اس سال قوم نے ملک بھر میں یوم دفاع و شہداء بے مثال جوش و جذبے اور وقار سے منایا۔ یقیناً یہ اپنے شہداء کی عظیم ترین قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کے خاندانوں کے احساس تفاخر‘ جرأت مندی اور تحمل میں شریک ہونے کا منفرد موقع تھا۔ لیکن یہ ایک ایسا موقع بھی تھا کہ ہم ماضی پر نظر ڈالیں اور اپنے آپ سے پوچھیں کہ آیا بحیثیت قوم، ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر وہ عظیم مقصد حاصل کر پائے‘{ جس کے لیے ہمارے شہداء نے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔
میں نے لاہور میں یادگار شہداء پر منعقدہ تقریب میں شرکت کی، جہاں ہزاروں لوگ گھنٹوں، سحر زدہ ہو کر قوم کے سپوتوں کی جرأت و بہادری کی داستانیں سنتے رہے اور وہ نیا جوش و ولولہ بھی دیکھتے رہے‘ جس کی ہماری قوم کو سخت ضرورت ہے۔ پاکستان کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کرنے کی داستانیں مجھے غیرشعوری طور پر ٹرین کے اس سفر کی طرف لے گئیں‘ جو میرے خاندان نے 1947ء میں کیا تھا۔ وہ دوسرے لاکھوں افراد کی طرح اپنے گھر بار‘ زمینیں‘ جائیدادیں اور اپنے آبائواجداد کی ہزاروں سال کی تاریخ کو خیرباد کہہ کر ایک نئی عظیم تر قومی شناخت کا حصہ بننے جا رہے تھے۔ اس وقت کوئی بھی قربانی آزادی کی نعمت سے بڑی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
بلاتعجب‘ دوسرے لاکھوں افراد کی طرح، میرے خاندان کے لیے بھی نوآزاد ریاست‘ جسے ہم فخر سے پاکستان کہتے ہیں‘ کو منتخب کرنا ایک بہت ہی بڑا فیصلہ تھا۔ بہت سے خونیں لمحات اور تکلیف دہ تجربات آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہیں۔ میں ان لمحات کو نہیں بھول سکتا‘ جب ہماری ٹرین پاکستانی حدود میں داخل ہونے کے بعد ہربنس پورہ سٹیشن پر رکی۔ ٹرین میں سوار ہر شخص خوشی سے سرشار ہو کر بے ساختہ ''اللہ اکبر‘‘ اور ''پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہا تھا۔ اس تقدیر ساز سفر کے بعد ہر شخص کی آنکھیں خوشی کے آنسوئوں سے چھلک رہی تھیں۔
اس سال یوم شہداء کی تقریب کے ماحول پر اُسی طرح کے جذبات و احساسات کا غلبہ تھا۔ میں نے اپنے آپ سے پوچھا‘ بحیثیت قوم‘ ہمارے ساتھ کیا ہوا؟ وہ عظیم تر قومی شناخت کہاں ہے جو قائد اعظم، پاکستان کی شکل میں ہمارے لیے چھوڑ گئے تھے؟ وہ لاکھوں مسلمان جنہوں نے ہندوستان میں اپنے آبائواجداد کی شناخت ترک کر دی تھی، انہوں نے کسی ایسے نسلی اور لسانی گروہ کا حصہ بننے کے لیے ہجرت نہیں کی تھی جو اب پنجاب‘ سندھ‘ سرحد یا بلوچستان کہلاتے ہیں۔ انہوں نے نوآزاد مسلم ریاست کی جانب اس لیے ہجرت کی تھی کہ وہ اپنی زندگی اور اپنے بچوں کی پرورش ایسے باعزت ماحول میں کر سکیں گے جو خوف‘ احتیاج‘ بھوک‘ بیماری‘ جہالت‘ کرپشن‘ تشدد‘ ظلم اور ناانصافی سے پاک ہو گا۔ وہ پاکستان کہاں ہے؟ ہم ابھی تک اس کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
بے شک‘ 14 اگست 1947ء کو پاکستان کا ایک آزاد ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرنا ہماری تاریخ کا بہترین لمحہ تھا۔ قائد اعظم نے اپنے مشن کی تکمیل پر انتہائی اطمینان کے احساس کے ساتھ 14 اگست 1948ء کو قوم کے نام اپنے پیغام میں فرمایا تھا: ''آپ کی ریاست کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں، اب یہ آپ پر ہے کہ اسے تعمیر کریں اور جس قدر ممکن ہو جلد از جلد اس کی تعمیر کریں‘‘۔ اگر بابائے قوم زیادہ دیر زندہ رہتے تو انہیں صدمہ ہوتا کہ ہم بحیثیت قوم پاکستان کے بارے میں ان کے خواب پر پورا اترنے میں کس بری طرح ناکام ہوئے!
اپنی آزادی کے پہلے سال میں ہی‘ جو بدقسمتی سے قائد اعظمؒ کی زندگی کا آخری سال تھا‘ انہوں نے اپنی دُوربین نگاہوں سے آنے والے حالات کا ادراک کر لیا تھا۔ وہ ملک کی اُس سیاسی قیادت کی اہلیت اور کردار سے سخت مایوس ہو چکے تھے‘ جس نے نوآزاد پاکستان کا نظم و نسق چلانا تھا۔ ملک کے اُفق پر سیاسی نااہلیت کا راج تھا۔ قائد کی پریشانی بے جا نہیں تھی۔ تب سے پاکستان اشرافیہ کے ان طبقات کا یرغمال بنا ہوا ہے‘ جو ملک میں حقیقی قومیت کے فروغ کے لیے نقصان کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
ہندوستان کی کانگریس پارٹی کے برعکس‘ پاکستان کی بانی جماعت‘ مسلم لیگ پر تقریباً ان چند جاگیردار خاندانوں کا تسلط ہے جو تقسیم سے پہلے برطانیہ کی زیر سرپرستی تھے اور وہ اس قدر طاقتور ہو گئے کہ افسر شاہی اور فوج کے ذریعے قومی امور پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا۔ مسلم لیگ کے تقسیم در تقسیم کے بعد بھی اشرافیہ کے یہی طبقات مختلف اوقات میں، مختلف چہروں اور مختلف سیاسی جھنڈوں کے ساتھ، نوکر شاہی کی مدد سے، جس کے پاس حقیقی اختیار ہے‘ اقتدار پر مسلط رہے۔
''منتخب‘‘ رہنمائوں کے طور پر بھی انہوں نے کبھی ایک ایسی جمہوری ریاست پروان چڑھانے کی امید نہیں ابھرنے دی‘ جو پاکستان کے تمام شہریوں کو سماجی و اقتصادی انصاف‘ قانون کی حکمرانی اور صاف و شفاف انتظامیہ فراہم کر سکے۔ آج ہم دہشت گردی کی جس لعنت سے نبردآزما ہیں‘ یہ بھی قیادت کی مسلسل ناکامیوں کی پیداوار ہے۔ بار بار کی سیاسی نامرادیوں کے باعث لوگوں نے کسی نہ کسی شکل میں فوج کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ آج کا منظرنامہ بھی مختلف نہیں ہے‘ ایک غیر فعال حکومت خود‘ وہ امور انجام دینے کے لیے فوج کی محتاج ہے جو حکومت کا بنیادی مینڈیٹ تھے، مگر حکمران انہیں انجام دینے میں ناکام رہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ کے اقتدار کا ڈھانچہ اتنا مضبوط اور گہرا ہے کہ یہ نظام میں کوئی تبدیلی یا اصلاح نہیں ہونے دیتا۔ یہ انہیں راس نہیں آتی۔ یہ اپنے مخصوص مفادات کی خاطر آئین میں ترامیم کرتے رہتے ہیں۔ کسی بھی غیر مساوی اور مخصوص مفادات پر مبنی سیٹ اپ میں کوئی بھی طرز حکومت کارگر نہیں ہو سکتی۔ نظام کی کمزوریاں دور کرنے اور قومیت کو تقویت پہنچانے والے عناصر کو مضبوط کرنے کے بجائے ہمارے حکمرانوں نے صوبائی سیٹ اپ کو اپنی سلطنتیں بنا رکھا ہے، جہاں وہ مغلوں کی طرح حکمرانی کرتے ہیں۔
کسی حکومت نے ہمارے فرسودہ وفاقی ڈھانچے کی اصلاح کرنے اور صوبوں کی محرومیاں دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ایک نوآزاد قوم کے طور پر ہم آزادی کے ان چیلنجوں سے نبرد آزما نہ ہو سکے جو جیوـ پولیٹیکل اور سٹرکچرل فالٹ لائنز کی شکل میں ہمارے حصے میں آئی تھیں۔ زبان ہمارا پہلا درد سر بنی۔ حقیقی پاکستان 1971ء میں دولخت ہو گیا۔ اس کے باوجود ہم نے اپنی غلطیوں سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ ہم ابھی تک مذہب‘ کلچر‘ زبان اور نسل کے نام پر مختلف عفریتوں میں الجھے ہوئے ہیں‘ ہم نے اپنے آپ کو فرقوں اور دوسری عصبیتوں کی بنیاد پر تقسیم کر رکھا ہے۔
ملک ابھی تک ایک ایسا سیاسی نظام وضع کرنے کے قابل نہیں ہوا جو نسلی اور لسانی تنوع رکھنے والی آبادی کے چیلنجوں پر پورا اتر سکے۔ چھوٹے صوبوں میں ''پنجابی بالادستی‘‘ اور اختیارات و وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف زبردست احساس رنجش موجود ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا غیر معمولی طور پر نمایاں ہونا اور قومی اہمیت کے معاملات میں ان کی شمولیت جبکہ ان کے دوسرے صوبائی ہم منصبوں کی اس پوزیشن سے محرومی، ہمارے غیر مساوی حکومتی سیٹ اپ کی صرف ایک مثال ہے۔
دوسرے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے نظاموں سے اپنا تقابل کریں تو ہم اپنے آپ کو ایک ایسی منفرد فیڈریشن کی مثال کی صورت میں دیکھتے ہیں جو دنیا میں اور کہیں بھی نہیں ہے۔ ہم اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورت حال کے شکار ہیں‘ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں‘ ایک کے بعد دوسرا بحران ہمارا مقدر بن جاتا ہے اور ہم ابھی تک ایک قوم کے طور پر اپنے مشترکہ نصب العین اور اتحاد کی بنیادوں کا تعین نہیں کر پائے۔ معلوم المیوں کے منحوس چکر سے پیچھا چھڑانے اور اتحاد کا جذبہ اجاگر کرنے کے لیے‘ جو قومی سلامتی کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے‘ ہمیں ایک ایسے سنجیدہ اور بامعنی قومی مکالمے کی ضرورت ہے جو پورے حکومتی نظام کی نظرثانی پر محیط ہو۔
ہمیں ملک میں سیاسی‘ اقتصادی‘ عدالتی‘ تعلیمی‘ انتظامی اور اراضی کی حقیقی اصلاح درکار ہے۔ چہرے بدلنے سے کچھ ہو گا نہ موجودہ نظام کے تحت انتخابات کرانے سے کوئی فرق پڑے گا۔ خود نظام کو بدلنا ناگزیر ہے۔ ذاتی مفادات و احساسات نہیں بلکہ دلیل اور منطق ہمارا معیار ہونا چاہیے۔ اب ہمیں نمائشی اقدامات سے پیچھا چھڑا لینا چاہیے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)