تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     18-09-2015

غیر منطقی ٹیکسیشن

فنانس ایکٹ2015ء، جو ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والے افراد پر بینک کے ذریعے رقوم کی منتقلی پر ودہولڈنگ ٹیکس، جس کی شرح کو ایک صدارتی آرڈیننس کے تحت 0.6 فیصد سے کم کرکے 0.3 فیصد کردیا گیا، عائد کرتا ہے، کا تنازع ایک اور عجیب رخ اختیار کر گیا ہے۔ گیارہ ستمبر2015ء کو بزنس ریکارڈر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت کا دعویٰ ہے کہ ودہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ کا مقصد گوشوارے جمع کرانے کی ترغیب دینا ہے اور یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ ایف بی آر کے سرکاری ترجمان نے اس رپورٹ کو چیلنج کرتے ہوئے کہا۔۔۔ ''بینک کے ذریعے رقوم کی منتقلی پرگوشوارے جمع نہ کرانے والے افراد پر ودہولڈنگ ٹیکس کا نفاذ معیشت کو ڈاکومنٹ کرنے کی طرف ایک قدم تصور کیا جائے، اسے محصولات جمع کرنے کا عارضی طریقہ سمجھنا درست نہیں۔‘‘دوسری طرف رپورٹ دعویٰ کرتی ہے۔۔۔''یہ محصولات جمع کرنے کا ایک طریقہ ہے، اس کے ذریعے ٹیکس نیٹ میں توسیع ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ ‘‘ایف بی آر کے ایک سینئر افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا۔۔۔ ''یہ ضابطہ دراصل حکومت کی مالی ضروریات پوری کرنے اور آئی ایم ایف کی ہدایت کے مطابق خسارے کے ہدف کو کم کرنے کے لیے ہے۔‘‘ایف بی آر کا اصراررہا ہے کہ اس ضابطے کے تحت محصولات میں 35 بلین روپے سے زیادہ کا اضافہ نہیں ہوگا جبکہ رپورٹ کا دعویٰ ہے کہ یہ ضابطہ محصولات کے حجم میں 35 بلین روپے سے کہیں زیادہ کا اضافہ کرے گا۔ 
ہم ان کالموں میں اس بات کا ذکرکرتے رہے ہیں کہ محصولات میں اضافے کے لیے اٹھائے جانے والے ایسے ہنگامی اقدامات کا منفی رد ِعمل ہوتا ہے۔ ان کے ذریعے ایک طرف تو یہ تاثر گہرا ہوتا ہے کہ حکومت دولت منداور خوشحال افراد (جو انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے اور اب یہ خود پر لگنے والے ودہولڈنگ ٹیکس کا بوجھ عام شہری پر منتقل کردیںگے )کو بچانا چاہتی ہے ، تو دوسری طرف یہ روزمرّہ استعمال کی اشیا پر سیلز ٹیکس میں اضافہ کرتی جارہی ہے۔ پٹرولیم کی مصنوعات پر بھاری بھرکم ٹیکس انتہائی افسوس ناک معاملہ ہے کیونکہ اس میں اضافہ پارلیمنٹ کو نظر انداز کرکے Statutory Regulatory Orders کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ انکم ٹیکس چرانے کی اہم وجہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کا سیکشن 111(4) ہے۔ اس کی موجودگی میں ٹیکس انتظامیہ لازمی ٹیکس کی وصولی سے بے بس ہوجاتی ہے، لیکن ارکان ِ پارلیمنٹ اس کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس ضابطے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹیکس چور کسی منی ایکس چینج کمپنی کے پاس جاتے ہیں اور تھوڑی سی فیس ادا کرکے اپنے اکائونٹ میں غیر ملکی زرِ مبادلہ ''منگوا‘‘ لیتے ہیں۔ایف بی آر اس رقم کے بارے میں کوئی سوال نہیں کرسکتا۔ یہاں ہم ایف بی آر کو مورد ِ الزام نہیں ٹھہراسکتے کہ یہ ٹیکس گوشوارے جمع کرنے میں ناکام کیوں ہے۔ ایسے کالے قوانین کی موجودگی میں ٹیکس آفس کچھ نہیں کرسکتا۔ ان کے پاس اس صورت ِحال کا واحد علاج سیکشن 236P کا نفاذ ہے ۔ سیاسی حکمران ٹیکس چوروں اور قومی دولت لوٹنے والوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور پھر محصولات میں کمی کا الزام ایف بی آر کے سرڈال دیا جاتا ہے، جبکہ ایف بی آر ٹیکس ادا نہ کرنے کا الزام عام شہری پر ڈال کر ایک طرف ہوجاتا ہے۔ 
ایف بی آر کے افسران کوشاید احساس نہیں کہ 236P کی طرح ودہولڈنگ ٹیکس بھی صر ف دولت مند اور طاقتور افراد ، جو انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع نہیں کراتے، کو تحفظ دیتا ہے۔ ودہولڈنگ کے ''بھاری ریٹس‘‘(جو اُن کے لیے مونگ پھلی کے برابر ہیں)ادا کرنے کے بعد وہ کبھی بھی اپنی اصل آمدن ظاہر نہیں کریںگے۔ کیا ودہولڈنگ ٹیکس اُن کی آمدن پر ہے؟ ہر گز نہیں، لیکن اُنہیں جواز مل جائے گا کہ وہ یہ معمولی ٹیکس ادا کرتے ہوئے اپنی بھاری بھرکم آمدنی چھپالیں۔ وہ بہت آسانی سے اس کا بوجھ صارفین ، یعنی عام آدمی ،تک منتقل کردیں گے ۔ یہ طبقہ گوشوارے جمع کرانے والوں سے زیادہ دولت مند ہے۔ دراصل گوشوارے جمع کرنے والے زیادہ ترتنخواہ دار افراد ہیں، لیکن تاجر برادری اس کی زحمت نہیں کرتی۔ 
پاکستان میںہر حکومت کے سامنے اصل مسائل وسائل کا بے رحمانہ ضیاع، سخت ٹیکسز، بجٹ کا خسارا پورا کرنے کے لیے بلاروک ٹوک قرضہ لینا اور اس سے اشرافیہ کو سہولیات فراہم کرنا ہیں۔ ہر سال بھاری بھرکم سرکاری مشینری پر اربوں روپے ضائع ہوجاتے ہیں۔ اس پر مستزاد، اُنہیں ٹیکس کی چھوٹ اور دیگر سہولیات بھی حاصل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کی انتہائی ناقص کارکردگی خزانے پر بھاری بوجھ ثابت ہوتی ہے۔حکومتوں کی غلط ترجیحات کی وجہ سے بے کار، لیکن چکاچوند رکھنے والے، منصوبوں کے لیے تو فنڈز دستیاب ہوتے ہیں لیکن انفراسٹرکچر کی بہتری، سوشل سیکٹر اور انسانی ذرائع کو ترقی دینے کے لیے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی جاتی۔ اس ضمن میں سب سے بڑی رکاوٹ کاروباری افراد، ریٹائرڈ فوجی، سول اور جوڈیشل افسران کا سیاست میں آنا ہے۔ پاکستان کی ایک بھی سیاسی جماعت اشرافیہ پر مبنی سیاسی ڈھانچے کو توڑتے ہوئے عام آدمی کو اپنی اگلی صفوں میں جگہ دینے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی آئین میں ایسی اصلاحات کی جاتی ہیںجو اس اشرافیہ کے مفاد پر ضرب لگا کر عام آدمی کو فائدہ پہنچائے۔ 
اس ملک کے غریب عوام بالواسطہ طور پر لگائے گئے سخت ٹیکسز کی وجہ سے نہایت مشکل زندگی بسر کررہے ہیں۔ معاشی ماہرین اس حقیقت کا ادراک کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں کہ افراد کی بچتوں پر غیر منطقی ٹیکسز سے حکومت کے محصولات میں کچھ اضافہ نہ ہوگا۔ اصول یہ ہے کہ جب ایک مرتبہ آمدنی پر ٹیکس وصول کرلیا جائے تو پھر بچت اور رقوم کی منتقلی پر کوئی ٹیکس نہ ہو۔ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں بھی پاکستان کی طرح بینک سے رقم نکلوانے پر ٹیکس وصول کیا جارہا ہے؟سیاسی عزم کی عدم موجودگی اور111(4) جیسے قوانین کے ہوتے ہوئے ایف بی آر حقیقی ریونیوجمع کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایف بی آر کے افسران عام شہریوںپرالزام لگاتے ہیں کہ وہ ٹیکس اد ا نہیں کرتے ہیںحالانکہ شہری خود ''مالیاتی دہشت گردی‘‘ کا شکار ہیں۔ دوسری طرف ایف بی آر انتہائی دولت مند افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا ہے جو ہو شربا آمدنی کے باوجود ٹیکس کے گوشوارے جمع نہیں کراتے ہیں۔ اس طبقے پر ہاتھ ڈالنا زیادہ مشکل نہیں کیونکہ وہ اپنی دولت چھپانے سے قاصر ہیں۔ وہ محل نما مکانات میں رہتے، مہنگی گاڑیاں چلاتے اورغیر ملکی دورے کرتے رہتے ہیں۔ ان کی شاہانہ طرز ِز ندگی مغل شہزادوں سے کم نہیں۔ ان کے بچے انتہائی مہنگے تعلیمی اداروںمیں پڑھتے ہیں اور اکثر چھٹیاںمغربی ممالک میں گزارتے ہیں۔ ان کی خدمت کے لیے ملازمین کی فوج ظفر موج دست بستہ رہتی ہے، بس انھوں نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ ملک کو ٹیکس ادا نہیں کرنا، باقی ہر جگہ رقم خرچ کرنی ہے۔ 
یہ ہیں وہ لوگ جنہیں ودہولڈنگ ٹیکس کی ''سہولت ‘‘فراہم کرکے گوشوارے جمع کرانے سے بچایا جارہا ہے۔ ایف بی آر بھی خوش ہے کیونکہ اسے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑرہی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ طبقہ اس کے انوکھے لاڈلے ہیں، جنہیں کھیلنے کے لیے چاند دیا جارہا ہے۔ دوسری طرف کم آمدنی والے پاکستانی، جن کی آمدنی قابلِ ٹیکس نہیں، اُن پر بھاری بھرکم بالواسطہ ٹیکسز عائد ہیں۔ اسے یقینا مالیاتی دہشت گردی کا نام دیا جانا چاہیے۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بنیادی آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے ، لیکن یہاں کوئی پوچھ گچھ نہیں۔ کیا اس کے لیے بھی کوئی آپریشن درکار ہے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved