تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     16-09-2015

متاعِ کارواں

جب تک اس حقیقت کا ادراک نہیں کیا جاتا کہ معاشرہ اخلاقی زوال کا شکار ہے‘ اصلاح کا آغاز نہ ہو سکے گا۔ بدقسمتی سے یہی وہ نکتہ ہے‘ جو سب سے زیادہ نظرانداز ہے ؎ 
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا 
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا 
وہ کیسا معالج ہے کہ جب مریض کی سانس اکھڑنے لگے تو وہ بھاگتا ہوا آئے اور دعویٰ کرے کہ اب وہ اس کے سرہانے کھڑا رہے گا۔ دنیا کی بہترین دوائیں مہیا کرے گا اور صحت یابی کے لیے ہر ممکن جتن کرے گا۔ نندی پور کا پلانٹ بند ہوئے‘ ایک زمانہ گزر گیا۔ میڈیا نے واویلا کیا تو حکومت کی آنکھ کھلی۔ اتنا عرصہ وہ لمبی تان کر کیوں سوئی رہی؟ جو لوگ اب کٹہرے میں کھڑے ہیں‘ انہیں تمغے اور بونس کیوں دیئے گئے؟ پھر یہ کہ چین کی اسی کمپنی کو‘ چیچو کی ملیاں کا منصوبہ کیوں سونپ دیا گیا؟ تین ارب روپے پیشگی وصول کرنے کے باوجود اس پر کام کیوں شروع نہیں ہو سکا؟ وزیراعلیٰ شہبازشریف اب یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ شمسی توانائی کے قائداعظم پارک سے 18 میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے‘ اس سے پہلے سو میگاواٹ کا دعویٰ کس بنیاد پر تھا؟ سب سے بڑا سوال ایل این جی گیس کا ہے۔ پوری قوم چیخ رہی ہے مگر اس کے نرخ بتائے نہیں جا رہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس شرح پر وہ درآمد کی جا رہی ہے‘ اس سے پیدا ہونے والی بجلی پٹرول سے بھی مہنگی ہوگی‘ بتدریج جس کے دام ایک تہائی رہ گئے ہیں۔ سرکار اس پہ مہر بہ لب ہے اور اس پر بھی کہ قطر ہی سے گیس درآمد کرنے پر اصرار کیوں ہے۔ کہا گیا کہ قطر کی حکومت سے شریف خاندان کے دیرینہ مراسم ہیں۔ یہی بات ترکی اور چین کی بعض کمپنیوں کے بارے میں کہی جاتی ہے۔ ان دونوں دوست ملکوں کے دورے پر وزیراعظم تشریف لے جاتے ہیں تو شہبازشریف ان کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ گاہے خاندان کے دوسرے افراد بھی۔ بعض اوقات تو ان کے ذاتی کاروباری دوست بھی۔ 
جی ہاں! نندی پور کے لیے فقط نون لیگ کی حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ نیلم جہلم منصوبے کی طرح‘ خرابی کا آغاز پیپلز پارٹی کے دور میں ہوا۔ مشینری بندرگاہ پر پڑی رہی۔ وزارتِ قانون سے اجازت حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی اور منصوبے کے اخراجات بڑھتے رہے۔ امید یہ کی جا رہی تھی کہ نون لیگ تیزی سے خرابیوں کا سدباب کرے گی۔ جو لوگ المناک جرائم کے مرتکب تھے‘ ان سے بازپرس بھی ہوگی۔ باخبر لوگ اس باب میں کچھ زیادہ پُرامید نہ تھے۔ شہبازشریف اگرچہ دھاڑا کرتے کہ وہ علی بابا اور چالیس چوروں کا مواخذہ کر کے رہیں گے‘ سڑکوں پر انہیں گھسیٹیں گے۔ درونِ خانہ کی خبر رکھنے والوں کو معلوم تھا کہ ؎
سودائے عشق اور ہے وحشت کچھ اور شے 
مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا 
میثاقِ جمہوریت کے دنوں سے‘ دونوں پارٹیوں میں مفاہمت ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف کبھی وہ اقدام نہ کریں گے۔ کبھی انحراف کا ارتکاب بھی ہو جاتا ہے مگر عام طور پر اس کی پاسداری ہے۔ دیہی سندھ میں نون لیگ کے رہنما رُل گئے‘ جہاں پیپلز پارٹی نے تمام اخلاقی حدود پامال کردی ہیں۔ ایسے پولیس افسر مقرر کیے گئے ہیں جو مخالفین کی زندگی جہنم بنائے رکھتے ہیں۔ پیر صاحب پگارا اور لیاقت جتوئی ہی نہیں‘ ہر اس شخص کو پامال اور رسوا کرنے کی کوشش ہے‘ جو زرداری صاحب پر ایمان نہیں لاتا۔ وزیراعظم کو اگر اخلاقی اقدار کا کچھ بھی پاس ہوتا‘ انسانوں کے دکھ درد کی کچھ بھی پروا انہیں ہوتی تو سندھ کی انتظامیہ کو روکنے کی کوشش کرتے۔ کچھ اور نہیں تو صوبائی حکومت کو خط ہی لکھتے۔ دیہی سندھ میں نون لیگ کی تنظیم بہتر بنا کر‘ مقامی رہنمائوں کو دبائو ڈالنے کی اجازت دیتے۔ اس کے برعکس شہبازشریف نے آصف علی زرداری سے برسرِ بزم معافی مانگی اور اس کا اعادہ کرتے رہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سے وابستہ جرائم پیشہ لوگوں کے خلاف اگر کوئی کارروائی ہے تو عسکری قیادت کے ایما پر‘ جس کے لیے قانونی بنیاد فراہم کی گئی ہے۔ ورنہ پیپلز پارٹی کے لیے تو پنجابی محاورے کے مطابق نون لیگ کی آرزو یہی تھی کہ تتی ہوا بھی اسے نہ چھوئے‘ خواہ وہ سب کچھ لوٹ کر دبئی پہنچا دے۔ میاں صاحب کو فوج سے نمٹنے کے نسخے بتانے والے زرداری صاحب نے اسی لیے جنرلوں کو اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکی دی تھی۔ اس پر بے پناہ عوامی ردعمل ہوا۔ اب وہ میاں صاحب پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ کسی طرح ان کی گلوخلاصی کرائیں۔ اس لیے کل تک نابالغ قرار دیئے گئے‘ بلاول بھٹو کو میدان میں اتارا گیا کہ تحلیل ہوئی پارٹی کو بچانے کی کوشش کی جائے۔ اسی لیے سینیٹر اعتزاز احسن نے اعلان کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو میٹرو اور نندی پور میں بدعنوانی کے خلاف ان کی پارٹی سڑکوں پر نکل سکتی ہے۔ کبھی وہ سڑکوں پر نہیں نکلے گی۔ وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ کرپشن کی دلدل میں پارٹی کے رہنما اس بری طرح اترے ہیں کہ اب ان کی واپسی مشکل ہے۔ نواز حکومت کی مخالفت کارکنوں کی اشک شوئی کا بہانہ ہے‘ جن کی اکثریت بددل ہو کر گھر بیٹھ چکی۔ جنہیں سیاست کا چسکا ہے وہ تحریک انصاف کی نذر ہوئے۔ اعتزاز احسن کی مجبوری یہ ہے کہ وہ عمران خان کی قیادت قبول نہیں کر سکتے‘ وگرنہ وہ بھی پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ہوتے۔ دونوں پارٹیوں میں مفاہمت اب بھی موجود ہے‘ وگرنہ رحمن ملک آزاد نہ گھوم رہے ہوتے‘ وگرنہ یوسف رضا گیلانی اور پرویز اشرف جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔ نون لیگ کے لیڈر عمران خان اور لاہور میں ان کے امیدوار علیم خان کی بجائے‘ پیپلز پارٹی کے کارنامے بیان کر رہے ہوتے۔ 
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی طوفان کی زد میں ہیں۔ بچ نکلنے کا اب کوئی امکان نہیں۔ اپنی غلطیاں تسلیم کرنے پر وہ آمادہ نہیں اور قدرت کا اصول یہ ہے کہ توبہ کرنے والوں کے سوا‘ ہر ایک کی مہلت مختصر کر دیا کرتی ہے۔ بدقسمتی سے نون لیگ اور تحریک انصاف بھی اسی راہ پر ہیں۔ اس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ پشاور میں پی ٹی آئی کے کارکن اپنے ایک رکن صوبائی اسمبلی کے خلاف شاہراہِ عام پر برسرِ احتجاج ہیں۔ جسٹس وجیہہ الدین احمد نے کہا کہ جن لوگوں کو اٹھا کر پھینک دینا چاہیے تھا‘ وہی عمران خان کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ افسوس کہ کپتان نے اپنے کارکنوں کی تربیت پر کوئی توجہ نہ دی اور انہیں جنون کا سبق دیتے رہے۔ اس کالم میں دوسروں پر نسبتاً زیادہ تنقید ہوتی ہے‘ مگر میں حیران رہ جاتا ہوں کہ گاہے عمران خان کے جانباز مجھے بھی گالیاں لکھ بھیجتے ہیں۔ دوسروں سے وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ نون لیگ کی شرارت ہو سکتی ہے مگر میں تو ان کے فون نمبر اور نام پہچانتا ہوں۔ یقینی طور پر یہ کام پارٹی کے جرائم پیشہ کرتے ہیں۔ بخدا اب مجھے اس پر غصہ نہیں آتا‘ حیرت البتہ ہوتی ہے کہ کس طرح خود کو وہ تباہ کر رہے ہیں۔ اجتماعی حیات میں ایک دوسرے سے شکایات پیدا ہونا فطری ہے۔ ان شکایات کو بروقت نمٹایا جاتا ہے اور ضروری ہو تو ایک نظام کے تحت۔ اگر ایسا نہ ہو تو شکایت غیبت کا آغاز ہوتا ہے‘ رفتہ رفتہ وہ عناد کی شکل اختیار کر لیتی اور پھر جتھے داری میں ڈھلتی ہے۔ بہت قیمتی وقت عمران خان نے کھو دیا۔ اب بھی اگر وہ توجہ نہ دیں گے تو آخرکار ایک بڑی بربادی انہیں آ لے گی۔ 
جب یہ عرض کیا جاتا ہے کہ موجودہ سیاسی جماعتیں خودشکنی کے در پے ہیں تو گمان کیا جاتا ہے کہ یہ ناچیز ایک نئی سیاسی جماعت کا آرزو مند ہے۔ ایک اخبار نویس کو اس سے کیا حاصل ہوگا‘ آزادی کے ساتھ زندگی گزارنا‘ جس کی اولین ترجیح ہے۔ تحریک انصاف سے اس نے کیا پایا؟ 
جب تک اس حقیقت کا ادراک نہیں کیا جاتا کہ معاشرہ اخلاقی زوال کا شکار ہے‘ اصلاح کا آغاز نہ ہو سکے گا۔ بدقسمتی سے یہی وہ نکتہ ہے‘ جو سب سے زیادہ نظرانداز ہے ؎ 
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا 
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved