تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     17-09-2015

مہلت

کامیابی ایک گمراہ کن چیز ہے او رنون لیگ کی سیاسی کامیابیوں نے اسے بے راہرو کر دیا ہے ، کب تک ؟ مگر کب تک ؟ مہلت مقرر ہے اور آخر کار تمام ہو کر رہتی ہے ۔ 
دو برس تک کاشتکار روتے پیٹتے رہے مگر وزیرِ اعظم نے ان کی فریاد نہ سنی۔ گنّے کی قیمت گر گئی بلکہ گرا دی گئی ۔ خیر وہ تو شوگر مافیا کے رحم و کرم پر ہیں ، یعنی بدقسمتی سے تمام بڑی پارٹیوں کے عہدیداروں پر مشتمل ملک کا سب سے طاقتور گروہ۔ پاکستانی کرنسی کے مطابق دنیا بھر میں چینی تیس پینتیس روپے کلو کے حساب سے دستیاب ہے‘ یہاں اس کی قیمت دو گنا ہے ۔ چاول کے کاشتکار کی کہانی اس سے بھی زیادہ دردناک ہے ۔ سالِ گزشتہ دام اس قدر گرے کہ نصف رہ گئے ۔ حکومتیں اسی لیے ہوتی ہیں کہ ایسے میں مجبور لوگوں کی مدد کریں ۔ یہ آدم سمتھ یا عہدِ جدید کے ماہرینِ معیشت کا الہام نہیں کہ مارکیٹ کو طاقتوروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ دیا جائے۔ آدمی نے بہت پہلے یہ دریافت کر لیا تھا۔ سیدنا فاروقِ اعظم سے کسی نے کہاکہ اس نے تجارتی پیمانے پر گھوڑے پالنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ فرمایا: تم مدینے کا چارا استعمال نہیں کر سکتے وگرنہ ایک آدھ گھوڑ ا رکھنے والا کیا کرے گا ۔ 
جلال الدین خلجی وہ پہلا حکمران تھا ، جس نے محسوس کیا کہ گندم کاشت کرنے والا چھوٹا کاشتکار لٹ جاتاہے ۔ مورخ نے لکھا ہے کہ اس کے قریبی مشیروں میں سے ایک ،دلّی کے کوتوال نے ، آدابِ شاہی سے جو مستثنیٰ تھا ، اس حال میں بادشاہ کو دیکھاکہ سر جھکائے وہ بیٹھا ہے او ر آس پاس کی کوئی خبر نہیں ۔ دیر تک وہ اس عالم میں رہا تو مشیر کو فکر لاحق ہوئی ۔ جہاں پناہ کو متوجہ کیا تو انہوں نے کہا: وہ کوئی ایسا نظام تشکیل دینے کے خواہش مند ہیں کہ کسان کے استحصال کا خاتمہ ہو۔ رواج یہ تھا کہ گائوں گائوں گھومنے والے بنجارے اشیائِ صرف یا سکّوں کے عوض گیہوں خرید لیا کرتے او روقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ قیمت پر فروخت کرتے ۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ سرکاری سٹور تعمیر کیے جائیں اور ملک بھر سے جنس خرید لی جائے ۔دیہی آبادی خوش حال ہو گئی ۔ بعد کے زمانوں میں جب بھی حالات بہتر ہوتے تو یہ کہا جاتا : گویا خلجی کادور واپس آگیا ۔ 
کسی نہ کسی شکل میں یہ نظام باقی رہا۔ زرداری حکومت نے کاشتکاروں کی اس طرح مدد کی کہ گندم کی قیمتیں بڑھا دیں ۔ کھاد ، بیج اور بجلی کے دام بڑھ گئے تھے ۔ شریف خاندان کی حکومت کسانوں کے لیے بدترین ثابت ہوئی ۔ اس کے باوجو دکہ گندم کی قیمت برقرار رہی ، اکثر انہیں دو سو روپے کم پر فروخت کرنا پڑی ۔ سرکار نے خریداری برائے نام ہی کی ۔ میرا اپنا سالِ گزشتہ کا تجربہ یہ ہے کہ ایک ہزار من گندم دو ماہ تک کھلیان میں پڑی رہی ۔ ایک آدھ نہیں ، کئی دروازے کھٹکھٹائے مگر باردانہ میسر نہ آسکا۔ دو بار ہلکی بارش بھی برس گئی اور موسمِ برسات سر پہ آپہنچا؛چنانچہ کم قیمت پربیچنا پڑی۔
پاکستان دنیا کا بہترین چاول پیدا کرتاہے ۔ عالمی منڈی میں اس کی قبولیت بھی بہت ہے مگر بھارت سمیت جن ملکوں سے مقابلہ درپیش ہے ، ان کی حکومتیں منصوبہ بندی کر تی ہیں ۔پاکستان کی طرح اپنے کسان کو حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ دیتیں ۔ بازار میں اچھا چاول اب بھی 120روپے کلوسے کم پر دستیاب نہیں مگرسالِ گزشتہ مونجی پانچ سو روپے من بکی ۔ 
میٹرو ہی نہیں ، حکومت کے پاس ہر چیز کے لیے وسائل ہیں۔ فصلوں کی خریداری کے لیے بالکل نہیں ۔ سالِ رواں کے آغاز میں آلو کی فصل منڈی میں آئی تو نرخ دو اڑھائی سو روپے من کے قریب تھے ۔باربرداری کے اخراجات منہا کر لیے جائیں تو زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو روپے فی من۔ زراعت کے بارے میں بنیادی سی معلومات رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ ایک ایکڑ آلو کاشت کرنے پر پچاس ہزار روپے صرف ہوتے ہیں ۔ حکومت چاہتی تو تباہی سے کسان کو بچا لیتی مگروہ لمبی تان کر سوئی رہی۔ دھان کے کاشتکاروں نے احتجاج کیا تو میاں شہباز شریف نے ، جن کے پاس ہر مسئلے کا حل ہمیشہ موجود ہتاہے ، اعلان کر دیا کہ چاول کے ہر کاشتکار کو پانچ ہزار روپے فی ایکڑ دیے جائیں گے ۔ یاللعجب، کسی کو ایک دھیلا تک نہ ملا ۔ چیخ چیخ کر کسان خاموش ہو گئے۔ میڈیاکوان سے دلچسپی ہی نہیں ۔وزیرِ اعظم نے وہی اعلان دہرایا ہے ۔ اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ عمل درآمد بھی ہو گا۔ ممکن ہے کہ کپاس اور چاول کے کچھ کاشتکاروں کی اشک شوئی کر دی جائے۔ اخبارات میں تصاویر چھاپ دی جائیں اور ٹی وی پر چہرے دکھا دیے جائیں مگر سب کے سب؟ شہروں میں بسنے والوں کو اندازہ ہی نہیں کہ دیہات کے مکینوں سے سرکاری کارندے کیا سلو ک کرتے ہیں ۔ سات سال سے میاں شہباز شریف اعلان کر رہے ہیں کہ زمین کا ریکارڈ کمپیوٹرائز کیا جائے گا۔ زیاد ہ سے زیادہ یہ ایک برس کا کام ہے ۔ کیوں یہ مکمل نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ کاشت کار دبائوڈالنے کے قابل نہیں ۔ پھر یہ کہ زمین کا ریکارڈ کمپیوٹر میں ڈال کر اگر پٹواری ہی کو اس پر نگران رکھنا ہے تو فائدہ کیا؟ کیا عام آدمی کو ریکارڈ تک رسائی دی جائے گی ؟ اگر نہیں تو کمپیوٹرائزیشن کا کچھ فائدہ نہیں ۔ کاشتکار باہم وہ بٹے ہوئے ہیں اور مال دار طبقات اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ 
امدادی رقم اسے ملے گی ، جو پٹواری کے درِ دولت پر حاضری دے گا۔ حصہ رسدی وہ تحصیل دار کے حوالے کرے گاتوروپیہ کسان تک پہنچے گا۔ کیا یہ میاں شہباز شریف اور میاں محمد نواز شریف سے پوشیدہ ہے ؟ اب وہ خود بھی بڑے زمیندار ہیں۔ خاندان گوشت کے اس کاروبار سے بھی وابستہ ہے ، جس کے لیے مراعات کا اعلان کیا گیا ہے ۔ ایک افواہ کے مطابق اسی کاروبار کے لیے پانچ ہزار ایکڑ زمین قائدِ اعظم سولر پارک کے نواح میں کوڑیوں کے مول خریدی گئی ۔ 
کسان کا مسئلہ سستی بجلی ، سستی کھاد او رموزوں بیج ہے ۔اچھا بیج اسے کیوں کر نصیب ہو کہ زرعی تحقیقاتی اداروں کے لیے وزیرِاعظم تو کیا، وزیرِ اعلیٰ کے پاس بھی فرصت کا کوئی لمحہ نہیں ۔ کیا ان میں سے کبھی کسی کو زرعی یونیورسٹی فیصل آباد یا راولپنڈی کی بارانی یونیورسٹی میں دیکھا گیا ؟ اسلام آباد کی زرعی تحقیقاتی کونسل ایک شاندار ادارہ ہے ۔ اس کی طرف نگاہ اٹھی بھی تو ا س لیے کہ شہر کے نواح میں اس زرعی زمین کو واپس لے کر ایک عدد ہائوسنگ سوسائٹی بنا دی جائے ۔ اندازہ یہ تھا کہ ایک سو ارب روپے کی آمدن ہو گی ۔ میڈیا نے واویلا نہ کیا ہوتا تو زرداروں کے گھروں میں اب تک شادیانے بج رہے ہوتے۔ 
یہ دنیا کی زرخیز ترین مٹی ہے ۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے ، جس کی موجودہ مالیت پانچ سو بلین ڈالر سے کم نہیں ۔ پھر یہ افلاس، بے چارگی اور ویرانی کیوں ہے ؟ اس لیے کہ حکمران بے مہار ہیں ؎ 
جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی 
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے 
جیسا کہ اکثر نے کہا : بلدیاتی الیکشن درپیش نہ ہوتے تو وزیر اعظم کے خیرہ کن پیکیج کا اعلان بھی نہ ہوتا۔ اگرچہ اس کا فائدہ بھی زیادہ تر مال داروں کو ہوگا۔ 
کامیابی ایک گمراہ کن چیز ہے او رنون لیگ کی سیاسی کامیابیوں نے اسے بے راہرو کر دیا ہے ، کب تک ؟ مگر کب تک ؟ مہلت مقرر ہے اور آخر کار تمام ہو کر رہتی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved