ایام ذوالحجہ کا اختتام عید قربان پر ہوگا۔ عید قربان کا دن مسلمانوں کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔اس دن حاجی میدان منیٰ میں اوردنیا بھر کے مسلمان اپنے اپنے علاقوں میں قربانی کرتے ہیں۔ قربانی کا آغاز زمین پر انسان کی آمد کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کے درمیان تنازع بھی مسئلہ قربانی پر ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے کی قربانی کو قبول کر لیا جب کہ دوسرے بیٹے کی قربانی قبول نہ ہو سکی ۔ جس کی قربانی قبول نہ ہوئی وہ حسد میں مبتلا ہو گیا اور اس نے اپنے صالح بھائی سے کہا کہ تجھے قتل کردوں گا! اس پر نیک بھائی نے سرکش بھائی کو تقویٰ اور پرہیز گاری کی تلقین کرتے ہوئے کہاکہ بے شک اللہ تعالیٰ پرہیز گاروںکی قربانی کو قبول کرتاہے‘ لیکن سرکش بھائی نے اس نصیحت کو قبول نہ کیا اور اپنے پرہیزگار بھائی کو شہید کر دیا۔ اس ناحق شہادت کے بعد بھی قربانی کا سلسلہ جاری وساری رہا ۔
قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر امت پر قربانی کو لازم کیا تھا اور اس قربانی کے واجب ہونے کا سبب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا نام حلال جانوروں کو ذبح کرتے ہوئے لیا جائے۔مومن ہر آن اور ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور ذکر سے سر شار ہوتا ہے اور سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کا یہ وصف بیان بھی کیا ہے کہ وہ اٹھتے، بیٹھتے اور اپنے پہلو ؤں پر اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں ۔ چنانچہ ایمان باللہ کا یہ تقاضا تھا کہ اللہ کے نام کو قربان گاہوں میں ذبح ہونے والے جانوروں کے گلے پر چھری چلاتے ہوئے بھی لیا جائے۔
قربانی کی تاریخ اگرچہ بہت قدیم ہے لیکن قربانی کی اس تاریخ کو اپنے کردار اور افعال سے جس قدر روشن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا اس کی مثال ان سے پیشتر نہیںـ ملتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی توحید کے لیے بے مثال قربانیاں دیں۔ بت کدے میں داخل ہو کر کلہاڑے کو چلا دیا ، دربار نمرود میں صدائے توحید کو بلند فرما دیا، نمرود کی جلائی ہوئی چتا میں اترنا گوارا کر لیا اور باپ اور بستی والوں کی مخالفت کو سہہ لیا لیکن ابھی ایمان کے راستے پر چلتے ہوئے آزمائشوں کا سفر باقی تھا۔ آپ نے بڑھاپے کے عالم میں اللہ تعالیٰ سے ایک صالح بیٹے کے لیے دعا مانگی۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کو قبول فرماتے ہوئے حضرت اسماعیل علیہ السلام جیسا حلیم بیٹا عطا فرما دیا۔ بیٹا ابھی گود میں ہی تھا کہ اللہ کے حکم پر جناب ہاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کو وادیٔ بے آب وگیا ہ میں تنہا چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور جناب اسماعیل علیہ السلام کے لیے زم زم کے چشمے کو رواں فرمادیا اور اچھے رفقاء اور ساتھی بھی عطا فرما دیے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام گاہے گاہے جناب ہاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کی خبر گیری کے لیے حجاز تشریف لاتے۔ جب اسماعیل علیہ السلام چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ جناب اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلا رہے ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو اپنے خواب سے آگاہ کیا اوران سے پوچھا تمہاری اس معاملے میں کیا رائے ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جواب میں پورے خلوص اور احترام سے کہا کہ اے میرے بابا! آپ وہ کر گزریں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور جناب اسماعیل علیہ السلام نے جب کامل تابعداری کا ذہن بنالیا تو جناب ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹایا ۔ جب آپ چھری چلانے لگے تواللہ تعالیٰ نے آپ کو آواز دی‘ آپ نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جناب اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے آنے والے جانوروں کو ذبح کروادیا۔
یوم النحر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد گار ہے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی قربانی کرتے رہے اور آپ نے اپنی امت کو بھی قربانی کرنے کی تلقین کی۔ اگر ایک مسلمان خلوص سے ایک بکرے کی قربانی بھی کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی قربانی کو قبول کرتے ہیں لیکن ا س کے برعکس اگر ایک انسان درجنوں جانوروں کو ذبح کرے اور اس کے دل میں خلوص موجود نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی قربانی قبول نہیں فرماتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ امر واضح فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ کو جانوروں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ قربانی کرنے والے کا تقویٰ پہنچتا ہے‘ اس لیے جب بھی کوئی شخص قربانی کرنے کے لیے جانور کو لٹائے تو اس کی چھری صرف جانور کے گلے پر نہیں چلنی چاہیے ۔بلکہ اپنے نفس کی اکساہٹ، غلط خواہشات ، انانیت ، خودغرضی اور خود پسندی پر بھی چلنی چاہیے۔ جو شخص قربانی تو کرتا ہے لیکن اپنے آپ کو احکام الٰہی کا پابند یا اپنے آپ کو تقویٰ کا خوگر نہیں بناتا تو اس شخص نے صحیح معنوں میں قربانی کا حق ادا نہیں کیا۔
قربانی کے ایام قریب آتے ہی دنیا بھر میں جانوروں کی خریداری کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق بڑھ چڑھ کر اللہ کے راستے میں قربانی کرے۔دنیا بھر میںاس موقع پر لاکھوں کی تعداد میں اونٹ، گائے ، دنبے ، بکرے اور چھترے اللہ کے راستے میں ذبح کیے جاتے ہیں ۔ ان کے ذبح کرنے کے نتیجے میں جہاں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل ہوتی ہے وہیں پر غرباء اور مساکین کے گوشت کھانے کے امکانات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ خوراک کی قلت اور بھوک کا شکار وہ لوگ جنہوں نے کئی مہینوں سے گوشت نہیں کھایا ہوتا وہ وافر مقدار میں گوشت کھانے کے قابل ہو جاتے ہیں ۔ قربانی کرتے وقت صفائی اور طہارت کااہتمام کرنا بھی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔
بعض لوگ قربانی کے بعد جانوروں کافضلہ اورفالتومواد راستوںمیں پھینک کر دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جہاں قربانی کرنا اللہ کا حکم ہے وہیں پر صفائی اورطہارت کا اہتمام کرنا بھی اللہ کا حکم ہے اور مومن کو اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر یکساں عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جہاں مسلمانوں کی غالب اکثریت قربانی کے عمل کو بہت زیادہ جذبے سے انجام دیتی ہے وہیں پر مذہب سے بیزار
بعض لوگ اسراف اور فضول خرچی کو بنیادبنا کر قربانی پر بلا جواز تنقید کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں ۔یہ لوگ شادی بیاہ اور اپنے اعزاء واقارب کی سالگرہ کی تقریبات اور دیگر بہت سے مواقع پر بے تحاشا وسائل کا استعمال کرتے ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے کیے جانے والے اعمال کی باری آتی ہے تو وہ کسی نہ کسی انداز میں اس عمل کی حوصلہ شکنی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمیں اس حوالے سے اپنے ذہنوںمیں اس بات کو جگہ دینی چاہیے کہ ہمارے پاس مال ،جان ، صحت اور جوانی کی جتنی بھی نعمتیں ہیںیہ سب اللہ تعالیٰ کی عطا ہیں۔ اگر یہ تمام نعمتیں بھی اللہ تعالیٰ کے راستے میں استعمال ہو جائیں تو ہم پھر بھی اس کی بندگی کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ اس لیے جہاں ہمیں اپنی ذات اور ضروریات پر وسائل صرف کرنے چاہئیں وہیں پر اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں بھی بڑھ چڑھ کر اپنی توانائیوں اور وسائل کو خرچ کرنا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قربانی کی روح کو سمجھتے ہوئے جانوروں کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں ذبح کرنے کی توفیق دے۔ آمین!