پہلے تو موصوف کے نام کے حوالے سے کچھ بات ہو جائے۔ ویسے تو گلاب کے پھول کو جس نام سے بھی پکارا جائے وہ گلاب کا پھول ہی رہتا ہے؛ تاہم اختر وقار ایک سمارٹ نام تھا جسے اتنا بوجھل بنا دیا گیا۔ اس پر کچھ کچھ پدرم سلطان بود‘ کی طرف بھی دھیان جاتا ہے حالانکہ آدمی کو اپنا نام خود روشن کرنا چاہیے‘ اور یہ ایسا کر بھی رہے ہیں۔ البتہ شناخت کی خاطر خواتین تخلیق کاروں کا یہ مسئلہ ہو سکتا ہے‘ مثلاً رضیہ سجاد ظہیر اور حجاب امتیاز علی‘ لیکن اگر مؤخرالذکر اپنے آپ کو حجاب امتیاز علی تاج بھی کہا کرتیں تو ہم کیا کر سکتے تھے۔ اگرچہ خواتین بھی زیادہ تر مختصر نام پر ہی قناعت کرتی ہیں مثلاً قرۃ العین حیدر اور بشریٰ رحمان‘ اور اگر اول الذکر قرۃ العین حیدر یلدرم کہلاتیں تو ہم ان کے نام ہی میں الجھ کر رہ جاتے اور ان کی لازوال فکشن پڑھنے کی شاید نوبت ہی نہ آتی۔ بہرحال طویل نام رکھنے والوں میں صوفی غلام مصطفی تبسم بھی شامل ہیں حالانکہ مصطفی زیدی کی طرح مصطفی تبسم زیادہ خوبصورت نام تھا۔ بعض حضرات اپنے نام کے ساتھ ایک ایک دیگر لاحقہ لگانا بھی ضروری سمجھتے ہیں‘ مثلاً فیصل آباد سے جریدہ ''زرنگار‘‘ کے ایڈیٹر علامہ ضیا حسین ضیاؔ۔ اگرچہ کہہ سن کر ہم نے ان کے نام سے علامہ کا لفظ ہٹوا دیا ہے لیکن حسین ضیاء زیادہ اچھا لگتا۔ کچھ حضرات اپنے نام کے ساتھ اپنی قومیت لکھنا بھی ضروری سمجھتے ہیں مثلاً محمد سعید شیخ‘ افضل
راجپوت اور رائو افضل گوہر‘ مؤخر الذکر اپنے دوست سے تو میں نے رائو کا لفظ علیحدہ کروا دیا تھا یعنی دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے یہ لاحقہ جاری رکھا تو میں اپنے آپ کو میاں ظفر اقبال لکھا کروں گا۔ واضح رہے کہ رائو افضل گوہر کے نام سے موصوف کے ایک دو مجموعہ ہائے کلام شائع بھی ہو چکے ہیں حالانکہ نام میں کیا رکھا ہے اور یہ سب گلاب کے پھول ہیں!
دوسری بات جو اس کتاب میں بہت نمایاں نظر آتی ہے وہ ہے کتاب میں مصنف کی لاتعداد تصاویر کی اشاعت مثلاً انتساب فضا‘ فرح اور احمد کے نام ہے جن کی باقاعدہ تصویر انتساب کے ساتھ چھاپی گئی ہے بلکہ ان کے ساتھ خود صاحبِ موصوف بھی جلوہ گر ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کتاب میں لاتعداد گروپ فوٹوز ہیں جن میں آپ ہر جگہ لازمی طور پر دکھائی دیتے ہیں لیکن اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو کتاب کے ٹائٹل پر چھوٹی چھوٹی ایسی تصاویر چھاپ کر پوری کردی گئی ہے جن کی تعداد 82تک تو ہم نے خود گنی ہے جو اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ ہم حساب میں ہمیشہ سے کمزور چلے آ رہے ہیں۔ خودنمائی دراصل خودستائی ہی کی ایک شکل ہے جو نقصان دہ ہے اور اس سے حتی المقدور بچنا چاہیے لیکن ہو سکتا ہے اختر وقار عظیم نے اس سے کچھ فائدہ بھی اٹھایا ہو۔ نام کے حوالے سے ایک تخصیص یہ بھی رہی کہ پسِ سرورق جناب اسلم اظہر کی مصنف کے بارے میں بزبانِ انگریزی جو تحسینی رائے شائع کی گئی ہے اس کے نیچے بھی باقاعدہ مسٹر اسلم اظہر درج کیا گیا ہے‘ گویا اپنے نام کے حوالے سے دونوں کا ایک ہی معاملہ ہے‘ یعنی ع
متفق گردید رائے بُوعلی با رائے من
یہ کتاب کشور ناہید کی ''مٹھی بھر یادیں‘‘ کی طرح ایک طرح کا یاد نامہ ہی ہے؛ تاہم اس کا سکوپ بہرحال محدود ہے کیونکہ یہ پی ٹی وی‘ جہاں مصنف ایک طویل عرصہ تک ملازمت کرتے رہے ہیں‘ میں گزارے گئے شب و روز ہی کی کہانی ہے جس میں زیادہ تر انہی لوگوں کا تذکرہ ہے جو ان کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں‘ یا جو لوگ اس دوران پی ٹی وی سے منسلک و متعلق رہے یا اس دوران جن شخصیات سے مصنف کا رابطہ یا میل جول رہا‘ اس لیے کشور کی کتاب کے برعکس یہ کتاب لٹریچر کی ذیل میں کم ہی آتی ہے۔ بیشک الیکٹرانک میڈیا کا ہماری زندگی کے ساتھ گہرا تعلق ہے لیکن اس کے پروگراموں میں ادب کا حصہ محض آٹے میں نمک کے برابر ہے‘ یعنی اگر ایک اخبار نویس اپنی صحافیانہ زندگی کی سرگزشت لکھے گا تو اس سے بالعموم وہی طبقہ لطف اندوز ہو سکے گا‘ البتہ ایک کالم نویس اگر ایسی کتاب لکھے گا تو اس میں ادب کی چاشنی کا امکان زیادہ ہے۔ اور‘ چونکہ مصنف نے اپنے دور میں ضیاء الحق‘ اور پرویز مشرف کو بھی بھگتایا ہے ا س لیے کتاب کا مخصوص لب و لہجہ مصنف کی مجبوری بھی تھی؛ تاہم حکومتی ارکان کے ساتھ ساتھ بھارتی اداکاروں کے ہمراہ بھی مصنف کے گروپ فوٹوز نظر آتے ہیں۔
مصنف کے قلم میں جو ایک قدرتی روانی ہے وہ قاری کو اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتی۔ چنانچہ جہاں ٹی وی پروگراموں پر مضمون باندھے گئے ہیں وہاں کھیلوں کے حوالے سے بھی تحریریں دستیاب ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ مختلف کھلاڑیوں کے ہمراہ مصنف کے گروپ فوٹوز۔ علاوہ ازیں جنرل ضیاء الحق سے تمغۂ حسنِ کارکردگی وصول کرتے ہوئے تصویر ہے اور جنرل پرویز مشرف کا استقبال کرتے ہوئے۔ کشور ناہید بھی اپنی کتاب میں ایسی بہت سی تصاویر چھاپ سکتی تھیں لیکن انہوں نے اس سے احتراز کیا حالانکہ وہ بھی عمر بھر سرکاری نوکری ہی کرتی رہیں۔
کتاب بہت عمدہ گیٹ اپ میں چھاپی گئی ہے اور 286 صفحات کو محیط اس کتاب کی قیمت 1200 روپے رکھی گئی ہے جو زیادہ ہے حالانکہ ضخامت کے لحاظ سے اس کی قیمت آٹھ سو سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے تھی‘ چنانچہ ایک عام قاری اسے خریدنے سے پہلے کئی بار سوچے گا لیکن شاید عام قارئین کے لیے یہ ہے بھی نہیں۔ ''سنگِ میل‘‘ ایک بڑا نام ہے‘ جو جیسے چاہے چھاپ دے یعنی جیہڑا بھنّو لال اے!
میں نے اس کتاب کو بس اِدھر اُدھر سے سُونگھا ہی ہے‘ اگر اس نے کبھی اپنے آپ کو پڑھوایا تو اس عمل سے بھی ضرور گزرے گی‘ فی الحال تو اتنی اطلاع ہی کافی ہے کہ یہ چھپ کر شائع ہو گئی ہے ع
یار زندہ صُحبت باقی
آج کا مطلع
یہ سنگ چاہئیں نشتے‘ کوئی صنم رئوڑا
بہت زیادہ نہیں ہیں اگر تو کم رئوڑا