تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     14-09-2015

جنرل پرویز مشرف سے ایک ملاقات

کراچی میں جنرل پرویز مشرف کے گھر داخل ہوئے تو پہلی نظر ایک قد آدم سٹینڈ پر پڑی جس پر تین جھنڈے لگے تھے۔۔۔۔۔ایک پاکستان کا، دوسرا صدر پاکستان کا‘ تیسرا چیف آف آرمی سٹاف کا۔ ان جھنڈوں پر پڑی ہلکی سی گرد بتا رہی تھی کہ گھر میں صفائی کا انتظام ویسا ہی ہے جیسے عام پاکستانیوں کے گھروں میں ہوتا ہے، یعنی آرائش کی چیزیں مہینے میں ایک آدھ بار ہی صاف کی جاتی ہیں۔ ہارون الرشید صاحب اور میں یوم دفاع کے سلسلے میں جنرل مشرف کا انٹرویوکرنے کے لیے خصوصی طور پر ان کے گھر آئے تھے۔ ہماری رہنمائی کرنے والے ملازم نے ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور جنرل صاحب کو اطلاع دینے کے لیے چلا گیا۔ انٹرویو کے لیے کیمرے، لائٹس اور ان کا انتظام سنبھالے ہوئے لوگوں کی وجہ سے مناسب حد تک کشادہ یہ کمرہ چھوٹا لگ رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں جنرل صاحب بھی آئے اور اپنی مخصوص نشست پر بیٹھ گئے۔ ہمارے سوالات کے جواب میں انہوں نے اپنی کچھ یادداشتیں 1965ء کی جنگ کے بارے میں بتائیں ۔ انٹرویو ختم ہوا تو جنرل صاحب نے ہم دونوں کو چائے کے لیے روک لیا۔ ان کے حکم پر ہمیں اونچی چھت والے ایک ایسے کمرے میں لے جایا گیا جہاں ایک بڑی کھانے کی میز پڑی تھی، جس کی صدر نشست سرخ رنگ کی تھی جبکہ دیگر کرسیاں اسی رنگ کی تھیں جیسا عام طور پر لکڑی کے فرنیچرکوکیا جاتا ہے۔ جنرل صاحب ایک دوسرے دروازے سے اس کمرے میں داخل ہوئے اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے سرخ رنگ کی کرسی 
تک پہنچے اوربیٹھ گئے۔ ان کے حکم پر ہمارے لیے چائے آئی، جب ملازم نے چائے کی ٹرے ان کے سامنے کی تو انہوں نے دائیں ہاتھ سے پیالی اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو ان کا ہاتھ کپکپا رہا تھا۔ اس کپکپاتے ہاتھ سے انہوں نے پیالی اٹھائی تو مجھے لگا شاید وہ چائے گرائے بغیر پیالی میز پر نہیں رکھ سکیں گے، لیکن انہوں نے رکھ لی۔ پھر اسی کانپتے ہاتھ سے انہوں نے شکر دان سے شکر نکالنے کے لیے چمچہ پکڑا تو ایک بار پھر مجھے لگا کہ شاید ان کا چمچہ کبھی شکر دان میں داخل نہیں ہوسکے گا، لیکن انہوں نے یہ منزل بھی سر کرلی۔ چائے کے دوران میں نے ان کے معمولات کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے: ''دوپہر کے بعدشام تک لوگوں سے ملتا ہوں، پھر کوئی دوست کھانے پر آجاتا ہے یا میں کسی کے ہاں چلا جاتا ہوں اور ہفتے میں دو دن برِج کھیلتا ہوں‘‘۔ ایک لمحے کے لیے رک کر میری طرف دیکھا، پھر مسکرا کر اور زور دے کر ہارون صاحب کو مخاطب کرکے کہا: ''برج کوئی ایک آدھ گھنٹے کا کھیل نہیں ، کم ازکم چھ سات گھنٹے لگتے ہیں‘‘۔ 
جنرل صاحب کی پارٹی کا انتخابی نشان شاہین ہے اس لیے ان کے ڈرائنگ روم میں شاہین کا ایک مجسمہ رکھا ہے جو ہر ٹی وی انٹرویو کے لیے ایسی جگہ رکھا جاتا ہے جہاں سے یہ ٹی وی سکرین پر نمایا ں طور پر نظر آئے۔ وہ تو ٹی وی والوں کی مجبوری ہے کہ اپنے فریم کے لیے وہ اکثر اوقات اس مجسمے کو تصویر کا حصہ نہیں بناتے۔ جنرل صاحب کے معمولات جان کر مجھے لگا کہ ٹی وی والے ان کے انتخابی نشان کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں وہ یوں ہی نہیں کرتے کیونکہ ان کی روزمرہ زندگی میں سیاست، ان کی اپنی سیاسی جماعت اور اس جماعت کا انتخابی نشان اتنے بھی اہم نہیں رہے جتنا برج کا کھیل۔ سیاست میں ان کا واحد رابطہ چودھری شجاعت حسین ہیں اور بس۔ کچھ دن پہلے چودھری صاحب جب مسلم لیگیوں کو متحدکرنے کے سلسلے میں کراچی آئے تو جنرل صاحب سے بھی ملے۔ جنرل صاحب کی باتوں سے لگا کہ چودھری صاحب نے انہیں متحدہ مسلم لیگ کا کوئی ایسا خواب دکھایا ہے جس کی تعبیر کے لیے جنرل صاحب ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہیں اور اگر یہ خواب سچا نہ ہوا تو شاید وہ آل پاکستان مسلم لیگ کی رجسٹریشن کے کاغذات بھی کسی اورکے سپرد کردیں۔ 
چائے ختم ہوئی تو ہارون صاحب نے مجھے اٹھنے کا اشارہ کیا اور ساتھ ہی جنرل صاحب سے اجازت چاہی۔ وہ بھی ہمارے ساتھ ہی اٹھے اور ہم ایک برآمدہ نما کاریڈور سے گزرتے ہوئے صدر دروازے کی طرف بڑھے۔ اس برآمدے کی ایک دیوار پر دنیا کے اہم راہنماؤں کے ساتھ ان کی ملاقات کی تصویریں آویزاں تھیں۔ میں ان تصویروں کے پاس چند لمحے رک گیا، مجھے یوں محسوس ہوا کہ ان تصویروں میں موجود جنرل پرویز مشرف اور میرے سامنے کھڑے جنرل پرویز مشرف میں کوئی بڑا فرق رونما ہوگیا ہے، کوئی ایسا فرق جس کا تعلق عمر سے نہیں بلکہ کسی اور چیز سے ہے۔ تصویروں میں چہرے کی چمک، آنکھوں سے ٹپکتا اعتماد پیکرِتصویر میں نظر نہیں آرہا تھا۔ میں نے سوچا گاڑی میں بیٹھ کر ہارون صاحب سے پوچھوں گا کہ کیا انہیں بھی یہ فرق محسوس ہوا یا نہیں۔ ہارون صاحب اور جنرل صاحب چلتے ہوئے کچھ آگے نکل گئے تھے، میں نے چند لمبے ڈگ بھرے اور ان کے برابر آگیا۔ ہمیں رخصت کرتے ہوئے ہنس کر کہنے لگے: '' پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر عاصم کی والدہ مجھ سے ملنے آ رہی ہیں، میںاب ان کے لیے کیا کرسکتا ہوں؟‘‘۔ ہم دونوں ان کے گھر سے نکلے تو مجھے ہارون صاحب سے پوچھنا یاد ہی نہیں رہا کہ میں نے تصویر اور صاحبِ تصویر میں جو فرق محسوس کیا ہے وہ انہیں بھی محسوس ہوا یا نہیں۔ لیکن اس سوال کا جواب بغیر پوچھے ہی رات تک مل گیا۔ 
ہوا یہ کہ رات ایک ایسے صاحب سے اتفاقی طور پرملاقات ہوگئی جو جنرل مشرف کے دورِ اقتدار میں ان کے بڑے حامی تھے۔ جنرل پرویز مشرف سے اپنے قرب کی وجہ سے انہیں کراچی میں بڑا رسوخ حاصل تھا۔ اس زمانے میں ان کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے سرکاری شعبے میں چلنے والا ایک بڑا بینک خریدنا چاہا تو حکومتی کارپردازوں کو مصیبت پڑ گئی کیونکہ انہوں نے بینک خریدنے کے لیے ادھوری دستاویزات جمع کرائی تھیں اور اس ادھورے پن کو وہ جنرل مشرف کی طاقت کے ذریعے پورا کرنا چاہتے تھے۔ آخرکار اس وقت کے وفاقی وزیر برائے نجکاری ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کسی طرح ان کی خواہش پر قابو پایا اور بینک کی نجکاری کا معاملہ بخیر و خوبی کسی دوسری اہل پارٹی کے ساتھ طے پا گیا۔ خیر ان سے باتیںشروع ہوئیں تو جنرل پرویز مشرف کا ذکر بھی آگیا ،کہنے لگے: '' یار صدر صاحب (جنرل پرویز مشرف) مجھ سے اب بھی بڑی محبت کرتے ہیں، میں کبھی کبھی ان سے ملنے بھی چلا جاتا ہوں لیکن مصروفیت کی وجہ سے زیادہ وقت نہیں دے پاتا۔ اب میں تمہیں کیا بتاؤں کہ وہ مجھے فون کرتے رہتے ہیں اور میرے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ ان کا فون ہی سن لوں‘‘۔ میں ان صاحب کی بات سن کر دنگ رہ گیا، مجھے سمجھ آ گیا کہ جنرل مشرف کی موجودہ شخصیت اور ان کے دورِ اقتدارکی تصویروں میں جو فرق ہے اسے وقت کہتے ہیں۔ وقت جو کبھی ایک سا نہیں رہتا، وقت جو لوگوںکے درمیان پھیرا جاتا ہے، مگر کوئی سمجھتا نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved