اُن زمانوں کو یاد کرکے اب صرف دل جلایا جاسکتا ہے جب کوئی طویل عمر پانے کی دعا دیتا تھا تو تشکر ظاہر کرنے کے لیے پلکوں کے ساتھ ساتھ سر بھی جھک جایا کرتا تھا۔ تب طویل عمر کی دعا کچھ مفہوم بھی رکھتی تھی یعنی زیادہ جینے کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ ایسا کرنے کا موقع بھی تھا جس سے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا ہو۔ جب کسی کو طویل عمر کی دعا ملتی تھی تو وہ ممکنہ اضافی عمر کو کسی نیک کام میں کھپانے سے متعلق سوچنے لگتا تھا۔
بعد میں زمانے محض تبدیل نہیں ہوئے بلکہ پلٹا کھاگئے۔ جب یہ دیکھا کہ طویل عمر نعمت سے بڑھ کر زحمت ہوئی جاتی ہے تو شعراء نے بھی انتباہ کا انداز اختیار کیا۔ جگرؔ مراد آبادی نے کہا ؎
مصیبت ... اور لمبی زندگانی
بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا!
پھر یہ ہونے لگا کہ اگر کوئی کسی کو طویل عمر کی دعا دیتا تو دعا پانے والا اُس کی طرف عجیب نظروں سے دیکھتا۔ جو زندگی قدرت کی طرف سے ملی ہے وہی بسر کرنا عذاب ہوجائے تو ''ایکسٹینشن‘‘ کا کوئی کیا کرے! شاعری کے ابتدائی دور میں ہم نے بھی کہا تھا ؎
ہاں وہی لوگ ہیں دراصل ہمارے دشمن
جو ہمیں عمر درازی کی دعا دیتے ہیں!
زندگی کا بھی عجیب معاملہ ہے۔ کوئی مقصد متعین کرلیا جائے تو ذرا سی زندگی بھی ایک عہد کے برابر ٹھہرے۔ اور اگر کوئی مقصد نہ ہو تو سو سال جینا اپنے آپ کو سزا دینے جیسا دکھائی دے۔ اپنے ماحول پر نظر دوڑائیے تو عجیب تماشے دکھائی دیتے ہیں۔ لوگ کسی آرزو اور مقصد کے بغیر جیے جارہے ہیں‘ اور محض جینے کو یعنی زندہ رہنے کو زندگی سمجھ کر خوش اور مطمئن ہیں۔ اور بعض تو ایسے بھی ہیں جو اپنے زندہ رہنے کو اس دنیا پر احسان سے کم نہیں گردانتے! گویا وہ ہیں تو نظامِ ہستی چل رہا ہے اور جب وہ نہ ہوں گے تو کچھ بھی نہ رہے گا! استغفراللہ۔
اگر قسم دے کر کوئی پوچھے تو ہم یہی کہیں گے کہ فی زمانہ جتنی بھی زندگی مل جائے، غنیمت ہے۔ ڈھنگ سے بسر کیجیے تو چند برس بھی بہت ہیں۔ اگر زندگی کا کوئی مشن نہ ہو، کچھ کرنے کا مصمّم ارادہ نہ پایا جاتا ہو تو محض جیے جانے سے کیا ہوتا ہے اور کیا ہوجانا ہے۔ کچھوے اور کوّے کو بھی بہت طویل عمر ملتی ہے۔ مگر ان دونوں کے طویل مدت تک جینے سے ان کا اپنا یا دنیا کا کون سا بھلا ہوجاتا ہے؟ یہی حال ان بہت سے لوگوں کا ہے جو محض طویل عمر پاتے ہیں، کرتے کچھ بھی نہیں۔
اس دنیا میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ کسی کو ذرا سی زندگی ملی اور اس نے تادیر زندہ رہنے کا اہتمام کرلیا۔ ہمیں جو اوسط عمر ملتی ہے اسے لوگ چار دن کی زندگی قرار دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو بعض عبقری محض ایک یا ڈیڑھ دن کی زندگی پاسکے مگر اپنے اَن مِٹ نقوش چھوڑ گئے۔ اپنے خطے کی بات کیجیے تو ذہن میں سب سے پہلے ماسٹر مدن کا نام آتا ہے۔ ماسٹر مدن 28 دسمبر 1927 ء کو مشرقی پنجاب میں پیدا ہوا۔ 5 جون 1942ء کو اس کا انتقال ہوا۔ گویا محض 14 سال اور 6 ماہ کی زندگی پائی۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں بھی ماسٹر مدن نے آواز کا ایسا جادو جگایا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ ماسٹر مدن کی گائی ہوئی (غالباً) سیمابؔ اکبر آبادی کی غزل موسیقی سے شغف رکھنے والوں کو اب بھی یاد ہے جس کا مطلع تھا ؎
حیرت سے تک رہا ہے جہانِ وفا مجھے
تو نے بنادیا ہے محبت میں کیا مجھے
ماسٹر مدن کے آٹھ ریکارڈز دستیاب ہیں۔ ماسٹر مدن نے خاصے پُراسرار انداز سے اس دنیا کو الوداع کہا۔ کہا جاتاہے کہ اسے زہر دیا گیا تھا۔ خیر، اتنی معمولی سی عمر میں بھی ماسٹر مدن نے زندہ رہنے کا اہتمام کرلیا۔
سعادت حسن منٹو کو بھلا کون بھول سکتا ہے؟ وہ ایسی زندگی گزار گئے جیسے کسی پٹاخے کا فلیتہ جلتا ہے! ان کے سوچنے اور لکھنے کا انداز انتہائی منفرد تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے انہیں بھی احساس تھا کہ اس دنیا میں زیادہ رہنا نہیں ہے۔ انہوں نے جو کچھ بھی کیا، بہت تیزی سے کیا اور کسی نہ کسی حیثیت میں ع
ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما
کی عملی تصویر بن گئے۔ منٹو نے زندگی کے جام سے ایک ایک قطرہ کشید کرنے کی ٹھانی اور اس معاملے میں بہت حد تک کامیاب رہے۔ انہوں نے بہت کچھ بہت تیزی سے لکھا۔ ان کی تحریروں میں کہیں کہیں پختگی کا فقدان واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے مگر بات یہ ہے کہ انہیں بہت اچھا لکھنے سے زیادہ بہت زیادہ اور انوکھا لکھنے کا شوق یا جنون تھا۔ اس جنون کو پروان چڑھانے کے لیے وہ قلم برداشتہ لکھنے کے عادی ہوتے چلے گئے۔ اپنے لکھے ہوئے پر نظرِ ثانی کا وقت بھی ان کے پاس نہ تھا۔ وہ بیشتر معاملات میں تضادات کا مجموعہ تھے مگر ایسا تو ہونا ہی تھا۔ ہر وہ شخص زندگی بھر تضادات کا شکار رہتا ہے جسے زیادہ زندگی نہیں ملی ہوتی۔ اور اگر چھوٹی سی عمر سے بہت کچھ کشید کرنے کی سوچ پنپ جائے تو سمجھ لیجیے انسان اپنے بس میں بھی نہیں رہتا۔ 11 مئی 1912 ء کو اس دنیا میں آنکھیں کھولنے والے منٹو 18 جنوری 1955 ء کو زندگی کی بساط لپیٹ کر اس دارِ فانی کو چھوڑ گئے‘ یعنی کل ملاکر یہی کوئی 43 سال کی زندگی۔ بہت سے تضادات اور خامیوں کے باوجود ان کے قلم کی جادوگری آج بھی زندہ ہے۔ بہت سوں نے جب افسانہ نگاری کی دنیا میں قدم رکھا تو منٹو کے چراغ سے اپنا چراغ جلانے کی کوشش کی۔ بعض اس کوشش میں اپنا دامن بھی جلا بیٹھے!
قدرے چھوٹی عمر میں بہت کچھ کر گزرنے کے عزم پر کاربند رہنے اور کر گزرنے کی ایک اور واضح مثال ڈی ایچ لارنس کی ہے۔ 11 ستمبر 1885ء کو دنیا میں آنے والے ڈیوڈ ہربرٹ رچرڈز لارنس 2 مارچ 1930ء کو دنیا سے چلے گئے۔ یعنی 45 سال کے ہونے سے پہلے ہی ملکِ عدم کے راہی ہوئے۔ اس چھوٹی سی عمر میں انہوں نے ناول نگار، ڈراما نگار، شاعر، انشاء پرداز، نقّاد اور مصور کی حیثیت سے اتنا کچھ کیا کہ لوگ اب تک بھول نہیں پائے۔ ان کا شمار آج بھی انگریزی کے صفِ اول کے نقّادوں میں ہوتا ہے۔ کتب پر ان کے بے لاگ تبصرے آج بھی ادب کی دنیا میں قدم رکھنے والوں کے لیے قطب نما کا درجہ رکھتے ہیں۔
کالم شروع ہوا تھا‘ ایسی طویل عمر کے تذکرے سے جس کا کوئی مصرف نہ ہو۔ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں اس میں لوگ زندگی کو بامقصد بنانے کے تصور بھی بیگانے ہوچکے ہیں۔ کسی کو یاد دلائیے تو تمسخر اڑاتا ہے۔ ایسے میں یہ انوکھی خبر آئی ہے کہ سگریٹ کے عادی بعض افراد طویل عمر پاتے ہیں کیونکہ سگریٹ کے تمباکو میں پائے جانے والے بعض اجزاء ان کے لیے مزید زندگی کا سامان کرتے ہیں۔ جب ماہرین سگریٹ پھونکنے والوں کو ڈراتے تھے تو جواب ملتا تھا کہ زیادہ جی کر کیا کرنا ہے۔ جتنا جئیں گے اتنی ہی الجھنیں رہیں گی اور بھگتنا پڑیں گی۔ گویا سگریٹ کے ہاتھوں کم ہوتی ہوئی زندگی الجھنوں میں کمی کا استعارہ بنتی گئی۔ مگر صاحب، قدرت بُرے کام کرنے والوں پر بلا جواز مہربان نہیں رہتی۔ سگریٹ پھونکتے رہنے پر بھی طویل عمر پانا اس بات کی دلیل ہے کہ قدرت سزا دینے پر تُلی ہوئی ہے۔ جب انسان اپنے وجود کو بروئے کار نہیں لاتا تب ایسا ہی ہوتا ہے۔ فی زمانہ زیادہ جینا کم و بیش عذاب ہی کی ایک شکل ہے۔ کسی واضح مقصد کے بغیر زندہ رہنا ایسی کون سی نعمت ہے جس کی آرزو کی جائے؟ سگریٹ پھونکتے رہنے والوں کے لیے قدرت کی طرف سے طویل عمر کا اہتمام بھی عذاب ہی کی ایک صورت سمجھیے۔ اس میں عقل رکھنے والوں کے لیے قدرت کی طرف سے یہ اشارا ہے کہ اگر کوئی مقصد متعین کئے بغیر زندگی کو ضائع کرنے کا سوچا تو وہ مزید طویل ہوجائے گی اور کسی مقصد یا مصرف کے بغیر خواہ مخواہ زیادہ جینا پڑے گا!