تحریر : افتخار گیلانی تاریخ اشاعت     15-09-2015

برسی کشمیر کے سیلاب کی

ایک سال قبل بہشتِ ارضی وادیٔ کشمیر کو تاریخ کے بدترین سیلاب نے اپنی لپیٹ میںلے لیا تھا، مگر ایک عرصہ گزرجانے کے باوجود متاثرین کی باز آبادکاری کے منصوبے، ہنوز دہلی اور سرینگر کی سرکاری غلام گردشوں اور افسروںکے عدم احساس سے چھٹکارا نہیں پا سکے۔ ماضی میں سرینگر کو تاریخ کے دو بدترین سیلابوں نے1841ء اور1893ء میں تاراج کیا تھا۔ اس وقت کی ڈوگرہ حکومت نے خطرات کو بھانپ کر سرینگر شہر کوسیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لئے بند اور فلڈ چینل تعمیرکرائے تھے۔ پرانے شہر کے وسط میں نالہ مار نقل و حمل کا اہم ذریعہ تھا۔ آبی چینلوں کے وسیع جال کی وجہ سے سرینگر کو مشرق کا وینس کہا جاتا تھا، مگر یہ وینس اب کنکریٹ اور غیر متوازن پلاننگ کی علامت بن چکا ہے۔ 1977ء میں عوامی وزیر اعلیٰ مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے اقتدار میں آتے ہی نالہ مار کی بھرائی کرا کے دو رویہ سڑک بنوائی تاکہ سیکرٹریٹ سے حضرت بل اور ان کے آبائی علاقہ صورہ تک جانے کی صورت میں انہیں پیچ در پیچ راستوں سے نہ گزرنا پڑے۔ اس سے شہ پاکر ان کی پارٹی اور کچھ دیگر افراد نے بھی سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پررشوت اور سفارش کے بل پر اورکہیں قوت بازوکے زور پر قبضہ جماکر ان آبی ذخائر اور چینلوں پر کنکریٹ کی فلک بوس عمارات کھڑی کردیں۔ 
حکومت کی جانب سے متعدد بارسیلاب سے متاثر ہونے والوں کی باز آبادکاری کے حوالے سے ڈیڈ لائنز دی گئیں لیکن عملی طور کچھ نہ ہوا۔ سرکاری اعداد و شمارکے مطابق کشمیر میں سیلاب سے تقریباً 15لاکھ افراد متاثر ہوئے اور بھاری پیمانے پر نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچا؛ زراعت، باغبانی اور سیاحتی شعبے کو بھی کھربوں روپے کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ باز آبادکاری اور آئندہ ایسی کسی تباہی کی پیش بندی کے لئے حکومت جموں و کشمیر نے 44 ارب روپے کا ایک منصوبہ بھارتی حکومت کو پیش کیا تھا؛حالانکہ ماہرین اور مقامی ٹریڈ باڈیزکا خیال ہے کہ آبی وسائل اور چینلوںکے از سر نو احیا اور باز آبادکاری کے جامع منصوبہ کے لئے تقریباً ایک ہزار ارب روپے کی مد د درکار ہے۔ ایک طرف بھارتی حکومت کشمیر میں کسی بھی غیر ملکی امداد کے خلاف ہے، دوسری طرف ابھی تک بازآبادکاری پیکج کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں لائی جا رہی اور نہ ہی کسی دور رس منصوبے پر عملدرآمد کی شکل نظر آرہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دہلی حکومت نے 50 ارب کی رقم ریاستی حکومت کو فراہم کی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس سیلاب کے بعد ریاست کو 26 ارب روپے دیئے گئے اور امسال اب تک مزید 24 ارب روپے جاری ہوئے ہیں، مگر اس رقم میں سے ساڑھے آٹھ ارب روپے دہلی میں یہ کہہ کر روک لیے گئے کہ یہ سابق قرضوں کی وصولی ہے، جو ریاست کو وزیر اعظم کے تعمیر نو فنڈکی مد میں دیئے گئے تھے۔ اسی طرح مزید پانچ ارب روپے کی رقم روک کر بتایا گیاکہ یہ ریاستی حکومت کو وزارت دفاع(فوج) کے ذریعے بچائو کی کارروائیوں نیز فوجی ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کے ایندھن وغیرہ کے عوض ادا کردیئے گئے تھے۔ کانگریس کے لیڈر اور قو می ترجمان سلمان سوز پوچھتے ہیں کہ کیا بھارتی حکومت نے نیپال حکومت کو بھی فوج اور فضائیہ کی طرف سے ایسی کارروائیوں میں حصہ لینے کے عوض بل بھیجا؟ مئی 2015ء میں ہمسایہ ملک نیپال زلزلے سے لرز اٹھا، جس کے بعد بھارتی فوج اور فضائیہ نے بڑھ چڑھ کر بچائو کی کارروائیوں میں حصہ لیاتھا ۔
سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیںکہ پچھلے سال سیلاب کے موقع پر 36گھنٹوں تک انتظامیہ اور حکومت کا نام و نشان کہیں نظر نہیں آیا۔ وزرا اور افسران بالا کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے اور عوام کو بے یار و مدددگار چھوڑ دیا گیا تھا۔ دوسر ی طرف جب بھارتی فوج مدد کے لئے وارد ہوئی تو بھارتی میڈیا نے اس کو کشمیریوں پر ایک طرح سے احسان کے طور پر پیش کیا، مگر یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ دن رات اٹوٹ انگ کا راگ الاپنے والوں نے اس احسان کے بھی پیسے کشمیریوں سے وصول کیے۔ اس لئے سوشل میڈیا پرکئی لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بھارت کا پڑوسی بننا اس کا ایک حصہ بننے سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ 
بھارت میں حکومتی اور امدادی ادارے اعتراف کرتے ہیںکہ کشمیر میں سیلاب کے دوران لوگوں نے اپنے طور پر جس طرح امدادی کام شروع کئے اور جس اخوت کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ پرانے شہر میں لوگوں نے اپنے گھروںکے دروازے کھول کر متاثرہ لوگوں کو سر چھپانے کے لئے جگہ فراہم کی۔ ہرگھر نے چندہ دیا اوراجتماعی لنگر شروع کئے جو شہر خاص کے تمام مرکزی
اور اندرونی علاقوں میں قائم کئے گئے۔ متاثرین کو سکولوں، درس گاہوں، کالجوں اورکمیونٹی ہالوںمیں ٹھہرایا گیا۔ مقامی درس گاہوں اور بیت المال نے بھی ریلیف کیمپوں کا اہتمام کیا۔ دکانداروں کے پاس غلے کا ذخیرہ ختم ہونے کے باعث جب ریلیف کیمپوں کو راشن فراہم کرنے کا سب سے بڑا مسئلہ پیدا ہوا تو گاندر بل، بانڈی پورہ اور دیگر اضلاع کے لوگوں نے انہیں چاول، سبزیاں اور دوسری اشیا فراہم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ حکومتی امداد کا انتظارکئے بغیر ناگہانی آفت کے ستائے ہوئے اپنے بھائیوں کی اپنی مدد آپ کے جذبے کے تحت مثالی خدمت کرنے کے باوجود پورا سال گزر جانے کے بعد بھی کشمیر میں سیلاب کی تباہی کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اگر لوگوں نے اپنی سطح پر ایک دوسرے کی مدد نہ کی ہوتی تو معمولات زندگی اب بھی بحال نہ ہوئے ہوتے۔ حکومت کی طرف سے ابھی تک مالکان مکان کو نقصان کے تخمینے کے مطابق 3800 روپے، کسی کو 12500 اور بعض کو 75000 روپے معاضے کے طور پر ملے ہیں؛ حالانکہ اس سے کئی گنا تو انہیں سیلاب کا ملبہ اٹھانے پر خرچ کرنا پڑے تھے۔ 
سیلاب کی وجہ سے اپنے آشیانے کھونے والے لوگ آج بھی کرایہ کے کمروں میں رہائش پذیر ہیں اور وہ غذا کے ایک ایک دانے کے لئے ترس رہے ہیں۔کاروباری طبقے کو تو مکمل طور نظر اندازکیاگیا ہے۔ انہیں تاحال حکومت کی جانب سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملی۔ آج بھی سیلاب کے دوران کام کرنے والے بیسیوں ٹھیکیدار ان پیسوںکی ادائیگی کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ جہاں تک سڑکوں کی مرمت کے مد میں ادا کی گئی رقوم کا تعلق ہے، اس ضمن میںحکومت دہلی کی جانب سے جو47کروڑ روپے جاری ہوئے، وہ فوج کی بارڈر روڈز آرگنائزیشن کی جھولی میں چلے گئے اور اس رقم سے ان سڑکوں کی تعمیر و مرمت ہوئی جن کا سیلاب سے دورکا بھی واسطہ نہیں تھا۔ 
1666ء میں لندن کی بدترین آتشزنی کا سانحہ ہو، 2005ء میں مظفر آباد اور پاکستان کے دیگر علاقوں کا خوفناک زلزلہ ہو یا دنیا کے دوسرے مختلف علاقوں میں آفات سے تباہی، ہر جگہ بین الاقوامی امداد سے نقشے ہی بدل گئے ہیں، مگر جموں وکشمیر کو سیاسی وقارکا مسئلہ بناکر نئی دہلی نے ایسی کسی امداد کی اجازت نہ دے کر لوگوں کوناقابل بیان مشکلات کی نذر کردیا۔ وہ انہیں اس مصیبت سے باہر نکالنے کے لئے کوئی دلچسپی نہیں لے رہی ہے۔ اور تو اور ابھی تک نشیبی علاقوں سے عوام کو نقل مکانی کروانے کی کوئی کوشش نظر نہیں آئی۔ دوسری جانب دریائے جہلم کے طاس پر قبضہ کرنے اور تعمیرات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ سرینگر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا دفتر بھی اسی طرح کے ایک مقام پر ہے، یہی ادارہ ندی نالوں کی نگہداشت کا ذمہ دار ہے۔ اس کے برعکس حکومت دہلی نے شمالی ریاست اترا کھنڈ میں 2013 ء میں آنے والے سیلاب کے بعد اندرون وبیرون ملک سے امداد حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی تھی۔ اس دوہری پالیسی کی وجہ سے یہ احساس قوی ہوتا جا رہا ہے کہ کشمیریوںکو خود ہی چارہ گری کی کوئی صورت نکالنا ہوگی۔ بھارتی حکومت کا رویہ انہیں مزید دور کر رہا ہے جو کوئی نیک شگون نہیں، کیونکہ اس کے نتیجے میں مسائل سلجھنے کی بجائے مزید الجھ سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved