ان دنوں جب پناہ گزینوں کا بحران میڈیا کی ہیڈ لائنز پر چھایا ہوا ہے، جرمی کوربائن (Jeremy Corbyn) لیبر پارٹی کی قیادت سنبھالتے دکھائی دیتے ہیں۔ دی گارڈین میں شائع ہونے والی اس خبر نے میری توجہ حاصل کرلی کہ ''ملکہ کے ذاتی نمائندے، پال سبپاتھی(Paul Sabpathy) نے افشا ہونے والی ایک ای میل پر اٹھنے والے ہنگامے کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا ہے‘‘۔
برطانیہ میں بہت سے قدیم القابات اب بھی مستعمل ہیں۔ ان میں سے ایک لقب ملکہ معظمہ کے لارڈ لیفٹیننٹ کا ہے۔ شروع میں یہ جنٹل مین ہرکائونٹی میں ملکہ یا بادشاہ کی نمائندگی کرتے تھے، لیکن آج کل یہ ایک برائے نام عہدہ ہے۔ اب ان کی نامزدگی وزیر ِاعظم کرتا ہے۔ مسٹر سبپاتھی، جن کا تعلق بھارت کے شہر چنائے سے ہے، ویسٹ مڈلینڈ کے لارڈ لیفٹیننٹ تھے۔ برمنگھم میں پاکستانی قونصل خانے میں ہونے والی یوم ِ آزادی کی تقریب میں وہ بھی مدعوتھے۔ اُن کی تقریر کے دوران کچھ افراد کا گروہ مسلسل باتیں کرتا رہا جس پر وہ ناراض ہوگئے۔ ان کی ای میل میں، جو منظر ِعام پر آگئی، اُنہوں نے اپنے خیالات کا اظہار ان الفا ظ میں کیا: ''پاکستانی پیارے لوگ ہوتے ہیں لیکن اُنہیں بنیادی شائستہ رویہ اوراچھا اخلاق سکھانے کے لیے کافی محنت کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے ہی لوگوں سے باتیں کرتے ہیں اور وسیع ترکمیونٹی سے رابطہ نہیں رکھتے۔ اُنہیں احساس ہونا چاہیے کہ وہ پاکستان میں نہیں برطانیہ میں رہ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے، اُنہیں اپنے پاکستانی کلچر پر بجا طور پر فخر ہو، لیکن اگر وہ چاہتے ہیںکہ ان کے بچے کامیاب پاکستانی نژاد برطانوی شہری بنیں توانہیں غیر پاکستانی افراد سے ملتے ہوئے اچھے رویوںکا ثبوت دینا چاہیے‘‘۔
اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد پال سبپاتھی نے یہ معذرت خواہانہ بیان دیا: ''میں پاکستانی کمیونٹی سے ٖغیر مشروط طور پر، سچے دل سے معافی چاہتا ہوںکہ میرے الفاظ نے اُن کی دل آزاری کی‘‘۔ اُن کی طرف سے استعفے اور معذرت کے بعد بھی کچھ عوامی نمائندوں نے ان پر تنقید کرنا ضروری سمجھا۔ جہاں تک پال سبپاتھی کی ای میل کا تعلق ہے، اس میں ہمارے سوچنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ کیا برطانیہ میں رہنے والے پاکستانیوں کو اچھے آداب اور سماجی رویے سیکھنے کی ضرورت نہیں؟ انگلینڈ میں ایک عشرے سے سال کا خاطر خواہ حصہ گزارنے کے بعد میں اس حقیقت کی تصدیق کرسکتا ہوںکہ تعلیم یافتہ درمیانے طبقے میں اگر اورکچھ نہیں تو کم ازکم شائستگی کا لیول گرکر حماقت کے درجے کو چھو رہا ہے۔ اگر چلتے ہوئے کسی اجنبی سے ٹکر ہوجائے تو ممکن ہے، وہ آپ سے معذرت کرے گا۔ ہوسکتا ہے، آپ کسی ریستوران میں بیٹھے ہوں اور ویٹر سے پانی کا گلاس لانے کے لیے کہنا ہو تو آپ کہیںگے: ''میں معافی چاہتا ہوں، اگر آپ کے پاس وقت ہو تو مہربانی کر کے مجھے ایک گلاس پانی لادیں‘‘۔ ہوسکتا ہے، میں کچھ مبالغے سے کام لے رہاہوں، لیکن (پاکستانی کمیونٹی میں) یہ عنصر اتنا زیادہ نہیں ہے۔
قطاربنانا ایک عمدہ فن ہے۔ اگرکسی کائونٹر پر دو برطانوی شہری ہوں تو وہ فوراً قطار بنالیںگے۔ تھیٹر میں ایکٹ کے بعد ہونے والے وقفے میں تماشائی بارکی طرف لپکتے ہیں۔ چونکہ رش زیادہ اور وقت کم ہوتا ہے، اس لیے بارکا سٹاف ممکنہ حد تک تیزی سے سب کو ڈرنکس سروکرنے کی کوشش کرتا ہے؛ تاہم وقت کم ہونے کی وجہ سے کچھ کو ڈرنکس نہیں مل پاتے۔ اگر سٹاف پیچھے کھڑے کسی شخص سے آرڈر لینے کی کوشش کرے تو آگے کھڑا شخص کہے گا: ''معافی چاہتاہوں، میرا خیال ہے، میری باری پہلے ہونی چاہیے‘‘۔ درحقیقت قطار توڑکر آگے بڑھنا انتہائی شرمناک حرکت سمجھی جاتی ہے؛ تاہم غیر ملکی، جو اس رویے کے عادی نہیں ہوتے اور وہ اپنے ملک میں اہم افراد بھی ہوں تو دوسروںکو دھکیل کر آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُنہیں فوراً یاد دلایا جاتا ہے کہ اب وہ برطانیہ میں ہیں۔ انہیں''بدتمیز غیر ملکی‘‘ کہا جاتا ہے،گو زیر لب، اُونچی آواز میں کسی کی دل شکنی کا باعث بننا تہذیب کے خلاف ہے۔
مجھے اکثر انگریز دوست پوچھتے ہیںکہ میرے ملک کے لوگ گزرتے ہوئے مسکراہٹ کا تبادلہ کیوںنہیں کرتے یا ہیلو کیوں نہیں کہتے؟ لندن یا دوسرے بڑے شہروں میں تو ہر شخص انتہائی جلدی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی کوشش میں ہوتا ہے، لیکن چھوٹے شہروں اور دیہاتی علاقوں میں شائستگی اب بھی موجود ہے۔ مجھے اکثر یہ خوشگوار تجربہ ہوا ہے کہ اگر آپ سڑک پارکرنے کے لیے ٹریفک کم ہونے کا انتظار کر رہے ہوں تو ڈرائیورگاڑی روک کر آپ کو ہاتھ کے اشارے سے سڑک پارکرنے کا کہیںگے۔ اس مہربانی کا شکریہ اداکرنے کے لیے آپ ہاتھ ہلاتے ہیں۔ اکثر غیر ملکی باشندے ایسا کیے بغیر تیزی سے سڑک پارکرنے لگتے ہیں۔ اس پر گاڑی روکنے والے ڈرائیوروں کو لازمی طور پر غصہ آتاہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے باشندے ریستورانوں کے ویٹروں یا دوکانوںکے سٹاف کو ایسے لہجے میں آرڈر دیتے ہیں جسے برطانیہ میں بدتمیزی سمجھا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے، وہ اس ''دیسی رویے‘‘ کوایک ایسے معاشرے کا المیہ سمجھتے ہیں جو انسانوں کا احترام کرنے کی اعلیٰ روایت تو رکھتا ہے، لیکن اسے اپنے ملازموںکو نہیں سکھا پاتا۔
اس کے علاوہ مغربی کلچرکو سمجھنے میں پائی جانے والی غلطی بھی ہمیں غیر شائستہ ظاہرکرتی ہے۔ مثال کے طور پر مسلمان عورتیں اجنبی مردوںسے ہاتھ نہیں ملاتیں۔ جب کسی عورت کوکسی برطانوی مرد سے متعارف کرایا جائے تو صاحب ہاتھ آگے بڑھا دیںگے۔ ظاہر ہے، مسلمان عورت اُس سے ہاتھ نہیں ملائے گی۔ برطانوی سمجھے گا کہ وہ عورت اُس کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئی ہے۔ ہمارے مذہبی احساسات بھی پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ جب قدامت پسند مسلمانوں کو برطانوی گھروں میں کھانے پر بلایا جاتاہے تو وہ انکارکر دیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے، میز پر ''پورک‘‘ نہ ہو، لیکن اُنہیں ڈر رہتا ہے کہ ان برتنوں میں حرام جانور کوبھی پکایا جاتا ہے۔ اس رویے کو غیر شائستہ سمجھا جاتا ہے۔
پال سبپاتھی کی شکایت پر واپس آجائیں۔ ہم اپنے ملک میں اکثرکسی کی تقریر یا موسیقی کی محفل کے دوران باتیں کرتے ہوئے قریب بیٹھے ہوئے افرادکو زچ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔کراچی میں موسیقی کی محفل میں مجھے اپنے قریب بیٹھے ہوئے احباب کو خاموش کرانا پڑتا ہے، لیکن مغرب میںاس بدتمیزی کاتصو ربھی نہیں کیا جا سکتا۔ ادھر اُدھر کوڑا پھینکنا بھی غیر ملکیوں اور برطانوی شہریوںکے درمیان فرق کی گہری لکیرکھنچتا ہے۔ جب میرا ایسے علاقوںسے گزر ہوتا ہے جہاں پاکستانی، ہندوستانی اور بنگلہ دیشی باشندے بڑی تعداد میں آباد ہوں تو یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ فٹ پاتھ شاپنگ بیگز، گتے کے ڈبوں اور بیکارکاغذوں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ بدتمیزی ہم جنوبی ایشیا سے اپنے ساتھ یہاں لاتے ہیں۔ برطانوی شہری کوڑا کرکٹ ادھر اُدھرپھینکنے کا تصور بھی نہیںکرسکتے۔ مجھے یقین ہے کہ پال سبپاتھی کا بھارتی ہونا ہماری دل شکنی کا باعث بنا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اُنہوں نے کوئی غلط بات نہیں کی تھی۔