تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     16-09-2015

احتجاج اور احتجاجی کلچر

''یہ ایمرجنسی بند کیوں ہے؟ ڈاکٹرز آج کہاں ہیں؟‘‘
'' ڈاکٹرز پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کرنے گئے ہیں۔‘‘
''ٹریفک کیوں رکی ہوئی ہے؟‘‘
'' آگے چوک میں کسان احتجاج کر رہے ہیں۔‘‘
'' بھائی صاحب سنیے! یہ دواؤں کی دکان بند کیوں ہے؟مجھے بچے کے لیے دوا کی ضرورت ہے۔‘‘ 
''آ پ ٹی وی نہیں دیکھتے؟آج کیمسٹ ہڑتال پر ہیں۔‘‘
''بیگم!ایک کپ چائے جلدی سے‘‘
''نہیں مل سکتی ۔‘‘
''کیوں؟‘‘
'' دودھ والا نہیں آیا۔اس کا فون آیا تھا کہ آج گوالوں کی ہڑتال ہے۔‘‘
'' یار یہ ریستوران کیوں بند ہے۔بڑے زورکی بھوک لگی تھی۔‘‘
''چھاپوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے،آج ریستوران والے ہڑتال پر ہیں۔‘‘
''بازار کیوں بند ہے؟‘‘
''تاجر ہڑتال پر ہیں۔وہ کہتے ہیں حکومت ٹیکس کیوں مانگتی ہے۔‘‘ 
یہ کسی ڈرامے کے مناظر نہیں۔آج کے پاکستان کی حقیقی تصویر ہے۔دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے! کیا کوئی ملک اس طرح چل سکتا ہے؟
ہم اس کے اسباب کی بات کریں گے لیکن میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ سبب جو بھی ہو،احتجاج اور ہڑتال کے کلچر کے ساتھ کسی سماج کی نمو اور حرکت کیسے ممکن ہے؟جس ملک میں ہر روز ،کم و بیش ہر طبقہ ہڑتال پر ہو،وہاں کاروبارِ زندگی کیسے چل سکتا ہے؟جہاں حکومت برائے نام بھی ہو، عدالتیں مو جود ہوں‘ پارلیمان قائم ہو‘ میڈیا آزاد بلکہ بالکل ہی آزاد ہو،وہاں اس کلچر کا کیا جواز ہے؟یہ ا نارکی ہے۔لاقانونیت۔مذہب اورسیاسیات کے سب علما اور نظریہ ساز متفق ہیں کہ انارکی ایک معاشرے کی بدترین صورت ہے۔جبر کی حکومت گوارا کی جا سکتی ہے مگر لاقانونیت نہیں۔دین کے علماء اسی لیے خروج کو کبھی مستحسن نہیں سمجھتے۔جنہوں نے اسے جائز ٹھہرایا ہے، انہوں نے بھی اس کی ایسی سخت شرائط بیان کی ہیں کہ عملاً خروج محال ہو جا تا ہے۔امام ابن تیمیہ نے اس امت کی تاریخ سے واقعات جمع کر کے بتا یا ہے کہ خروج نے کیسے مسلم سماج کو فساد سے بھر دیا۔مسلسل احتجاج اور قانون کا انکار خروج نہیں تو کیا ہے؟
وکلا ہڑتال پر ہیں۔و جہ یہ ہے کہ ایک وکیل کے خلاف مقدمہ کیوں قائم ہوا ؟تو کیا وکیل مجرم نہیں ہو سکتا؟کیا اس پر کوئی الزام نہیں لگ سکتا؟ اگر لگے گا تو کیا مقدمہ قائم نہیں ہو گا؟کیاملک کا قانون وکلاء کو استثنا دیتا ہے؟ظاہر ہے کہ ان سوالات کے جواب نفی میں ہیں۔سوال یہ ہے کہ پھر احتجاج کس بات کا؟وکلا سے بہتر کون جانتا ہے کہ یہاں ایک عدالتی نظام مو جود ہے۔اگر الزام جھوٹا ہوا تو ملزم باعزت بری ہو جائے گا۔سچا ہوا تو قانون کے تحت سزا ہو جا ئے گی۔اس پر احتجاج آخر کیوں؟عدالتیں چونکہ شواہد کی بنیاد پر فیصلہ دیتی ہیں،اس لیے اس بات کا پورا امکان ہوتا ہے کہ کوئی فیصلہ انصاف کے خلاف ہو۔مذہب ا ورسیاسیات کے سب ماہرین کہتے ہیں کہ اس کے با وجود،عدالت کا فیصلہ نافذہو گاا ور ما نا جائے گا۔
یہ اس لیے کہا جا تا ہے کہ کوئی معاشرہ لاقانونیت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔جو معاشرہ قانون کے خوف سے آزاد ہو جائے وہاں کوئی نظم قائم نہیں رہ سکتا۔لوگ کہتے ہیں پاکستان میں پہلے کون سا قانون ہے؟یہاں طاقت ور اپنے حق میں فیصلے لیتا اور کمزور مارا جاتا ہے۔اس بات میں جزوی صداقت ہے۔یہاں بااثر لوگوں کو سزا بھی ملتی ہے۔کیا سپیکر قومی اسمبلی بااثر افراد کی فہرست میں شامل نہیں؟ کیا ان کے خلاف فیصلہ نہیں آیا؟اس ملک میں لاکھوں لوگ سرکاری ملازم ہیں۔کیا سب کو ملازمت کاتحفظ حاصل نہیں؟کیا بہت سے لوگ سیکشن افسر کی منصب سے ملازمت کا آ غاز کرتے اور بغیرسفارش کے،افسر شاہی کے اعلیٰ ترین منصب تک نہیں پہنچتے؟کیا آج بھی ریٹائر ہونے والوں کو کروڑوں روپے نہیں ملتے؟ کیا یہ ملک ایک ذمہ دار ایٹمی قوت نہیں ہے؟اگریہاں کوئی قانون نہیں ہے تو یہ سب کیسے ممکن ہے؟ 
لوگوں کو شکایات ہیں اور ان میں سے اکثر درست ہیں۔گلے مجھے بھی ہیں، نظام سے بھی‘ افراد سے بھی‘ لیکن کیا اب نظام کوآگ لگا دینی چاہیے؟پھر یہ کہ میںاحتجاج کومطلق حرام بھی نہیں کہہ رہا۔خرابی یہ ہے کہ احتجاج کو موثر بنا نے کے لیے ہم سمجھتے ہیں کہ نظام کا تعطل لازم ہے۔ سڑکیںبند‘ ادارے بند اورنتیجے کے طور پر کاروبارِزندگی بند۔ایک دن کی ہڑتال زندگی کو واپسی کے سفر پر ڈال دیتی ہے۔اسے ترقی ٔ معکوس کہتے ہیں۔ اگر میں پانچ سو روپے کے الاؤنس کے لیے ملکی معیشت کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچاتا ہوں تو کیا یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے؟
میں احتجاج کی نہیں، احتجاج کے کلچر کی نفی کر رہا ہوں۔احتجاج عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب ایک نظام میں مو جود ہر دروازہ بند ہو جائے اور کسی کو انصاف ملنے کی امید نہ رہے۔اس صورت میں کوئی چارہ اس کے سوا نہیں ہو تا کہ احتجاج کیا جا ئے۔اس کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا ۔یہ سوال مگرپھر بھی باقی رہتا ہے کہ احتجاج کے لیے میں کیا اسلوب اختیار کرتا ہوں؟اگر یہ کسی فساد کا راستہ کھولتا ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں نے ایک غلط اسلوب اپنا یا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اجتماعی مفاد کا شعور نہیں رکھتا اورمیں احتجاج کے آداب سے بے خبر ہوں۔
میرے نزدیک مسائل دو ہیں۔ایک ہے احتجاج کا کلچر۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سماج میں ہر کوئی ہر وقت احتجاج کے موڈ میں رہے۔اگر ایسا ہے تواس کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہیں کہ معاشرہ نفسیاتی طور پر بیمار ہے۔اسے کسی معالج کی ضرورت ہے جو اسے بتائے کہ احتجاج آخری حل ہوتا ہے، پہلا نہیں۔یہ کام عام طور پر سیاسی، مذہبی اور فکری قیادت کرتی ہے۔وہ قوم کی شعوری تربیت کرتی ہے۔ہماری بدقسمتی ہے کہ سیاست اور مذہب کی باگ احتجاج پسندوں کے ہاتھ میں ہے۔وہ خود اس عارضے کا سبب ہیں۔ ان سے علاج کی کیا تو قع۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر اس بات پر احتجاج کرتے ہیں جو ہمارے مفاد کے خلاف ہے، قطع نظر اس کے کہ قانون اس کی اجاز ت دیتا ہے یا نہیں۔کیا ہم اس پر احتجاج کا حق رکھتے ہیں کہ ایک وکیل یا ایک صحافی کے خلاف مقدمہ کیوں قائم ہوا؟ کیا یہ طبقات قانون سے ماورا ہیں؟کیا ہم اس پر احتجاج کا حق رکھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے ا راکین کو ہٹا یا کیوں نہیں گیا ؟ جب حکومت اس کا قانونی حق نہیں رکھتی تو اس کے خلاف احتجاج کیسا؟ 
اس ملک میں احتجاج کادر کھلا رہنا چاہیے لیکن احتجاجی کلچر کے راستے بند ہو جانے چاہئیں۔ قوم کو اس تر بیت کی شدید ضرورت ہے کہ ایک نظام میں رہنے کے آداب کیا ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved