یہ تو آپ نے سنا ہو گا کہ بلی نے شیر کو سارے دائو سکھائے ۔ درخت پر چڑھنا ‘ اترنا نہیں سکھایا۔ ن لیگ کے شیر سے بلی واردات کر گئی۔ شیر کو اپنے ساتھ درخت پر تو چڑھا لیا۔ عین اوپر پہنچی تو چھلانگ مار کے بھاگ گئی۔ شیر درخت پر بیٹھا دھاڑ رہا ہے۔ نیچے دیکھتا ہے‘ توبلندی سے ڈر لگتا ہے۔ اترنے کا طریقہ آتا نہیں۔ شیر عجیب مصیبت میں ہے۔ درخت کے نیچے آنے جانے والے کھڑے ہو کر تماشا دیکھ رہے ہیں اور شیر اپنے خوف کا اظہار کرتے ہوئے دھاڑ رہا ہے ''کچھ لوگ مجھے ہٹا کر اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔ مفاد پرست ہر وقت صورتحال کو اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن کامیاب نہیں ہوں گے۔‘‘شیرصاحب !ہمدردی بٹورنے کے لئے اپنی نیک چلنی کا دعویٰ کر رہے ہیں ''ہم قوم کا درد رکھتے ہیں۔ پیسے بنانے نہیں آئے۔ اپنی جیب سے خرچ کر رہے ہیں۔‘‘ حکومت ایسی چیز نہیں کہ اس میں آ کر اپنی جیب سے خرچ کرنا پڑے۔ ایسا تو امیر سے امیر لوگ بھی نہیں کرتے۔ کینیڈی خاندان کے پاس دولت کی کمی نہیں تھی۔ اقتدار میں آکر اسے سرکاری خزانے سے‘ ایک پیسے کی ضرورت نہیں پڑی۔صدر بش کی والدہ ‘ارب پتی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ باپ نے بھی اچھی خاصی دولت کما رکھی تھی۔ جارج بش کو حکومت میں رہ کر پیسے بنانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ واقعی وہ اپنی جیب سے خرچ کرتے رہے۔ لیکن صدر کینیڈی یا جارج بش نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم پیسے بنانے نہیں آئے۔ جس کے پاس پیسے کی بہتات ہو‘ اسے کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ عوام کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ ملک کی تعمیروترقی کے لئے الیکشن جیت کر آیا ہے‘ پیسے کا ضرورت مند نہیں۔ جسے یقین دلانا پڑے کہ میں اقتدار میں پیسے بنانے نہیں آیا‘ وہاں دال میں قطر ضرور ہوتا ہے۔ یہاں سارا مسئلہ قطر کا ہے۔ سوئی گیس کے اعلیٰ عہدیدار‘ عارف حمیدسے استعفیٰ زبردستی کیوں مانگا جا رہا ہے؟ سڑکوں کی کہانی یہ ہے کہ انہوں نے قطر کے ساتھ گیس کے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اگر یہ معاہدہ قومی مفاد میں ہوتا‘ تو وہ انکار کا حوصلہ ہی نہ کرتے۔ کیونکہ جو معاہدہ ملک و قوم کے مفاد میں ہو‘ اس پر دستخط کرنا ان کے فرائض منصبی کا حصہ ہے۔ ایسے حالات میں کوئی پاگل ہی اپنا فرض ادا کرنے سے انکار کر سکتا ہے۔ ان کے انکار کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے ۔ دال میں قطر۔ حکومت سچی ہوتی‘ تو ان کی برطرفی کے آرڈر میں صاف صاف وجوہ لکھتی کہ انہیں کس غلطی کی سزا دی جا رہی ہے؟ ایسی بات ہوتی‘ تو حکومت ایک منٹ کی دیر لگائے بغیر ‘انہیں برطرف کر سکتی تھی۔ مگر وہ ایسا کرنے سے گریزاں ہے۔ اخباروں میں خبریں آ رہی ہیں کہ ان پر استعفے کے لئے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ وہ ''شرافت‘‘ سے استعفیٰ دے کر چلتے بنیں ورنہ ان کے خلاف انکوائریاں کھول دی جائیں گی۔ ظاہر ہے ایسی انکوائری سچی ہوتی‘ تو افسر مذکور خود ہی ڈر جاتے‘ جیسے کہ ڈرتے رہتے ہیں۔ کئی سرپھرے طارق ملک بھی ہوتے ہیں ان سے بھی زبردستی استعفیٰ لینے کی کوشش کی گئی لیکن وہ اپنی ضد پر اڑے رہے کہ انہیں برطرفی کی وجوہ بتائی جائیں تاکہ وہ اپنا موقف پیش کر سکیں۔ ان کا موقف سچ پر مبنی تھا۔ جھوٹے الزام لگا کر برطرف کیا جاتا‘ تو وہ سپریم کورٹ میں جا سکتے تھے۔ ایسے وقت میں گوالمنڈی کا طریقہ کام آتا ہے۔ ان کے بچوں کو ڈرایا گیا‘بیگم کو ٹیلیفون کر کے تکالیف پہنچانے کی دھمکیاں دی گئیں۔ پروفیسر فتح محمد ملک کا بیٹا‘ ان طور طریقوں کا مقابلہ کیسے کرتا؟ وہ نام کا نہیں‘ فطرت میں شریف تھا‘ استعفیٰ دے کر چلتا بنا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب عارف حمید کیا کرتے ہیں؟ گوالمنڈی کے طریقے‘ سڑک چھاپ لفنگے استعمال کریں تو بھی کارگر رہتے ہیں۔ شریف آدمی اپنی عزت بچانے میں عافیت سمجھتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب گوالمنڈی کا فن کیسے استعمال میں آتا ہے؟ سچی بات ہے‘ جب حکومت گوالمنڈی کے طور طریقے استعمال کرنا شروع کر دے‘ تو ملازمت پیشہ آدمی خاموشی سے اپنی عزت بچا کے‘ گھر جانے میں عافیت سمجھتا ہے۔ عارف حمید اگر ڈٹ کر کھڑے ہو گئے‘ تو انہیں بے پناہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ گوالمنڈی کے فنی حربوں کا مقابلہ کرنا‘ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہوتا۔ مجھے یقین ہے کہ عارف حمید بھی‘ اپنی عزت بچا کر نوکری قربان کر جائیں گے۔ زندہ قوموں میں ایسی قربانی کی قدر افزائی کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں تو پارلیمنٹ موجود ہے ایسی ناانصافی پر اس کے اندر آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔ لیکن پارلیمنٹ میں اس طرح کے سچے اور دیانتدار لوگ بیٹھے ہوتے تو طارق ملک سے کی گئی ناانصافیاں کیسے برداشت کرتے؟ وہ آگے بڑھ کر حکومت کا ہاتھ روک سکتے تھے اور سچی بات ہے‘ پارلیمنٹ جرات کا مظاہرہ کرتی‘ تو شیر کو بھی دم دبا کے پیچھے ہٹ جانا پڑتا۔ لیکن جب ساری کی ساری پارلیمنٹ‘ شیر کے سامنے بھیگی بلی بن جائے‘ تو پھر سچائی کا علم بلند کرنے والوں کو اپنی آبرو بچا کر پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہونے جا رہا ہے۔ ہم میڈیا والوں میں شاید کوئی آواز اٹھا دے لیکن ہماری سنتا کون ہے؟ کسانوں کے لئے حکومت نے جس پیکیج کا اعلان کیا ہے‘ اس میں تاجروں‘ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے لئے بے پناہ فوائد موجود ہیں لیکن کسان کے لئے کچھ نہیں۔ کسان اتحاد کے مطابق‘ باسمتی چاول کی قیمت منڈی میں 900روپے من ہے جبکہ اس پر پیداواری لاگت 1700 روپے من ہے۔ اسی طرح کپاس کے ریٹ منڈی میں 2000روپے فی من ہیں جبکہ پیداواری لاگت 2980 روپے ہے۔ اب آپ سرکاری پیکیج کا اندازہ کر لیں‘ اس میں حکومت نے بڑی چالاکی سے‘ کسان کے بوجھ میں کمی نہیں کی بلکہ اس میں اضافہ کر دیا ہے۔ اسے کہتے ہیں ''سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد۔‘‘ مارکیٹ کے بندھنوں میں جکڑا ہوا کسان‘ اس پیکیج کے نتیجے میں مزید قرضوںمیں دب جائے گا۔ حکومت نے اصل مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کسان کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے پیداواری لاگت پوری کر کے‘ اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے تھوڑا بہت نفع بھی ہونا چاہیے۔ لیکن کوئی تاجر حکومت یہ کیسے برداشت کر سکتی ہے ؟کہ اس کے غلاموں کا معیار زندگی بہتر ہو اور وہ اپنی مہنگی پیداوار ‘ سستے داموں تاجروں کے ہاتھ فروخت کریں‘ایسا نہیں ہوا کرتا۔ سرمایہ داروں کا کاروبار ہی محنت کشوں کا استحصال ہے۔ وہ مزدور کی محنت سے پیدا ہونے والی مصنوعات کا 95فیصد منافع خود ہضم کرتا ہے اور اسے 5 فیصد پر جینے کے لئے مجبور رکھتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ مزدور کی کمائی پوری کی پوری اسے منتقل کی جائے۔ ساحر کی نظم کا شعر ہے ؎
ملیں اسی لئے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں؟
ہمارے ہاں سینکڑوں من کپاس پیدا کرنے والا کسان‘ اپنے لئے سال میں ایک ہی نئی قمیض خرید سکتا ہے اور بعض تو صرف بنیان پر گزارا کرتے ہیں۔ البتہ سردی کے موسم میں اسے مجبوراً موسم کے مطابق سستے ترین کپڑے کا لباس پہننا پڑتا ہے۔ یہاں حکومتیں ‘ کسانوں کے نام پر ان گنت پیکیج لاتی ہیں مگر کسان کی حالت نہیں بدلتی۔ بچے‘ اس کی اپنی بھینس کا دودھ نہیں پی سکتے۔ کیونکہ دودھ بیچ کر مشکل سے بھینس کا چارا پورا ہوتا ہے اور تھوڑی بہت بچت ہو جاتی ہے۔ معلومات حاصل کر کے‘ میں اس پیکیج سے کسان کو پہنچنے والے فوائد کی تفصیل لکھنے کی کوشش کروں گا۔مجھے ایک دوست نے حیرت انگیز بات بتائی کہ صنعت کاروں میں‘ بھی صرف وہی ملیں نفع کما رہی ہیں‘ جن کے مالکان ارباب اقتدار میں سے ہیں۔ جن کا ارباب اقتدار سے کوئی تعلق نہیں‘ ان کی ملیں بھی بوجھ بنی ہوئی ہیں اور وہ انہیں بیچ کر بھاگنے کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ پھر لوگ شیر کو ہٹا کر کیوں نہیں چاہیں گے کہ وہ خود اقتدار میں آئیں؟آصف زرداری کا دور حکومت زیادہ پرانا نہیں۔ اس وقت ایک ایکڑ زمین 30 ہزار روپے سالانہ ٹھیکے پر ملتی تھی۔ آج کی شیرصفت حکومت کے دور میں‘ اسی زمین کا ٹھیکہ 20ہزار سے زیادہ کا نہیں جاتا۔یہ ہے کسان کی اصل حالت۔ٹھیکے پر زمین لینے والا ‘سال میں 30 ہزار سے زیادہ کماتا تھا۔ آج وہ 20ہزار خرچ کر کے بھی‘ دوتین ہزار روپے فی ایکڑ بچا سکتا ہے۔آپ خود اندازہ کر لیں کہ کسان کے نام پر جو اربوں روپے مختص کئے گئے ہیں‘ یہ اصل میں کس کے پاس جائیں گے؟ پیپلزپارٹی کا گزشتہ دور جتنا بھی برا ہو‘ کم از کم صنعتکاروں اور تاجروںکی حکومت سے بہتر تھا۔ کسانوں کی تنظیم نے‘ گزشتہ ماہ اگست میں‘ کئی دن تک پنجاب اسمبلی کے باہر دھرنا دے کرشکایت کی تھی کہ زرعی اجناس کی قیمتیں اتنی کم ہو گئی ہیں کہ ان کی لاگت بھی پوری نہیں ہو رہی۔ حکومت نے مطالبات کی منظوری کا یقین دلاتے ہوئے‘ مذاکرات کئے اور انہیں ایسی گولی دی کہ وہ اپنا احتجاج ختم کر کے گھروں کو چلے گئے اور جواب میں انہیں نام نہاد کسان پیکیج دے دیا گیا۔ یہ پیکیج ایسی چادر ہے‘ جس سے کسان سر ڈھانپیں تو پیرننگے ہوتے ہیں‘ پیر ڈھانپیں تو سر ننگا۔ زراعت کے پیشے سے وابستہ لوگوں میںاس پیکیج کے بعد کسان مزید کتنی غریبی کا شکار ہوتے ہیں؟ اس کا مظلوم کسانوں کو لگ پتہ جائے گا۔ میری سمجھ میں تو صرف یہی آیا کہ یہ پیکیج بلدیاتی انتخابات کی خاطر بنایا گیا‘ جس میں کسان کو 5ہزار روپے نقد دینے کا دلاسہ دیا گیا ہے۔ حقیقت میں اس حکومت نے کسانوں کو جتنے فوائد پہنچانے کے وعدے کئے‘ ان میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہوا۔ماضی میں بھی ایسے وعدوں پر چیک ملے تھے‘ جن میں سے بہت سے کیش نہیں ہوئے اور اب بھی جنہیں چیک نہیں ملیں گے‘ وہ اخباروں میں اشتہارات دیکھ کر رانجھا راضی کر لیں گے۔ یہ عوام کی محبوب حکومت ہے اور اس کے وعدے بھی محبوب کی طرح ہوتے ہیں۔
وعدہ ترا وعدہ!
وعدوں پہ ترے مارا گیا
بندہ یہ سیدھا سادہ