جب فرانسیسی سیاست دان، جارجز کلمن سیو(Georges Clemenceau) نے، جنھوں نے پہلی جنگِ عظیم میں اپنے ملک کی قیادت کی، کہا۔۔۔''جنگ اتنا سنجیدہ معاملہ ہے کہ اسے فوجی جنرلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا‘‘، تو وہ اپنے کمانڈروں کی توہین نہیں کررہے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جنگ کوئی آسان معاملہ ، کوئی بچوں کا کھیل تماشا نہیں ہوتا۔ اسے اُن افراد کی صوابدید پر نہیں چھوڑ دینا چاہیے جو اس کے لیے تربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے اس کا فطری میلان رکھتے ہیں۔ عشروں بعد، جان ایف کینیڈی نے بھی ایک ایسا ہی اصول اپناتے ہوئے کیوبا کے ساتھ شروع ہونے والے میزائل بحران میں اپنے جنرلوںسے مشاورت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
اگرجنگیں ہمیں کچھ سکھاتی ہیں تو وہ یہی ہے کہ ان سے ہر قیمت پر بچنا چاہیے، ان کی طرف رغبت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ لوگ جو جنگ اور تشدد کی تپش کو جانتے ہیں، وہ اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے انسانی المیے کو اُن لوگوںسے بہتر سمجھتے ہیں جن کے لیے جنگ ایک ہیجان خیز ویڈیو گیم سے زیادہ کچھ نہیں۔ چنانچہ یہ بات قابل ِ تعریف ہے کہ روس‘ یوکرین‘ جرمنی اور امریکہ کے نوجوان موسیقار اس سال اگست میں برلن میں اکٹھے ہوئے اور 16ویں ''ینگ یورو کلاسک پیس آرکسٹرا‘‘ میں حصہ لیا اور موسیقی کی زبان میں اپنی حکومتوں کے علاوہ یورپ کی اقوام کو پُرامن بقائے باہمی اور عالمی فہم کا پیغام دیا۔ چوالیس ممالک سے تعلق رکھنے والے پندرہ سو موسیقاروں نے اپنے اپنے ملکوں اور سیاسی دھڑوں کی طرف سے کھڑی کی جانے والی ثقافتی تعصب کی دیواروں کو نرمی سے چیلنج کیا۔ یورپ کے حوالے سے یہ بات بہت اہم تھی کیونکہ مغرب روس کے بارے میں مخاصمت آمیز رویہ رکھتا ہے۔
تشدد اور جنگ کو یورپ سے زیادہ کون سمجھتا ہوگا کیونکہ اس نے برس ہابرس تک سیاسی، مذہبی اور ایک دوسرے پر غلبہ پانے کے لیے ہولناک جنگوں کی تمازت برداشت کی۔ اس کے علاوہ ، ہرقسم کی سرداور گرم جنگوں میں یورپی اقوام نے لاکھوں جانوں کا نقصان برداشت کیا۔ برلن میں شرکا کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ حال ہی میں پاکستان اور بھارت، دونوں نے امن کی بجائے جنگ کا جشن منایا ہے۔ جنگو ں کواس لیے یاد نہیں رکھا جاتا کہ اس میں کیا پایا اور دشمن کے ہاتھوں کتنا نقصان برداشت کرنا پڑا ، بلکہ انہیں یاد رکھنے کی معقول وجہ یہ ہونی چاہیے کہ انہیں لڑنے والے لیڈروں کی انایا مسائل کا معقول طریقے سے حل تلاش کرنے میں ناکامی کی وجہ سے کتنی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں ۔ مجھے یاد ہے کہ حال ہی میں پاکستان کے ایک بہادرفوجی کی، جس نے 1971ء کی جنگ میں اپنی جان قربان کی، بہن سے بات کرنے کا اتفاق ہوا۔ وہ چاہتی تھی کہ اُس کا بھائی آج زندہ ہوتا۔ اُسے اپنے بھائی کی شہادت پر بہت ملال نہ تھا لیکن یہ دیکھ کر اُسے بہت دکھ ہوتا تھا کہ دوسرے لوگ اُس کی قربانی کو بنیاد بنا کر جنگ کو مارکیٹ کررہے ہیں۔ اس بہن کو یہ پریشانی ہوتی تھی کہ سرحد کے دونوں طرف وطن پرستی کا جنون بڑھ رہا ہے اورجنگی جذبات کو ہوادی جارہی ہے۔
ایسی داد ِ شجاعت ایک طربیہ ڈرامہ ثابت ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت، دونوں نے 1965ء کی جنگ کس طرح لڑی۔ سب سے پہلے، یہ جنگ دوسری جنگ ِ عظیم میں حصہ لینے والی دوتجربہ کارفوجوں کا ٹکرائو تھا لیکن وہ فیصلہ کن روایتی جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیںرکھتی تھیں۔ اپنی فنی برتری کا احساس رکھتے ہوئے پاکستان نے آپریشن جبرالٹر شروع کردیا۔ اسے توقع تھی کہ وہ کشمیر میں شورش بھڑکا دے گا۔ اُس سال کے شروع میں رن کچھ کی جنگ میں ملنے والی کچھ کامیابیوں سے پاکستانی جنرل یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کو سبق سکھاسکتے ہیں۔اس کی وجہ ان کو ملنے والے امریکی ہتھیار تھے۔ نہ صرف ناقص معلومات کی بنیاد پر شروع کیا جانے والا یہ منصوبہ ناکامی سے ہمکنار ہوا بلکہ اس کی وجہ سے انٹر نیشنل سرحد پر جنگ بھی شروع ہوگئی۔ ہم میںسے اُن کو‘ جو ''1965ء کی جنگ کی فتح‘‘کا باب پڑھتے ہوئے جوان ہوئے تھے، سابق آرمی چیف، مرزاسلم بیگ سے1989/90ء میں یہ بات سن کو بہت حیرت ہوئی کہ ایسا کچھ نہ تھا۔ اُن کی طرف سے سچائی کو تسلیم کرناہمیں روس میں سوویت یونین کے بعد آنے والی سیاسی، معاشی اور سماجی تبدیلیوں کی یاد دلاتا ہے۔ دراصل جنرل ضیا کے بعد فوج کو ضرورت تھی کہ وہ عوام میں اپنا امیج تبدیل کرے، چنانچہ عوام کے سامنے کچھ سچائیوں کا اعتراف کیا جانے لگا۔
دوسری طرف بھارت کی بھی جنگ کے دوران کارکردگی غیر متاثر کن تھی۔اپنی عددی برتری اور جنگ میں پہل کرتے ہوئے پاکستان سے پیش قدمی کا موقع چھین لینے کے باوجود وہ فیصلہ کن فتح حاصل نہ کرسکا۔ سروسز کے درمیان رابطے کا فقدان‘ عرب افواج کی یاد دلاتا تھا جو 1973 کی ''یوم کپور‘‘ جنگ کے دوران ابتدائی مرحلے میں اسرائیل کی ناقابلِ شگاف سمجھے جانے والی دفاعی لائن کو توڑنے میں کامیاب ہوگئیں لیکن پھر اس کا فائدہ نہ اٹھاپائیں۔ تاہم وہ نسبتاً''اچھی جنگیں‘‘تھیں کیونکہ اُن میں ہلاکتوں کی تعداد محدود ہوتی تھی۔ درحقیقت دونوں حریف ممالک اب تک لڑی جانیو الی تین جنگوں میں پانچ ہزار کے قریب افراد کی ہلاکت برداشت کرچکے ہیں۔ اسے دورِ حاضر میں دوطرفہ تباہی قرار نہیں دیا جاسکتا جہاں ناقابل ِ تصور ہلاکتیں ہوتی ہیں(میر اخیال ہے کہ ہیروشیما اور ناگاساکی میں ہونے والی تباہی کی تصاویر عام پاکستانیوں اور بھارتیوں کو دکھانی چاہئیں۔) اپنے اپنے ملک سے محبت کے باوجود عام افراد کو پتہ تو چلے کہ ایٹمی جنگ میں کیا ہوتا ہے۔ جب لوگوں کو ایٹمی جنگوں کی سنگینی کااحساس ہوکہ وہ اُن کا اور ان کی نسلوں کا مستقبل تباہ کرسکتی ہیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ یہ باتیں کرنا چھوڑدیں کہ اگر پانی سر سے گزرجائے تو ایٹمی ہتھیارا ستعمال کیے جاسکتے ہیں۔ کوئی شخص بھی ، جس کا عزیز فوت ہوچکا ہو، موت کی بات دل خوش کن طریقے سے نہیںکرتا۔
تاہم نوجوان افسران کو، جو جنگ لڑرہے ہیں، اس عہد کا، کہ وہ 1965ء میں ''ادھورے چھوڑے گئے کام‘‘ کو اب تکمیل تک پہنچا دیںگے، اعادہ کرتے سن کر احساس ہوتا ہے کہ پیشہ ور فوج کو اپنے جوانوں کو بیرکس تک محدود رکھنا چاہیے۔ اُنہیں سوشل میڈیا پر آنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ قیادت ملک کا دفاع کرنے کے لیے تیارہولیکن اُسے اپنے جوانوں کو ایسے جذبات پھیلانے سے روکنا چاہیے جو غلط تصورات کو فروغ دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ بہادر افراد کو یہ بات بھی سکھائی جائے کہ دلیری کا مطلب زندگی سے اکتاجانا نہیں ہوتا۔
اس وقت دنیا کی زیادہ تر افواج نے وہ روایتی جنگیں نہیں لڑی ہیں جن کے لیے اُنہیں بنیادی طور پر تیار کیا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ کہ وہ اس کی ہلاکت خیز ی کو نہیں جانتیں۔ ہتھیاروں کی تباہی پھیلانے کی صلاحیت میں ہونے والے بے پناہ اضافے کا مطلب یہ کہ اب جنگیں انتہائی خوفناک ہوںگی۔ اس لیے عقل مندی کا تقاضا ہے کہ جنگ کو پہلے کی بجائے سب سے آخری آپشن کے طور پر رکھنا چاہیے۔ جس طریقے سے جنگ کوسوچا اور زیر ِ بحث لایا جاتا ہے، اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ دلیر افراد موت کو اس لیے گلے لگارہے ہیں تاکہ مستقبل کی نسل زندہ رہے۔مکمل تباہی کی بات کرنا زندگی کی نفی کرنا ہے۔ جوہری ہتھیاروں کی طاقت کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ فوجی جنگ اور موت کی باتیں کرتے ہوئے اپنے لہجے کو دھیما رکھیں۔ مجھے ایک مرتبہ پھر دہرانے دیجیے، پیشہ ورتربیت کا تقاضا ہے کہ جذبات کو کنٹرول میں رکھا جائے، انہیں قیادت کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔