھے ہی چلتا پھرتا نشانِ پاکستان... یوں ہر پاکستانی کہہ سکے گا کہ حق بحق دار رسید۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved