تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     14-09-2015

معمولی خواہشیں

ہم امریکہ میں ہیں اور مسلسل سفر ہے۔ سہیل وڑائچ‘ ڈاکٹر حسین پراچہ‘ سید وصی شاہ اور میں ''اکناریلیف‘‘ کے لیے فنڈ ریزنگ کے سلسلے میں یہاں آئے ہوئے ہیں۔ اکنا ریلیف دراصل امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کی تنظیم ''ICNA‘‘ یعنی اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کا ہی حصہ ہے جو فلاحی کاموں کے لیے وقف ہے۔ امریکہ میں مسلمانوں کی دو بڑی تنظیمیں ہیں۔ اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ اور اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ۔ اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کا قیام 1971ء میں عمل میں آیا؛ تاہم عملی طور پر یہ 1968ء سے ہی متحرک تھی اور اس کا بنیادی ماخذ مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن تھا۔ 
ہم فلاڈیلفیا سے شکاگو جا رہے تھے۔ ڈاکٹر حسین پراچہ جہاز میں میرے ساتھ والی قطار میں تھے۔ ان کے ساتھ ایک لمبا تڑنگا صحت مند جوان امریکی بیٹھا ہوا تھا۔ ابھی پرواز شروع ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ڈاکٹر پراچہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے نوجوان نے اپنے بیک پیک میں سے ایک گول ڈبیا نکالی اور اس میں سے سبزی مائل سیاہ رنگ کا سفوف سا نکالا اور گال کے ایک طرف دبا لیا۔ پھر اپنے بیک پیک سے ایک پلاسٹک کی بوتل نکالی اور اس میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد تھوکنے لگ گیا۔ ڈاکٹر پراچہ نے اس سے پوچھا کہ اس ڈبیا میں کیا ہے؟ وہ کہنے لگا‘ It is "Naswar"۔ پراچہ صاحب نے پوچھا کہ تمہیں اس کا نام آتا ہے؟ کہنے لگا ہاں! پراچہ صاحب نے پوچھا کہ تم نے نسوار کھانا کیسے شروع کی؟ کہنے لگا‘ میں نے یہ افغانستان میں کھانی شروع کی تھی۔ میں افغانستان میں امریکہ کی طرف سے کئی سال فوجی خدمات سرانجام دیتا رہا ہوں۔ اس دوران میں نے نسوار کھانا شروع کی۔ مجھے یہ عادت افغان فوجیوں نے ڈالی تھی جو ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ وہاں یہ نسوار بڑی آسانی سے خاصی سستی مل جاتی تھی۔ ڈاکٹر پراچہ نے پوچھا اور یہاں؟ وہ کہنے لگا‘ یہاں بھی مل جاتی ہے۔ تھوڑی دقت ہوتی ہے لیکن صرف نئی جگہ پر جہاں پتہ نہیں ہوتا کہ کہاں سے ملے گی‘ وگرنہ امریکہ میں بڑے شہروں میں مل جاتی ہے۔ ڈاکٹر پراچہ نے پوچھا کہ اس کے بغیر کیسے محسوس ہوتا ہے؟ کہنے لگا‘ اب تو عادت پڑ گئی ہے اس لیے کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ لیتا ہوں۔ اس نے بتایا کہ صرف وہ اکیلا نہیں‘ اور بہت سے امریکی فوجی نسوار کی عادت میں مبتلا ہیں اور اس کے علاوہ دیگر منشیات بھی استعمال کرتے ہیں۔ افغانستان میں فوجی ملازمت کے دوران وہاں جنگی دبائو اور سٹریس کے باعث نسوار وغیرہ کی طرف مائل ہونا عام سی بات تھی۔ گورے کو نسوار کا رسیا دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کم از کم افغان جنگ کے اثرات کو امریکی اس گورے کی نسوار میں دیکھتے رہیں گے۔ 
امریکہ میں ایئرپورٹس کا نظام نہایت عمدہ طریقے سے چلایا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں کسی ایئرپورٹ پر بیک وقت پانچ فلائٹس آپریٹ کرنی پڑ جائیں تو مصیبت کھڑی ہو جاتی ہے۔ امریکہ میں بڑے جہازوں میں دو تین ایئرہوسٹس اور چھوٹے جہازوں میں محض ایک ایئرہوسٹس سے کام چلتا ہے اور خوب چلتا ہے۔ اٹلانٹا ایئرپورٹ سے روزانہ دو لاکھ ساٹھ ہزار مسافر تقریباً اڑھائی ہزار پروازوں کے ذریعے اندرون ملک اور پینتالیس ممالک میں ساٹھ مقامات پر جاتے ہیں۔ ساڑھے تینتیس ہزار گاڑیوں کی پارکنگ ہے۔ چالیس دروازے بین الاقوامی پروازوں کے لیے اور ایک سو سڑسٹھ دروازے اندرون ملک پروازوں کے لیے مختص ہیں۔ ہر ڈیڑھ منٹ بعد تقریباً ایک جہاز اترتا ہے یا اڑتا ہے۔ پانچ رن وے ہیں اور کئی ٹرمینل۔ جہازوں کی روانگی میں تاخیر بھی ہوتی ہے مگر اس کی بنیادی وجہ بھی یہی رش ہے کہ بعض اوقات جہاز کو اترنے کے لیے جگہ نہیں ملتی اور کبھی کبھار اڑنے کے منتظر جہازوں کی اتنی لمبی قطار لگ جاتی ہے کہ الامان۔ اصل بات جو دیکھنے میں آئی وہ لوگوں کی قوت برداشت اور صبر ہے۔ میں امریکہ ڈیلٹا ایئر کی فلائٹ پر پہنچا۔ جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ نیویارک میں رن وے پر کام ہو رہا تھا اور ایک رن وے بند تھا۔ باقی رن ویز پر دبائو زیادہ تھا۔ ہمارے جہاز کو اترنے کے بعد دوسرے ٹرمینل پر جانا تھا مگر درمیان میں آنے والے رن وے پر اڑنے والے جہازوں کی ایک لمبی قطار تھی جو ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہی تھی۔ ہم ایئرپورٹ پر اترنے کے بعد پورے ایک گھنٹہ چالیس منٹ تک جہاز میں پھنسے رہے۔ پائلٹ ہر پندرہ بیس منٹ بعد چند منٹ کے مزید انتظار کی درخواست کر کے بے فکر ہو جاتا تھا۔ تمام مسافر نہایت اطمینان سے بیٹھے رہے۔ حتیٰ کہ تین چار اعلانات کے بعد مسافروں نے گرمی کھانے کے بجائے اعلان کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔ جب جہاز اپنے دروازے پر لگا تب لوگ اپنی سیٹوں سے اٹھے۔ کسی نے افراتفری نہیں مچائی۔ امریکہ میں بے تحاشا سفر کے دوران میں نے شاید ہی کبھی دیکھا ہو کہ سیٹ بیلٹ باندھے رکھنے کے نشانات جلتے ہونے کی صورت میں کسی نے اپنی سیٹ بیلٹ کھولی ہو یا اٹھ کر بھاگ دوڑ مچائی ہو۔ 
ہمارے ہاں ابھی جہاز ایپرن پر چل رہا ہوتا ہے کہ یار لوگ اُٹھ کر اپنا سامان نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ افراتفری میں اکثر اوقات سامان نیچے بیٹھے مسافر پر گرتا ہے۔ جلد باز حضرات اپنا سامان اٹھاتے ہیں اور جہاز کی راہداری میں کھڑے مسافروں کو دھکے دیتے ہوئے فٹا فٹ دروازے پر پہنچتے ہیں۔ دو چار مسافروں کے پائوں کچلتے‘ کندھے مارتے ہوئے وہ سب سے پہلے سیڑھیاں اترتے ہیں اور سامنے کھڑی بس میں سوار ہو جاتے ہیں۔ بس تبھی چلتی ہے جب بھر جاتی ہے۔ ان کی ساری پھرتیاں‘ دھکم پیل اور افراتفری کا زیادہ سے زیادہ فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لائونج میں باقی لوگوں سے پچیس تیس سیکنڈ پہلے داخل ہوتے ہیں اور پھر سامان والی بیلٹ کے پاس اداس کھڑا ہو جاتے ہیں کہ ان کا سامان نہیں آیا ہوتا۔
امریکہ میں دوران سفر جہاز سے اترتے وقت اتنا سکون ہوتا ہے کہ بعض اوقات پریشانی ہونے لگتی ہے کہ کسی کو ذرا جلدی نہیں۔ جہاز رکتا ہے اور جب تک سیٹ بیلٹس باندھے رکھنے کے نشانات بجھ نہیں جاتے نوے پچانوے فی صد مسافر اپنی سیٹ بیلٹ باندھے رکھتے ہیں۔ پھر بڑی ترتیب سے پہلی سیٹ والے مسافر اٹھیں گے۔ وہ اپنا سامان اوپر والے خانے سے نکالیں گے اور باہر چل پڑیں گے پھر دوسری قطار والے اور اسی طرح آخری قطار تک۔ درمیان میں شاید ہی کوئی مسافر ہو جو اس ترتیب کو توڑے۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ بعض اوقات اوپر والے خانے میں جگہ نہ ہو اور اس نے اپنا سامان پیچھے کہیں رکھ دیا ہو تو وہ اپنے سامان کو اٹھانے کے لیے راہداری میں کھڑے مسافروں کے درمیان سے گزرتا ہوا پیچھے جائے؛ تاہم اکثر یہ ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے کھڑا شخص اس سے اس کے سامان کا پوچھے گا اور اپنے سے پیچھے والے کو کہے گا کہ ان صاحب کا سامان وہ سامنے خانے میں پڑا ہے نکال دیجیے۔ اس کا سامان دو تین ہاتھوں سے ہوتا ہوا اس کے پاس پہنچ جائے گا۔ 
ہم پاکستان میں ہر بات پر کہتے ہیں کہ غربت ہے‘ تعلیم کی کمی ہے‘ اس لیے لوگوں کو شعور نہیں ہے۔ اب بھلا جہاز میں بیٹھنے والا شخص غریب تو نہیں ہو سکتا کہ ملتان سے لاہور کا کرایہ کسی غریب کی مہینے بھر کی آمدنی کے برابر ہی نہیں بلکہ زیادہ ہے۔ رہ گئی بات تعلیم کی۔ امریکہ میں سارے مسافر گریجویٹ نہیں ہوتے۔ سفر کا شعور‘ ترتیب‘ حوصلہ‘ تحمل‘ برداشت اور قاعدے ضابطے کا تعلق تعلیم سے نہیں‘ آگہی سے ہے اور اصل مسئلہ یہی ہے۔ اگر تعلیم کا معاملہ بھی ہو تو ہمارے ہاں جہاز میں سفر کرنے والوں کی اکثریت تعلیم یافتہ ہے۔ جہاز کے مسافروں میں کمپنیوں کے ایگزیکٹو‘ سرکاری افسران‘ اسمبلی کے مفت سفر کرنے والے ارکان‘ کاروباری حضرات اور دیگر مفتے پر سفر کرنے والوں کی غالب اکثریت ہوتی ہے‘ یہ تمام صاحبان پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ دنیا کو دیکھا بھلا ہوتا ہے۔ معاملات سے مکمل آگاہی ہوتی ہے۔ اب بھلا ان پر غربت اور غیر تعلیم یافتہ ہونے کا لیبل لگا کر رعایت کیسے دی جا سکتی ہے؟ 
اگر ملک عزیز میں صرف ترتیب اور نظم و ضبط جو قائداعظم کے ''اتحاد‘ ایمان اور نظم و ضبط‘‘ میں تیسرے نمبر پر درج ہے کا چلن ہو جائے تو اتحاد اور ایمان کی برکات اس کا لازمی ثمر ہوں گی۔ نظم و ضبط پر ایک پیسہ خرچ نہیں ہوتا۔ دین اس کی تلقین کرتا ہے مگر ہمارا دین سے پہلے کتنا تعلق ہے؟ ترتیب اور نظم و ضبط کے لیے سالانہ بجٹ کی کسی مد میں ٹیڈی پیسہ مختص کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے لیے ہم اعلیٰ حضرت اسحاق ڈار کے مرہون منت نہیں ہیں‘ لیکن شاید نہ تو یہ ہماری سرشت میں ہے اور نہ ہی جین میں موجود ہے کہ بے ترتیبی‘ بھاگ دوڑ‘ دھکم پیل شاید ہمارا مقدر ہے۔ میں کم ہی مایوس ہوتا ہوں مگر اس سلسلے میں مجھے مایوسی یہ ہے کہ ترتیب اور نظم و ضبط کم از کم میری زندگی میں تو رواج پاتا نظر نہیں آ رہا۔ میری دعا ہے کہ میرے بعد ہی سہی‘ خواہ ہماری اگلی نسلیں ہی سہی مگر یہاں بھی ایسا ہو کہ لوگ ٹریفک کے اشاروں کی پابندی کریں‘ قطار بنائیں‘ اپنی باری کا انتظار کریں‘ ٹریفک جام ہو تو اپنی لین میں رہیں‘ جہاز رُکے تو ترتیب سے اتریں‘ گاڑی پارک کریں تو کسی کی گاڑی کا راستہ نہ روکیں‘ پبلک ٹوائلٹ سے نکلتے ہوئے اپنے کیے پر پانی پھیر جائیں۔ حالانکہ یہ بڑی معمولی خواہشیں ہیں مگر... 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved