تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     15-09-2015

مشرق سے اُبھرتا ہوا سورج

آج کے اس کالم کی ابتدا اس سے اچھی اور کیا ہو سکتی ہے کہ شاعر مشرق و مغرب (اقبال) کے ایک شعر سے کی جائے ؎
کھول آنکھ، زمین دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اُنیسویں صدی کے وسط میںیہ سورج چین کی سرزمین پر ایک زبردست عوامی اور اشتراکی انقلاب کی صورت میں رُونما ہوا‘ پھر ویت نام کی سرزمین پر‘ جہاں کے بے سرو سامان اور بے وسیلہ عوام نے محض قومیت اور اشتراکیت کے امتزاج سے اُبھرنے والے آہنی عزم‘ ناقابل یقین بہادری‘ قابل فخر ہمت اور حوصلہ سے یکے بعد دیگرے پہلے جاپانیوں کو‘ پھر فرانسیسی فوج اور پھر امریکہ جیسی بڑی طاقت کو شکست فاش دی۔ مندرجہ بالا دو واقعات نے تاریخ عالم کا رُخ بدل دیا۔ صد افسوس کہ مشرقی ممالک میں (خصوصاً انڈونیشیا‘ بھارت اور مشرقی پاکستان میں) عوامی انقلاب کی بجائے ردِّ انقلاب کے نتیجہ میں دائیں بازو کی نیم فسطائی حکومتیں برسر اِقتدار آئیں۔ تازہ خوش خبری یہ ہے کہ اقبال نے جس سُورج کو دیکھنے اور اس حوالہ سے اپنے آپ کو جگانے اور اپنا شعور بلند رکھنے کی تلقین کی تھی‘ وہ اب ملائشیا کی سرزمین پر (یعنی ایک بار پھر مشرق سے) طلوع ہو رہا ہے‘ جہاں بَرش(Bersh) نام سے ایک عوامی تحریک شروع ہوئی ہے۔ برش کا مطلب ہے ''صاف ستھرا‘‘۔ یہ بَرش نامی وسیع عوامی محاذ سینکڑوں غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز ) نے مل کر بنایا ہے۔ مقصد صرف ایک ہے: موجودہ حکومت (خصوصاً وزیراعظم نجیب رزاق) کی رشوت ستانی‘ مالی بدعنوانی اور کرپشن کے خلاف جہاد اور انتخابی اصلاحات کا نفاذ (آج اور کل 29 اور 30 اگست۔یہ سطور 29اگست کو لکھی جا رہی ہیں) کو ملائشیا کے تین بڑے شہروں میں دو لاکھ افراد زبردست مظاہرے کریں گے۔ اتنے بڑے مظاہرے کہ وہ نہ صرف اُس ملک میں کاخِ اُمرا کے درو دیوار ہلا دیں گے بلکہ ان کی باز گشت دُنیا بھر میں (خصوصاً ہر مشرقی ملک میں) سنی جائے گی۔ مظاہرین زرد رنگ کی جو ٹی شرٹیں پہنیں گے وہ کئی دنوں سے ملائیشیا کے طول و عرض میں دھڑا دھڑ فروخت ہو رہی ہے۔ تین سال قبل اس عوامی محاذ نے کوالالمپور میں بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ پولیس نے حکومت کی ایما پر مظاہرین کو اشک آور گیس اور واٹر کینن یعنی آبی توپوں کے بے دریغ استعمال سے منتشر کرتے ہوئے پانچ سو پر امن مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔
موجودہ انتخابی نظام کے تحت ایک ہی سیاسی جماعت (UNNO ) ساٹھ سالوں سے اقتدار پر قابض ہے۔ انتخابی اصلاحات کا مطالبہ (جو پاکستان کے سیاق و سباق میں غالباً بدترین ہے) اپنی جگہ بڑا وزنی ہے۔ دو ماہ قبل امریکہ کے ایک معتبر اخبار وال سٹریٹ جرنل نے جب یہ خبر شائع کی کہ700 ملین ڈالر کی خطیر رقم سوئس اور امریکی بینکوں تک جن ذرائع سے پہنچی ہے‘ اُن کے وزیراعظم نجیب رزاق سے قریبی تعلق کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ اس خبر کی اشاعت پر نائب وزیراعظم احتجاجاً مستعفی ہو گئے۔ 
جیاتی گھوش دہلی کی جواہر لال یونیورسٹی میں معاشیات کی پروفیسر ہیں۔ برطانیہ کے بڑے معتبر اخبار گارڈین میں معاشی موضوعات پر جب بھی مضمون لکھیں اُسے ہمیشہ نمایاں طور پر ادارتی صفحے پر شائع کیا جاتاہے۔ 24 اگست کو بھی ایسا ہی ہوا۔وہ لکھتی ہیں کہ ترقی پذیر ملکوں کی معاشی ترقی کے سامنے ایک پتھریلی دیوار اُبھرآئی ہے‘ جس نے ان کا آگے بڑھنا ناممکن بنا دیا ہے۔ اُنہوں نے برازیل‘ بھارت اور ترکی‘ چین اور تھائی لینڈ کی مثالیں دے کر اپنے موقف کو واضح کیا ہے۔ (قابل ذکر بات ہے کہ اُنہوں نے اپنے پڑوسی ملک پاکستان کو نظر انداز کر دیا‘ حالانکہ اس کی معاشی حالت غالباً سب سے زیادہ تشویشناک ہے) ایک ماہ قبل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو 50 کروڑ کے قرض کی نویں قسط جاری کرتے وقت یہ خوش خبری بھی سنائی کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ جیاتی گھوش نے جن مندرجہ بالا ممالک کا خصوصی ذکر کیا وہاں سے ایک سال کے اندر سراسیمگی کے عالم میں فرار ہو جانے والے سرمائے کا کل حجم ایک ہزار ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ پچھلے سات سالوں میں چین کے قومی خزانہ پر قرض کا بوجھ چار گنا بڑھا۔ فاضل مصنفہ کی رائے میں قرض کی مے پینے والے وقتی طور پر جتنا عیش کر لیں‘ اُن کی مرضی‘ مگر(غالب کے برعکس ) وہ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ ایک دن اُن کی فاقہ مستی رنگ لائے گی۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں چین کی شمولیت (جو مائوزے تنگ کے زمانہ میں سوویت یونین پرسوشل سامراج جیسی گالیوں کی بارش کرتا تھا) سے یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ و ہ بھی مداری کے تماشہ کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ لوٹ مار اور استحصال پر مبنی نظام کی دیوار کی ایک اینٹ بھی گرے تو ساری دیوار پر زلزلہ طاری ہو جاتا ہے۔ آپ میں سے جو لوگ میری طرح سرکس کے رسیا ہوں اُنہوں نے وہ تماشہ ضرور دیکھا ہوگا کہ مداری کمال پھرتی سے ہوا میںپانچ سات بوتلیں اُچھالتا اور پکڑتا ہے۔ لیکن جب ایک بوتل گر جائے تو باقی بھی ہاتھ نہیں آتیں۔ 
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں بے حد توجہ طلب انکشاف کیا گیاہے کہ ہم جتنی قابل خوردنی خوراک ضائع کرتے ہیں‘ اگر اُس کا صرف ایک چوتھائی بھی بچالیں تو دُنیا سے بھوک کا نام و نشان مٹایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے ہر شہر میں (بہت سے یورپی ممالک کے شہروں کی طرح) یہ انتظام ہونا چاہئے کہ گھروں میں یا ہوٹلوں میں ہر روز جتنی خوراک بچ جائے وہ اکٹھی کرکے ایک فوڈبینک میں پہنچا دی جائے جو مستحقین میں مفت تقسیم کر دے۔ اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق ایک ارب 30کروڑ من خوراک ہر سال ضائع کر دی جاتی ہے‘ جب کہ دُنیا بھر میں اُن لوگوں کی تعداد79 کروڑ 50 لاکھ ہے جو مستقل طور پر دو وقت کے کھانے کو ترستے رہتے ہیں۔ حکومتِ فرانس نے حال ہی میں ایک قانون نافذ کیا ہے جس کے مطابق ہر بڑا سٹور (مغربی اصطلاح میں سپر مارکیٹ) فالتو اور نہ فروخت ہونے والی اشیائے خوردنی کو خیراتی ادارے کو دینے کا پابند ہوگا۔ ترقی یافتہ ملکوں میں خریدی جانے والی خوراک کا ایک تہائی اور ترقی پذیر میں گھریلو خواتین پانچ سے پندرہ فی صد تک پھینک دیتی ہیں‘ کیونکہ وہ ان کی ضرورت سے زیادہ ہوتی ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ پاکستان میں جناب عبدالستار ایدھی‘ ڈاکٹر امجد ثاقب اور اس پایہ کی دُوسری نامور اور قابل صد احترام شخصیات پاکستان کے شہروں میں فوڈ بینک قائم کریں۔ 
آپ کویہ سُن کر شاید تعجب ہوگا کہ جنوبی یورپ کے ایک ملک رومانیہ میں بھی ایک گم نام بادشاہ دریافت ہوا ہے‘ جس کی عمر 94 سال ہے۔ وہ 84سال پہلے صرف چودہ برس کی عمر میں رومانیہ کے تخت پر بیٹھا۔ 1944 میں اُس نے رومانیہ کے فاشی آمر Aritonesen سے اپنے ملک کے عوام کی جان چھڑانے میں کلیدی کردار ادا کیا‘ مگر اُسے صرف تین سال بعد کمیونسٹ حکومت کے دبائو کے تحت تاج و تخت سے دستبردار ہوناپڑا۔ وہ نصف صدی جلا وطن رہا۔ 1991 ء میں اپنے ملک کی شہریت دوبارہ حاصل کی اور دس سال بعد اپنا کھویا ہوا تحت بھی۔ عمر 90 برس کی ہوئی تو بادشاہ نے پارلیمنٹ سے پہلی بار خطاب کیا۔ اپنی تقریر میں پانچ باتوں پر زور دیا۔(1) سیاسی نظام شفاف ہو۔ (2) اس کی بنیاد احتساب پر ہو۔ (3)راہنما چرب زبانی سے کام لے کر عوام کو بے وقوف نہ بنائیں۔ (4)ذاتی یا گروہی مفادکی بجائے قومی مفاد کو ترجیح دیں۔ (5)حکومت پر کسی فرد یا گروپ کی مستقل اجارہ داری نہ ہو۔پچھلے دنوں بادشاہ سلامت نے اپنے اُس پوتے کا نام اپنے تخت کے ورثا سے نکال دیا‘ جو ایک بے فکر اور نڈر نوجوان ہے‘ خوش و خرم‘ سائیکل پر ہر جگہ آزادانہ گھومتا ہوا۔ اس درویش منش کا نام ہے شہزادہ مائیکل۔ رومانیہ کے عوام کی آنکھ کا تارا ہے‘وہ شاہی محل سے پندرہ منٹ کے فاصلہ پر ایک ایسے عام محلہ میں رہتا ہے‘ جو ایک بڑے شاندار پارک کے قریب ہے۔پارک میں وہ ہر روز سائیکل چلاتا ہے اور اُس کے ساتھ اُس کا پالتو کتا بھی دوڑتا نظر آتا ہے ع
نگاہ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved