وزیرِ اعظم نواز شریف نے کاشتکاروں کے لیے 100ارب روپے کے قرض سمیت سہولیات کا اعلان کیا ہے ۔ اپنی اس تقریر میں ان کا کہنا تھا: پاکستان کا کسان محنتی ہے لیکن حکومت یہ چاہتی ہے کہ وہ جدید سائنسی طریقوں سے پیداوار بڑھائے ۔ قارئین! میں تیسری دنیا کے ایک غریب ملک کا شہری ہوں ۔ترقی یافتہ ممالک کے برعکس، سائنسی تحقیق کے لیے میرے پاس سینکڑوں ارب ڈالر ہرگز موجود نہیں ۔ میں ان لوگوں میں سے بھی نہیں جو امریکہ و یورپ سے موازنہ کرتے ہوئے،اپنی قوم کا مضحکہ اڑانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ سات دہائیوں پر مشتمل ہے ۔ سینکڑوں سالہ تاریخ رکھنے والی عالمی طاقتوں سے اس کا موازنہ سرا سر نا انصافی ہوگی ۔ میری اس تحریر کا مقصد صرف اور صرف حکومتی ترجیحات پر ایک نظر ڈالنا ہے ۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ اس سے مرعوب ہونے کی بجائے ، ہمیں اپنے بجٹ اور حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے، بتدریج بہتری کی طرف بڑھنا چاہیے۔ پاکستان میں ناکارہ جگر بدلنے کا پہلا آپریشن کیا گیا ہے ۔ ترقی یافتہ دنیا میں اعضا کی منتقلی ایک عام بات ہے ۔ دل ، گردے، جگر، جیسے اہم ترین اعضا سے لے کر ہاتھ بازو تک بدلے جاتے ہیں ۔ روس کے تیس سالہ ویلری سپیریدو نوف دنیا کے وہ پہلے انسان ہوں گے، 2017ء میں جن کا سر مکمل ناکارہ جسم سے الگ کر کے ایک اور انسانی جسم پر منتقل کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ نیا جسم ایک ایسے انسان کا ہوگا، جس کا دماغ کسی حادثے یا بیماری کی وجہ سے تباہ شدہ ، جب کہ جسم صحت مند ہوگا۔دماغ کو تین سیکنڈ تک خون کے ذریعے آکسیجن اور گلو کوز نہ ملے تو اس کے خلیات مرنے لگتے ہیں ۔ ویلری کے دماغ کا درجہ ء حرارت ممکنہ حد تک گرا کر خلیات کودیر تک زندہ رکھا جائے گا۔ اس کے باوجود ، غیر متنازع ماہرین کی رائے میں ، موجودہ ٹیکنالوجی کو دیکھتے ہوئے، یہ ایک احمقانہ کوشش ہے ۔ ویلری کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ یوں بھی وہ تیزی سے موت کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ 1970ء میں دماغ کے مشہور و معروف جرّاح ڈاکٹر رابرٹ وائٹ نے ایک بندر کا سر دوسرے بندر کے جسم پر منتقل کرنے کی کوشش کی تھی ۔یہ تجربہ اس حد تک کامیاب رہا کہ سر (دماغ) منتقلی کے بعد بندر سننے، سونگھنے، چکھنے ، کھانے اور دیکھنے کی صلاحیت استعمال کرتا رہا لیکن 9دن بعد بالآخر وہ مر گیا ۔ 1990ء کی دہائی میں ، ڈاکٹر وائٹ مشہور سائنسدان سٹیفن ہاکنگ کا سر ایک صحت مند جسم پر منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کرتے رہے لیکن ڈاکٹر ہاکنگ خوش قسمت نکلے ۔
بات ہو رہی تھی حکومتی ترجیحات کی ۔ مرکز اور پنجاب کی شریف حکومتیں اکثر و بیشتر جلدی میں پائی جاتی ہیں ۔ اپنے کسی بھی کارنامے کو میڈیا پر نمایاں کرنے کے لیے وہ اسے زمین کی سطح سے کم از کم بیس فٹ بلندی پر تعمیر کرتی ہیں ۔ راولپنڈی میٹرو پر پچا س ساٹھ ارب روپے خرچ کرنے اور شہر کی ناکام پلاسٹک سرجری کی بجائے اگر پانچ سات ارب روپے سے وہ سڑک کھلی کر کے واران جیسے کسی پرائیویٹ ٹھیکیدار کو بسیں چلانے کی اجازت دے دیتے تو یہی مقاصد حاصل کیے جاسکتے تھے ۔ لاہور ، راولپنڈی اور ملتان میٹرو بس کے بعد اب حاضر ہے 165ارب روپے کی لاہور میٹرو ٹرین ۔جہاں تک سائنسی ترقی کا تعلق ہے ، نندی پور پاور پلانٹ اور قائدِ اعظم سولر پارک میں ہم اس کا شاندار مظاہرہ دیکھ چکے ہیں ۔ میاں شہباز شریف نے ایک مرتبہ
فرمایا تھا کہ شدید مصروفیت کی بنا پر اب ان کے پاس سوچنے کا بھی وقت نہیں ہوتا۔ اسی جلد بازی میں درآمدی کوئلے کا پاور پلانٹ کراچی ساحلِ سمندر پر لگانے کی بجائے وہ اسے ساہیوال کھینچ لائے ہیں۔ اب ریلوے کی تمام تر توانائی 1320 میگاواٹ بجلی کے لیے کوئلے کو کراچی سے ساہیوال پہنچانے پر صرف ہوگی ۔ اس سے بچا جا سکتا تھا، اگر بڑے میاں صاحب چھوٹے میاں صاحب سے کہہ سن کر یہ منصوبہ کراچی میں لگا لیتے لیکن وہ ایسا کیوں کرتے؟ چھوٹے میاں صاحب نے سکولوں کی حالتِ زار بہتر بنانے کی بجائے پنجاب کی یونیورسٹیوں میں انتخا بات سے قبل لیپ ٹاپ بانٹے تو بڑے میاں صاحب نے یہی کام مرکز میں کیا۔ کئی بار مجھے گمان ہوتاہے کہ 1970ء سے 1980ء کی دہائی میںپاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تعمیر میاں صاحبا ن کے ہاتھ میں ہوتی توخفیہ جوہری لیبارٹریاں تعمیر کرنے کے بعد وہ ان کے ساتھ بیس فٹ اونچے مینار تعمیر کرتے کہ دنیا سے داد وصول کی جا سکے ۔
نقالی کا بھی ایک طریقہ ہوتاہے ۔ ایک صاحب مصر ہیں کہ وہ فرانس کا ایفل ٹاور پاکستان میں بنا کر دم لیں گے ۔ بھائی ، ہمیں کیا ملے گا اس سے ؟ میاں شہباز شریف 2008ء سے 2013ء کے درمیان پنجاب میں حکمران رہے ۔ اس دوران صوبائی سطح پر بجلی کے منصوبے تعمیر کرنے کی بجائے وہ مینارِ پاکستان کے سامنے احتجاجی مظاہروں کے ساتھ ساتھ سکولوں میں سولر لیمپ تقسیم کرتے رہے۔
یورپ نے کائناتی تحقیق کے میدان میں لارج ہیڈرن کولائیڈر کے نام سے ایک27کلومیٹر طویل مشین بنا رکھی ہے ، جہاں ذرّات کو روشنی کی رفتار سے ٹکرایا جاتاہے ۔ میاں صاحبان کو ا س کا علم ہوگیا تو؟ یہ سوچ کر ہی ڈر لگتاہے ۔ قائدِ اعظم سولر پارک منصوبہ کیا تھا؟ ''سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ؟‘‘ بھائی ہمیں بجلی کی ضرورت ہے اور اپنے وسائل کے اندر ۔ ہمیں ''دنیا کا سب سے بڑا‘‘منصوبہ لگا کر کیا ملے گا؟ دنیا کا سب سے بڑا جھنڈا ۔ دنیا کی سب سے بڑی مسجد۔ دنیا کا سب سے بڑا، دنیا کی سب سے بڑی... دنیا کے ساتھ یہ کس قسم کا یک طرفہ مقابلہ انہوں نے شروع کر رکھا ہے؟بڑے میاں صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ کسانوں کو سائنسی ترقی کی راہ نہ دکھائیں ، مبادا ہماری فصلوں پر کچھ اور ہی اگنے لگے۔ سب کو معلوم ہے کہ کون سابیج کتنی پیداوار دیتاہے ۔ معیاری بیج سمیت زراعت کا سستا سازوسامان فراہم کرنا اور کسان کوآڑھتیوں سے محفوظ رکھنا مینجمنٹ کا کام ہے ، سائنسی ترقی کا نہیں ۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کا گلا دبا کر اپنا دودھ بیچنے اور پولٹری کے لیے موزوں حالات پیدا کرنے تک ، جہاں کہیں ذاتی مفاد کارفرما تھا، وہاں مینجمنٹ کا یہ ہنر آپ بخوبی دیکھ سکتے ہیں ۔ ذاتی کاروبار میں تو کبھی انہیں نقصان ہوا اور نہ کبھی کوئی احمقانہ فیصلہ دیکھنے میں آیا۔ پھر نندی پور پاور پراجیکٹ کا سوا ستیاناس کیوں؟ عوام ، کالانعام پوچھتے ہیں: میاں صاحب کیوں ؟