مواقع بے شمار ہیں مگر قانون کی حکمرانی کے تصور سے بے بہرہ اور لالچ میں اندھے سیاستدان نوشتۂ دیوار پڑھنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ اللہ ان پہ رحم کرے۔
سیاستدانوں کی سمجھ میں یہ بات کب آئے گی کہ سول اداروں کو اگر فعال نہ کیا گیا‘ عوامی امنگوں اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کیا گیا تو فوج کا کردار بڑھتا جائے گا جو پہلے ہی معمول سے زیادہ ہے‘ دنیا کے کسی بھی اور ملک سے زیادہ۔
کراچی میں‘ مشیر خارجہ اور دو سابق وزرائِ خارجہ خورشید محمود قصوری اور حنا ربانی کھر کے ساتھ مکالمے کے لیے جمع ہوئے۔ جناب سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ چین کے ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھر آنے‘ پاکستان میں تجارتی راہداری کی تعمیر اور خطے میں روس کی بڑھتی ہوئی دلچسپی نے خارجہ امور میں نئے امکانات پیدا کر دیے ہیں۔ ایک نکتے کی بات یہ کہی کہ آخری تجزیے میں خارجہ معاملات کا انحصار داخلی پالیسیوں پر ہی ہوتا ہے۔ حنا ربانی کھر نے تاثر دینے کی کوشش کی کہ پاک بھارت تعلقات استوار کرنے میں فوج ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ تب مشیر خارجہ نے مودی حکومت کے طرزِعمل کی طرف اشارہ کیا‘ جو ایک کے بعد دوسرا مسئلہ پیدا کرنے میں لگی رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ کراچی‘ قبائلی پٹی اور بلوچستان میں تخریب کاری کے لیے 'را‘ کی طویل المیعاد منصوبہ بندی کی نشان دہی کر رہے تھے۔ پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات اچھے ہونے چاہئیں۔ پاکستان کے باب میں یہ اور بھی اہم ہے کہ 1971ء ایسے المیے سے دوچار ہو چکے ہیں۔ ہر حال میں جنگ کو ہمیں ٹالنا چاہیے‘ مگر سیاستدانوں میں بعض دو نکات کو اکثر نظر انداز کرتے ہیں۔ اولاً‘ بھارتی عزائم۔ ثانیاً‘ سیاسی جماعتوں کی جمہوری تشکیل‘ پارلیمان اور کابینہ کو مضبوط تر کرنے کی ضرورت۔ دہلی کے ساتھ پاکستان کے مراسم میں شاید کچھ بہتری آ گئی ہوتی‘ اگر وزیراعظم
نوازشریف اس بے تابی اور عجلت کا مظاہرہ نہ کرتے‘ جس سے کمزوری کا گہرا تاثر پیدا ہوا۔ اگر وہ من موہن سنگھ کو تقریب حلفِ وفاداری کے لیے مدعو نہ کرتے۔ اگر وہ نریندر مودی سے ملاقات کا وعدہ کرنے میں اس قدر عجلت کا مظاہرہ نہ کرتے۔ اگر وہ بھارتی تاجروں‘ صنعت کاروں اور میڈیا کے سامنے اس طرح بچھ بچھ نہ جاتے۔ زندگی خوابوں میں نہیں پلتی‘ حقائق کے ادراک سے نمو پاتی ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کو ہوا دینے والے اس ملک میں بھی موجود ہیں اور وہ تاریخی شعور سے بے بہرہ ہیں مگر جو لجاجت کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ فروغ امن کے مددگار وہ بھی نہیں۔ دشمنی کی تاریخ رکھنے والے ممالک میں خوف کا توازن ہی امن کا ضامن ہوا کرتا ہے۔ آرزو امن ہی کی ہونی چاہیے‘ مگر جیسا کہ قرآن حکیم کہتا ہے: اپنے گھوڑے تیار رکھنے چاہئیں۔ خوف ایک ہتھیار ہے‘ انفرادی ہی نہیں‘ اجتماعی زندگی میں بھی‘ جسے سلیقہ مندی سے استعمال کرنا چاہیے۔ بھارتی رائے عامہ کو پیہم یہ پیغام ہمیں دینا چاہیے کہ ہم تمام تر جھگڑے نمٹا دینے کے خواہش مند ہیں مگر اس لیے نہیں کہ ہم کمزور ہیں بلکہ اس لیے کہ امن ہی نشوونما کا ذریعہ ہوتا ہے اور یہ کہ دل و جان سے ہم اس کے آرزو مند ہیں۔ بھارت کے فعال طبقات کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جس ترقی اور فروغ کے وہ آرزو مند ہیں‘ مخاصمت کو حقیقی طور پر تحلیل کرنے سے ہی اس کا حصول ممکن ہے۔ بھارت کو اگر وسطی ایشیا کا راستہ درکار ہے اور یقینا درکار ہے تو باتیں بنانے کی بجائے فی الواقع دوستی کا دروازہ اسے کھولنا ہوگا۔ کشمیر کے تنازعے کا خاتمہ کیے بغیر یہ کسی طرح ممکن نہیں۔ کشمیر کے باب میں اب زیادہ تشویش کی ہمیں ضرورت نہیں۔ آزادی کا ولولہ دلوں میں گھر کر چکا۔ اب یہ ایک حقیقی عوامی تحریک ہے اور عوامی تحریکیں کبھی نہیں مرا کرتیں۔
برصغیر میں روس کی بڑھتی ہوئی دلچسپی بدلتے ہوئے حالات کی پیداوار ہے۔ بظاہر یوکرائن کی جنگ کے طفیل امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے عائد کردہ پابندیاں اس کا فوری سبب ہیں۔ مگر دوسرے عوامل بھی کارفرما ہیں۔ ایک تو یہ کہ قوموں کا اجتماعی لاشعور ماضی کے ملبے سے آسانی کے ساتھ چھٹکارا نہیں پا سکتا۔ تین سو سال تک بڑھتے پھیلتے روس اور پھر سوویت یونین کو‘ جس میں قوم پرستی کا شعور بہت گہرا ہے‘ مغرب شک کی نظر سے دیکھتا آیا ہے۔ ثانیاً' برصغیر میں بڑھتے ہوئے امریکی اثرات چین کی طرح روس کے لیے بھی تشویش کا باعث ہیں۔ ثالثاً‘ اپنے اسلحہ‘ مشینری اور تیل کے لیے روس کو منڈیوں کی تلاش ہے۔ ڈیڑھ ارب آبادی کو وہ نظرانداز نہیں کر سکتا۔
یہ ایک تاریخی موقعہ ہے مگر بظاہر ہمارے ممتاز سیاستدانوں کو اس کی اہمیت کا ادراک نہیں۔ زرداری صاحب کو اپنے کاروبار کی فکر ہے یا اپنی پارٹی کو بچانے کی۔ اب بھی انہیں اندازہ نہیں ہو سکا کہ جس راستے پر وہ گامزن ہیں‘ وہ تباہی کا راستہ ہے۔ کراچی میں انہیں اور ان کے ساتھیوں کو فقط روپیہ بنانے سے دلچسپی ہے‘ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت کا کردار محدود سے محدود تر ہوتا جا رہا ہے۔ اندرون سندھ‘ جہاں 2013ء کے الیکشن میں ڈٹ کر انہوں نے دھاندلی کی‘ اپنے مخالفین کی زندگی انہوں نے اجیرن کر رکھی ہے۔ الیکشن سے قبل ایک ایک وڈیرے کو گھیر کر پارٹی میں شامل کیا گیا‘ جنہوں نے انکار کردیا‘ الیکشن کے فوراً بعد انہیں زچ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ گزشتہ ہفتے ایک ملاقات میں پیر صاحب پگاڑا نے بتایا کہ انتخابات سے قبل زرداری صاحب نے انہیں پانچ ارب روپے کی پیشکش کی‘ جو انہوں نے ٹھکرا دی۔ صلہ اس کا یہ ہے کہ حکومت کی تشکیلِ نو کے بعد ان کے حامیوں کے خلاف پے در پے مقدمات بنائے گئے۔ پیر صاحب کے مطابق ان کے حامیوں کو بسوں سے اتار کر قتل کیا گیا۔ سال گزشتہ جب میاں نوازشریف کے ایما پر پیر صاحب کی پارٹی فنکشنل لیگ سے مفاہمت کی بات چلی تو ثانی الذکر نے جھوٹے مقدمات ختم کرانے کا تقاضا کیا۔ نوازشریف ان کی مدد نہ کر سکے۔ غالباً زرداری صاحب سے تعلق انہیں عزیز ہے۔ اب یہی شکایت سندھ کے ایک اور ممتاز فرزند لیاقت جتوئی نے کی ہے‘ جن کا خاندان بھٹو دور سے پیپلزپارٹی کی مزاحمت کرتا آیا ہے۔ لیاقت جتوئی ایک ذہین اور حوصلہ مند آدمی ہیں۔ آج بھی بھٹو کا ذکر وہ احترام سے کرتے ہیں۔ پھر وہ سوال کرتے ہیں کہ زرداری صاحب نے اگر ان کی زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے تو وہ کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ جتوئی صاحب کو پارٹی میں شامل کرتے ہوئے میاں صاحب نے ان کی مدد کا وعدہ کیا تھا۔ اسی وعدے پر وہ نون لیگ کا حصہ بنے تھے۔ سال بھر انتظار کرنے کے بعد ممتاز بھٹو کی طرح اپنے راستے انہوں نے الگ کر لیے۔ اب ان سے شریف خاندان کا کوئی رابطہ نہیں اور جتوئی صاحب کے بقول سندھ میں نون لیگ کو منظم کرنے کا موقعہ کھو دیا گیا ہے۔ بظاہر اس صوبے میں ایک نیا اتحاد ابھرتا نظر آتا ہے‘ تحریک انصاف بھی شاید جس کا ایک حصہ ہو۔ زرداری صاحب من مانی ترک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور میڈیا کی نگاہوں سے دور دیہی سندھ میں ظلم کا بازار گرم ہے۔
اٹک کے بعد‘ جہلم کے گائوں ڈومیلی میں ڈینگی سپرے کے دوران ڈیڑھ سو طالبات کے بے ہوش ہو جانے کا واقعہ کس چیز کا مظہر ہے؟ یہ شہبازشریف کے طرزِ حکومت کی ناکامی ہے۔ ایک ایک تھانے‘ ایک ایک یونین کونسل اور ایک ایک افسر کو وہ براہ راست کنٹرول کرنے کے آرزو مند ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی‘ نگرانی اور احتساب کا کوئی نظام موجود نہیں۔ صوبائی وزارت صحت کو سپرے کے لیے کوئی طریق کار (S.O.P) بنانا چاہیے تھا۔ تربیت دی ہوتی‘ کچھ غیرتحریری ہدایات۔ زندگی ‘آزادی اور ڈسپلن کے امتزاج میں فروغ پاتی ہے‘ خوف زدگی میں ‘صلاحیت کندہو جاتی اور خوشامد پسندی جنم لیتی ہے۔ جدید پنجاب کے لیے یہی شہبازشریف کا تحفہ ہے۔
حکمران خاندانوں کے کاروبار چمک رہے ہیں۔ اخبار نویسوں کو ان اطلاعات کا جائزہ لینا چاہیے کہ پارک لین لندن میں شریف خاندان نے مزید جائیدادیں خریدی ہیں‘ اتنی کہ بھائو بڑھ گئے۔ جنوبی افریقہ میں بھی۔ اگر یہ درست ہے تو پرلے درجے کی ناعاقبت اندیشی کے سوا یہ کیا ہے؟ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے بعد شریف خاندان کے احتساب کا مطالبہ بڑھتا جا رہا ہے۔ نندی پور نے بہت سے سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ قطر سے ایل این جی کی درآمد کے نرخ پوشیدہ اور خفیہ کیوں ہیں؟۔
عہد جدید کے ملک سیاستدان اور سول ادارے ہی چلا سکتے ہیں۔ تلخ سچائی مگر یہ ہے کہ پاکستان کو فوج نے بچا رکھا ہے۔ مواقع بے شمار ہیں مگر قانون کی حکمرانی کے تصور سے بے بہرہ اور لالچ میں اندھے سیاستدان نوشتۂ دیوار پڑھنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ اللہ ان پہ رحم کرے۔