ٹی وی چینلز اور ٹی وی پروگراموں کا ریٹنگ سسٹم امریکیوں کی ایجاد ہے۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے اس کی ضرورت محسوس کی اور اس کا طریقہ کار وضع کیا۔ آج پوری دنیا میں ٹی وی پروگراموں اور چینلز کی ریٹنگ متعین کرنے کا یہی طریقہ رائج ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں ریڈیو ہی تفریح کا واحد ذریعہ ہوتاتھا۔ امریکہ کی میڈیا انڈسٹری تو آج بھی ریڈیو کو ابلاغ کا سب سے اہم اور موثر ذریعہ مانتی ہے۔ 1920ء اور 1930ء کے درمیانی عرصے میں بھی ریڈیو ہی خبروں کے حصول اور تفریح کا واحد ذریعہ تھا۔ تب مختلف پروڈکٹس کی اشتہاری کمپنیاں اپنی اشیاء کی تشہیر کے لیے ریڈیو کو منتخب کرتی تھیں۔ اس وقت یہ سوال پیدا ہوا کہ اشتہاری کمپنیاں ریڈیو کے ان پروگراموں کو اشتہار دینا چاہتی ہیں جن کے سامعین کی تعداد زیادہ ہو‘ دوسرے لفظوں میں جو پروگرام سامعین میں زیادہ مقبول ہو تاکہ ان کا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔ اب یہ کیسے پتا چلایا جائے کہ کونسا پروگرام زیادہ مقبول ہے اور کونسا کم؟ اس سوال کے جواب کے لیے دنیا میں سب سے پہلی ریٹنگ پوائنٹ لینے والی کمپنی وجود میںآئی۔ آرتھرسی نیلسن اس کمپنی کا مالک تھا جس نے 1920ء میں اپنا میڈیا کیریئر شروع کیا۔
انہوں نے اس کام کا آغاز بہت سادہ سے انداز میں کیا۔ وہ منتخب گھروں کو مخصوص سوالنامے پر مشتمل ڈائریاں دے دیتے اور گھر کے افراد اس میں اپنے پسندیدہ پروگراموں کا اندراج کرتے۔ ان ڈائریوں کے ذریعے کمپنی ڈیٹا جمع کرتی۔1950ء تک ٹی وی کی آمد میڈیا انڈسٹری میں انقلاب برپا کر چکی تھی۔ نیلسن کمپنی نے 1950ء میں ہی ٹی وی پروگراموں کی ریٹنگ پر بھی کام کرنا شروع کردیا۔ وہی طریقہ آج پوری دنیا میں رائج ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹی وی کے لیے بھی انہوں نے آغاز میں وہی طریقہ استعمال کیا‘ جو ریڈیو پروگراموں کی ریٹنگ چیک کرنے کے لیے کیا کرتے تھے۔ مختلف علاقوں کے مخصوص گھروں میں ڈائریاں دی جاتیں جن پر ٹی وی کے ناظرین اپنے پسندیدہ پروگراموں کا اندراج کرتے۔ ایک ماہ بعد ان ڈائریوں سے پروگراموں کی ریٹنگ اکٹھی کی جاتی۔ 1970ء میں پہلی بار نیلسن کمپنی نے ریٹنگ ناپنے کے لیے ایک جدید سسٹم متعارف کرایا‘ جس میں ایک جدید ڈیوائس آڈٹ میٹر (Audit meter) استعمال کیا گیا‘ مگر طریق کار وہی پرانا تھا۔ چند منتخب گھروں کے ٹی وی سیٹ کے ساتھ یہ ڈیوائس لگا دیا جاتا جو روزانہ کی بنیاد پر ویوئنگ انفارمیشن، فون لائنز کے ذریعے کمپنی کے کمپیوٹر کو بھیج دیتا۔ اس طرح ایک مہینے کے بعد جو ڈیٹا اکٹھا ہوتا اس سے ریٹنگ چارٹ بنایا جاتا کہ کونسا پروگرام ناظرین میں زیادہ مقبول ہے۔ ریٹنگ سسٹم کی اہمیت اس لیے بڑھتی گئی کہ اس کی بنیاد پر اشتہاری کمپنیاں ٹی وی چینلز کو اشتہارات دیتیں‘ جس پر ٹی وی کی کمائی کا انحصار ہوتا ہے۔ آج بھی پروگراموں کی ریٹنگ جاننے کا بنیادی طریقہ یہی ہے۔
امریکہ میں میڈیا ایکسپرٹ اس پر بہت اعتراض کرتے ہیں۔ ان کا پہلا اعتراض یہ ہے کہ ناظرین صرف اپنے گھروں میں رکھے ٹی وی سیٹ پر ہی پروگرام نہیں دیکھتے بلکہ انٹرنیٹ، سمارٹ فونز، ٹیبلٹ اور آئی فونز آجانے سے کوئی شخص،کہیں بھی بیٹھا، اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھ سکتا ہے۔ اسے میڈیا ایکسپرٹ آلٹرنیٹ میتھڈ فار ٹی وی ویور شپ کا نام دیتے ہیں۔ زندگی جتنی تیز اور مصروف ہوتی جا رہی ہے، لوگ پروگرام دیکھنے کے لیے ایسے میڈیم کا انتخاب زیادہ کرنے لگے ہیں، جس سے وہ کئی کئی منٹ کے اشتہارات دیکھنے سے بچ سکیں۔ یہ سہولت انہیں آن لائن ہی میسر آ سکتی ہے۔ ان کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ جن مخصوص گھروں میں ریٹنگ جاننے کے لیے آڈٹ میٹر لگایا جاتا ہے‘ ٹی وی چینلز کے مالکان، ان پر اثرانداز ہوسکتے ہیں‘ ان کی رائے خرید سکتے ہیں۔ اور تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ریٹنگ جاننے کا یہ طریق کار صرف گھروں کو اپنے سروے میں شامل کرتا ہے؛ ہوٹلوں، ہوسٹلوں،دکانوں اور دوسرے پبلک مقامات پر دیکھے جانے والے ٹی وی پروگراموں کا کوئی ریکارڈ حاصل نہیں کیا جاتا۔ میڈیا ایکسپرٹس کے یہ تینوں اعتراضات اپنی جگہ وزن رکھتے ہیں۔
اب ہم اپنے ملک کی طرف آتے ہیں۔ میڈیا لاجک کے سی ای او کے بقول ایک نجی چینل نے آڈٹ میٹر والے چند مخصوص گھروں کو باقاعدہ ماہانہ رشوت دے کر ان کی رائے خریدی‘ جس سے اس چینل کے پروگراموں کی جعلی ریٹنگ میں اضافہ ہوتا گیا‘ یہاں تک کہ اس کے پروگراموں نے ریٹنگ چارٹ پر پہلا درجہ حاصل کر لیا۔ اس بنیاد پر چینل نے کروڑوں کے اشتہارات حاصل کیے اور ناظرین میں مقبول دوسرے چینلز کو کئی کروڑ کا مالی نقصان پہنچایا۔ اس کرپشن اور بددیانتی پر فی الحال پی بی اے نے چینل کا لائسنس معطل کر دیا ہے اور اُس سے جواب طلب کیا ہے۔
امریکی نیلسن کمپنی نے ایک بار اپنا ریٹنگ ریکارڈ چند ماہ کے لیے روک لیا تھا‘ جس کی وجہ یہ تھی کہ لاس اینجلس میں منتخب گھروں میں سے ایک ایسا تھا جو کسی مخصوص پروگرام کودیکھنے کے لئے ماہانہ معاوضہ لیتا تھا۔ اس پر میڈیا ایکسپرٹ نے ریٹنگ پوائنٹس حاصل کرنے کے اس طریقہ کار پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسا نظام ہے جس میں لاس اینجلس کا ایک گھر، امریکہ کی میڈیا انڈسٹری کے ریونیو کو تہہ و بالا کرسکتا ہے؟ پاکستان میں بھی اس طریقہ کار کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔ ضابطہ اخلاق بننا چاہیے کہ ریٹنگ کے خبط میں بعض ٹی وی چینلز کس طرح کا مواد ناظرین کو دکھا رہے ہیں۔ مارننگ شوز اس کی مثال ہیں۔ اعلیٰ خیال اور مثبت سوچ سے عاری مارننگ شوز ریٹنگ بڑھانے کے لیے کیا کیا تماشے کرتے نظر آتے ہیں۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ریٹنگ بڑھانے کے خبط میں مبتلا ٹی وی چینلز مذہب کے نام پر اودھم مچائے رکھتے ہیں۔ اس پر بھی پابندی ہونی چاہیے اور کچھ قواعد و ضوابط ضرور ہونے چاہیے‘ تاکہ ایسا نہ ہو کہ کل کلاں لوگ ایک مقبول محاورے میں ریٹنگ کا اضافہ کرکے اسے یوں بولنے لگیں کہ ''جنگ، محبت اور ریٹنگ میں سب جائزہے!‘‘