تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     15-09-2015

ہوا بازی اور حوالہ بازی کی جملہ بازی

مجھے اس بات کی تو خوشی ہے کہ آج کی سیاست میں ہندی کا بول بالا ہے۔ انگریزی اخبار بھی ہندی کے جملے استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ 'ہوا بازی‘ اور 'حوالہ بازی‘ کی جملہ بازی نے ادھر کافی رنگ جمایا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جن دو لیڈروں نے ہندی کے ان دو لفظوں کو اچھالا‘ وہ دونوں ہندی بولنے والے نہیں ہیں۔ ایک اطالوی ہیں اور دوسرے گجراتی۔ اطالوی خاتون کو مبارک دینی پڑے گی کہ انہوں نے بھارت میں آنے کے بعد ہندی بولنا ‘ لکھنا اور پڑھنا سیکھا اور گجراتی لیڈر کی بھی پیٹھ ٹھوکنی پڑے گی کہ وزیر اعظم بنتے ہی ان پر انگریزی کا جو نشہ سوار ہوگیا تھا‘ وہ اب اتر رہا ہے۔ سنگھ کا کارکن ایسے مشن چلائے ‘ جن کے نام انگریزی میں ہوں، جیسے 'میڈ ان انڈیا‘ ، 'ڈجیٹل انڈیا ، 'سمارٹ سٹی‘ ، 'سکلڈ انڈیا‘ وغیرہ تو دانتوں تلے انگلی دبانے کو جی چاہتا ہے۔ لیکن اس بار انہوں نے کیا غضب کی تُک لڑائی ہے۔ سونیا نے کہا، آپ 'ہوا بازی‘ کر رہے ہیں تو مودی نے ان کے جواب میں کہا، آپ تو 'حوالہ بازی‘ کرتے رہے ہیں۔ زبانی جمع خرچ کرنے میں مودی کا جواب نہیں!
دونوں الفاظ۔۔۔۔ ہوابازی اور حوالہ بازی کے کئی مزے دار معنی ہیں۔ پہلے ہوا بازی کو لیں۔ اگر سونیا گاندھی مودی کو ہوا بازی کرنے کا کہتی ہیں تو اس میں غلط کیا ہے؟ اگر مودی نے ملک کے کونے کونے میں گھوم کر 'ہوا‘ نہ بنائی ہوتی تو کانگریس کی 'ہوا‘ کیسے اکھڑتی؟ جو پارٹی دس سال سے حکومت کر رہی تھی اور جو بھارت جیسے بڑے ملک پر پچاس سال سے زیادہ عرصہ حکومت کر چکی تھی‘ جس کا وزیر اعظم ایم اے پی ایچ ڈی تھا‘ اسے پارلیمنٹ میں 40 
نشستوں کی تعداد پر لا کھڑا کرنا اور30 سال میں پہلی بار واضح اکثریت کی سرکار قائم کرنا کیا 'ہوا‘ بنائے بغیر ممکن تھا؟ یہ تو سب کو پتا ہے کہ وہ 'ہوا‘ کسی کی نہیں تھی، بس مودی کی تھی۔ ملک میں اسی کو زیادہ ووٹ ملتے ہیں ‘جس کی 'ہوا‘ چلنے لگے۔کروڑوں ووٹر ایسے ہیں جو خود کو اچھے برے کے حساب میں نہیں الجھاتے۔ ان میں اتنی صلاحیت ہوتی ہے نہ انہیں اتنی فرصت کہ پارٹیوںکا منشور پڑھیں یا لیڈروں کے اعلانات پر غورکریں یا لائق و نالائق امیدوار میں فرق کریں۔ وہ تو بھیڑ چال چلتے ہیں۔۔۔۔ جدھر کی 'ہوا‘ ادھر چل پڑتے ہیں۔ سونیا اور من موہن کو بھی کروڑوں ووٹ ملے، لیکن 'ہوا‘ ان کے رخ کے الٹ چل رہی تھی، اس لئے کانگریس کی ایسی حالت ہوئی ‘جیسی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔
مودی نے جو 'ہوا‘ عام انتخابات کے دوران چلائی‘ وہ ابھی تھمی نہیں، مسلسل چل رہی ہے؛ البتہ اس کی رفتار کچھ سست ضرور ہوئی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران جو لمبے چوڑے سبز باغ دکھائے گئے تھے‘ ان میں پھل آنا تو دور کی بات‘ پھول اور پتیاں بھی دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ اسی ناٹک کو سونیا 'ہوا بازی‘ کہہ رہی ہیں، لیکن وہ کیوں نہیں سمجھتیں کہ مودی سرکار کو ابھی سوا سال ہوا ہے۔ مودی ‘ مودی ہے ۔ مودی نرسمہاراؤ یا اٹل بہاری واجپائی نہیں۔ ملکی سیاست میں وہ ابھی نو وارد ہیں بلکہ نوآموزہیں۔ اتنے بڑے ملک کے مسائل کو اگر نہرو اور اندرا گاندھی جیسے بڑے لوگ اپنے طویل عرصہ اقتدار میں حل نہیں کر پائے تو مودی کے ہاتھ میںکوئی جادوکی چھڑی نہیں کہ وہ اسے گھمائیں اور راتوں رات ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار مل جائے‘ کالادھن واپس آ جائے ‘ سرکار میں ہندی چلنے لگے‘ بھارت میں صفائی ہوجائے یا غریبی ختم ہوجائے۔ سال سوا سال میں اگر کوئی لیڈر بھارت جیسے بڑے اورکئی زبانوں اور کئی ذاتوں والے ملک کے مسائل کوٹھیک طرح سے سمجھ لے تو یہی غنیمت ہے۔ جہاں تک مودی کا سوال ہے‘ وہ تو بنیادی طور پر سنگھ کے کارندے ہیں، زمینی سیاست سے ان کا کوئی واسطہ نہیں رہا۔ انہیں اچانک اٹھا کرگجرات کے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا گیا تھا۔ وہ وفاقی سرکار میں کبھی نہیں رہے۔ اب وفاقی سرکارکے سربراہ بن جانے کے ناتے اگر انہیں مسائل کے حل میں تھوڑا وقت لگ رہا ہے تو اپوزیشن سے امیدکی جانی چاہیے کہ وہ تھوڑا صبر کرے گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ سوا سال میں مودی انتخابی مہم کے دوران کئے 
گئے خاص وعدوںکو ٹھوس شکل نہیں دے پائے، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس سرکار نے کوئی بد عنوانی کی ہو یا کوئی بے وقوفانہ فیصلہ کیا ہو۔ اس کے دو فیصلے اٹ پٹے ضرور ثابت ہوئے ہیں۔۔۔۔ ایک لینڈ ایکیوزیشن اوردوسرا حریت کے بہانے پاکستان سے مذاکرات مسترد کرنے کا۔ لیکن اس نے لینڈ ایکیوزیشن کے ضد چھوڑ دی اور روس کے شہر اوفا میں پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف سے آگے ہوکر بات کی، لچک دکھائی اور اس بات کو رد کیا کہ مودی مغرور اور ضدی ہیں۔ اگر مودی سرکار جی ایس ٹی بل یا لینڈ ایکیوزیشن بل میں کوئی ترمیم کرنا چاہتی ہے اور آپ اسے غلط سمجھتے ہیں تو آپ کا حق ہے کہ اس کی مخالفت کریں، لیکن آپ پارلیمنٹ ہی کو ٹھپ کر دیں‘ یہ کیسی جمہوری پارلیمنٹ ہے؟ یہ اپوزیشن کا کیسا کردار ہے؟ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے پاس اپنا کوئی مدعا (ایجنڈا) نہیں ہے۔ وہ 'ہوابازی‘ سے بھی کچھ زیادہ کر رہی ہے۔ وہ ہوا میں لاٹھیاں چلا رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مودی ہرکام کو ناٹک کے انداز میںکرتے ہیں‘ اس لئے اسے زبردست پرچار بھی ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں کئی لوگ پرائم منسٹر کی بجائے ایونٹ منیجرکہنے لگے ہیں۔ لیکن کون سی سرکار نہیں چاہتی کہ اسے زبردست پرچار ملے؟ یہ جمہوریت کی مجبوری ہے۔ اگر اسے سونیا 'ہوا بازی‘ کہتی ہیں تو ان کی تو پارٹی خالص 'ہوا بازی‘ بن کے رہ گئی ہے۔ 
مودی کے محاورے 'حوالہ بازی‘ کی تشریح میں یوں کرتا ہوں کہ کانگریس پارٹی تو نہرو اور اندرا کے حوالے سے زندہ ہے۔ اگر اندرا جی کا حوالہ نہ ہوتا توکیا سونیا گاندھی کی کوئی قیمت ہوتی؟ بے چارے راہول جی پتا نہیں اب کہاں ہوتے؟ راجیو جی بھی وزیر اعظم بنے مقتول اندرا گاندھی کے نام پر ملنے والے ووٹوں کی مدد سے۔ کانگریس کو لیڈر شپ سے محروم کر دیا گیا ہے، ورنہ ایسی بھی کیا بات تھی کہ 410 ارکان کی پارلیمنٹ میں اس پارٹی کو صرف 40 نشستیں مل پائیں۔کیا پارٹی کو اس سطح تک گرا دینے والوں کو اب بھی لیڈرکہا جا سکتا ہے؟ کیا کسی بھی جمہوری ملک میں ایسا ہوتے آپ نے دیکھا یا سنا ہے؟ اتنی سخت ہارہونے پر سچے لیڈر پارٹی کا عہدہ ہی چھوڑ دیتے ہیں‘ سیاست سے بھی ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں، لیکن کسی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے مالک کو کون ریٹائرکر سکتا ہے؟ وہ 'حوالہ بازی‘ کے دم پر 'ہوابازی‘ کرتا رہتا ہے۔ بھارتی جمہوریت کے لئے یہ بڑا خطرہ ہے۔ بھارت میں نریندر مودی جیسا آدمی وزیر اعظم بن جائے اور اپوزیشن چوں چوںکا مربہ بھی نہ رہے تو یہ ملک کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
آج بھارت میں جتنی مضبوط اپوزیشن کی ضرورت ہے‘ گزشتہ چالیس برسوں میں کبھی نہیں تھی ۔ آج کے صاحبان اقتدار جتنے غیر تجربہ کار ہیں، اتنے پہلے کب رہے؟ فکر کی بات یہ بھی ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں چلی عوامی تحریک کی لہر بھی اب ٹھپ ہو چکی ہے۔ ملک میں ایسی کوئی جماعت اور لیڈر دکھائی نہیں دیتے جو کوے کو کوا کہہ سکیں۔ تیسرا مورچہ بھی بنتے بنتے بکھرگیا۔ اس میں کچھ تجربہ کار ضرور تھے، لیکن صوبائی انتخابات انہیں بھی دھکیل کر کونے میں لے گیا۔ جمہوریت کو زندہ رکھنے اور سرکار کو جواب دہ بنا کر رکھنے کی ساری ذمہ داری اب کورٹ اور میڈیا پرآ گئی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved