تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     17-09-2015

1977ء شروع ہو گیا!

پنجاب میں 1977ء کے انتخابات ہو رہے ہیں یا2015 ء کے؟۔ اگر کیلنڈر اور چہروں کی طرف دیکھیں اور نئی نئی قسم کی سڑکیں، پل اور شہر دیکھیں تو یہی لگتا ہے کہ 1977ء کو گزرے چالیس سال ہو چکے ہیں لیکن اتنا وقت گزرنے کے باوجود بھی حکمرانوں کی عادات میں ذرہ بھر تبدیلی نہیں آئی۔ جو کچھ چالیس سال قبل کیا جا رہا تھا وہی کچھ آج ہو رہا ہے مگر ایک خفیف سے فرق کے ساتھ۔ اس وقت تھوڑا بہت عدلیہ کا خوف تھا لیکن آج وہ بھی نہیں رہا۔ تب فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) تھی ‘ آج ریپڈ فورس اور سی آئی اے ہے‘ کل تک کچھ اور لوگ تھے مگر آج کوئی اور ہیں۔ آج کے لوگ بھی 77ء والے لوگوں کی طرح ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اکتوبر میں ہونے والے انتخابی عمل کو سیاہ کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ کاغذات نامزدگی داخل کرنے کی تاریخ ختم ہوتے ہی مبارک سلامت کا شور اٹھنا شروع ہو گیا۔ پتہ چلا کہ تحریک انصاف اور آزاد امیدوار اپنے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لینے کیلئے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو ئے جارہے ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ میں نے پہلے اپنے کاغذات واپس لینے ہیں تو دوسرا کہتا ہے کہ میں نے۔
امیدوار چودھری نواز نے سمن آباد کی ایک یونین کونسل کیلئے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لینے کا جیسے ہی اعلان کیا‘ پہلی خبر یہ آئی کہ لیگی قیادت کے بااعتماد ساتھی خواجہ احمد حسان لاہور کے ایک حلقہ سے بلا مقابلہ چیئرمین منتخب ہو گئے ہیں اور ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے امیدوار نواز نے کمال حسان نوازی اور رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُن کا مقابلہ مناسب نہیں سمجھا۔ ابھی اس کامیابی کا جشنِ ''فتح‘‘ جاری تھا کہ ایک اور ''خوش کن‘‘ خبر آئی کہ دیپالپور سے بلدیاتی انتخابات میں چیئرمین کیلئے مسلم لیگ نواز کے امیدوار اعجاز سکھیرا (ایک اعلیٰ پولیس افسر کے بھائی) بھی بلا مقابلہ کامیاب قرار دے دیئے گئے ہیں۔ ان کے مقابلے میں جو سات کے قریب امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے مرتکب ہو چکے تھے‘ انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لینے میں ہی عافیت سمجھی۔ ان ''غیر معمولی‘‘ کامیابیوں کی روشنی میں عوامی حلقوں میں تبصرے ہو رہے ہیں کہ لاہور کے ایک صوبائی حلقے کے لیگی امیدوار کا اپنی بعض رشتہ داریوں کے پس منظر میں جتنا یقین ہے۔ واللہ اعلم باالصواب! 
جب ٹی وی کی سکرین پر اعجاز سکھیرا کی بلا مقابلہ کامیابی کی خبر بار بار چمکنے لگی تو مجھے عوامی تبصروں سے فوراً ہی اتفاق کرنا پڑا۔ یعنی '' توں کاہدا پٹواری تے منڈا میرا رووے امب نوں‘‘۔ زمانہ گزرا کسی ملک کا بادشاہ اپنے لشکر کو جنگی مشقیں کرانے کیلئے شہر سے دور کسی جگہ لے گیا۔ اس کی فوجیں اور چھوٹے بڑے سردار کھلے میدانوں میں دور دور خیمہ زن ہو گئے۔ بادشاہ کا خیمہ کچھ فاصلے پر ایک ایسے باغ میں نصب کر دیا گیا جس میں انواع و اقسام کے پھل تھے۔ کچھ دیربعد ساتھ آئے درباریوں نے بادشاہ کے لئے باغ کے مالک سے پھل لانے کو کہا‘ جو بادشاہ کو سلام کرنے کیلئے حاضر ہوا تھا لیکن بادشاہ نے اپنے محافظوں کو سختی سے منع کرتے ہوئے کہا یاد رکھنا اگر میں نے باغ سے ایک پھل بھی توڑا تو میرے ساتھ آیا لشکر پورا باغ ہی اجا ڑ کر رکھ دے گا۔ 
بعض اہم لوگوں کے بھائیوں اور بیٹوں کی کامیابی کی خبریں سنتے ہوئے میرے سامنے1977ء کے انتخابی معرکے کے مناظر گھومنے لگے۔ وزیر اعظم ہائوس کے اندر گھسے ''طاقتور دشمنوں‘‘ کی جانب سے ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ کو حکم جار ی ہوا کہ قائد عوام کو بلا مقابلہ کامیاب کرانا ہے۔ اگلے دن لاڑکانہ سے جواب آیا کہ اُن کے مقابلے میں کھڑا امیدوار روپے پیسے کی کسی حد پر بھی نہیں مان رہا‘ بتائیں‘ اب کیا کیا جائے۔ زبردست جھاڑ کے ساتھ جواب آیا کہ اب یہ بھی ہم نے بتانا ہے کہ کیا کرنا ہے تمہیں سندھ اور پنجاب کی نوکری کا کوئی سبق یاد نہیں رہا۔ ابھی ایس پی کو بلائو اور اس آدمی کو جس کانام جان محمدعباسی بتایا جا رہا ہے‘ اس وقت تک کسی ایسی جگہ چھپا دو کہ کاغذات نامزدگی داخل کرانے کی آخری
تاریخ گزر جائے۔ پھر حاکمانِ لاڑکانہ نے آئو دیکھا نہ تائو‘ جماعت اسلامی سندھ کے امیر مولانا جان محمد عباسی مرحوم کو‘ نہ جانے کہاں سے آئے جنوں اور بھوتوں نے اٹھایا کہ کئی دن تک ان کا سراغ ہی نہ ملا۔ وہ اس وقت کسی غار سے نکل کر سامنے آئے جب کاغذات نامزدگی داخل کرانے کی آخری تاریخ کو گزرے دو دن ہو چکے تھے۔ ایسے ہی ''کارنامے‘‘ بھٹو کے زوال کا سبب بن گئے۔ جب لشکر نے بادشاہ سلامت کو بلا مقابلہ کامیاب ہوتے دیکھا تو سب سے پہلے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے خود کو عین اسی طریقے سے منتخب کرایا۔ پھر ان کی اندھی تقلید کرتے ہوئے وزیروں اور مشیروں کی فوج نے بھی اس سے ملتے جلتے حربے استعمال کرتے ہوئے پورے انتخابی عمل کو اس قدر مشکوک بنا دیا کہ اس طرح منتخب ہونے والے نمائندوں کو اس سے گھن آنا شروع ہو گئی۔ لیکن ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ اپنی نشستوں پر چمٹ کر نہیں بلکہ دبک کر بیٹھے رہیں؛ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر کسی نے اس نشست سے اٹھ بھاگنے کی ذرا سی بھی کوشش کی تو اس کا حال وہی ہو گا جس کا آج خواجہ احمد حسان اور جاویدسکھیرا کے مقابل کاغذات نامزدگی داخل کرانے والوں کو ڈر تھا!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved