بجلی کے منصوبوں میں ہر حوالے سے
شفافیت ہونی چاہیے... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''بجلی منصوبوں میں ہر حوالے سے شفافیت ہونی چاہیے‘‘ کیونکہ پہلے جن حوالوں سے شفافیت نہیں ہوتی تھی‘ اس میں کچھ ہماری مجبوریاں بھی ہوتی تھیں لیکن اب چونکہ ہر طرف شفافیت ہی کا رونا رویا جا رہا ہے تو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے‘ اگرچہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس شفافیت کو ناپنے کے لیے جو حضرات مقرر ہیں وہ ہر وقت اپنی شفافیت ہی میں لگے رہتے ہیں‘ اس لیے وہ کسی دوسری شفافیت کی طرف کیسے دھیان دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''کسی قسم کی کرپشن برداشت نہیں کی جائے گی‘‘ اور ہمارا شروع سے یہی اعلان ہے لیکن کرپشن ہمیشہ ہمارا منہ چڑاتی رہی ہے پھر بھی ہم نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے؛ تاہم ہمارا اعلان آج بھی وہی ہے کہ ہم کرپشن کو برداشت نہیں کریں گے‘ ہیں جی؟۔ انہوں نے کہا کہ ''پاور پلانٹس کو بروقت مکمل کیا جائے‘‘ لیکن کسی پلانٹ کے مکمل ہونے پر مجھ سے اس کی رونمائی نہ کروائی جائے کیونکہ چند روز بعد اس نے بند بھی ہو جانا ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز وزیراعظم ہائوس میں ساہیوال پاور پلانٹ کے حوالے سے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے دن رات
ایک کردیں گے... شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے دن رات ایک کردیں گے‘‘ جبکہ ہمارے نزدیک دن رات میں تو پہلے ہی کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ جس انداز کی خدمت ہم کر رہے ہیں اس کا اندھیرے میں بھی وہی عالم ہوتا ہے اور اجالے میں بھی وہی‘ اور اسی خدمت کے لیے ہم اقتدار میں آتے بھی ہیں لہٰذا میٹرو بس اور اورنج لائن ریلوے سمیت جتنا بڑا منصوبہ ہوگا‘ اس میں خدمت کا تناسب اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ''عوامی خدمت ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے‘‘ اس لیے چوبیس گھنٹے اسے اوڑھے بھی رکھتے ہیں اور بچھائے بھی‘ بلکہ ساتھ ساتھ یہ خدمت بیرون ملک بھی منتقل ہوتی رہتی ہے کیونکہ آخر ایک دن ہم نے اُدھر ہی کا رُخ کرنا ہے کہ ہماری ساری آئندہ نسلیں اوڑھتی اور بچھاتی رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''وطن عزیز کو اندھیروں سے نکال کر ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنا ہمارا مشن ہے‘‘ اور یہی وہ مشن ہے‘ ضیاء الحق کی ہر برسی پر جس کی تکمیل کا بھائی جان عہد کیا کرتے تھے۔ آپ اگلے روز لاہور میں لیگی کارکنوں کے ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
جب تک جمہوریت اور پارلیمنٹ ہے
نوازشریف کو ہٹایا نہیں جا سکتا... خورشید شاہ
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''جب تک جمہوریت اور پارلیمنٹ ہے‘ نوازشریف کو نہیں ہٹایا جا سکتا‘‘ اس لیے اس نیک مقصد کے حصول کے لیے سب سے پہلے جمہوریت اور پارلیمنٹ کا کوئی بندوبست کرنا پڑے گا اور جن نادیدہ قوتوں کی طرف موصوف نے اشارہ کیا ہے کہ وہ ان کی حکومت کو چلنے نہیں دے رہیں‘ اُنہی کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کا موصوف کو دعویٰ بھی ہے اور جس کا نوٹس لیا جانا چاہیے کیونکہ ابھی تو یکطرفہ طور پر مار ہمیں ہی پڑ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف دیوار کے اُس پار دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے‘‘ کیونکہ انہیں دیوار کے اس طرف ہی سارا کچھ حاصل ہو رہا ہے‘ اس لیے انہیں دیوار کے پار دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اور لطف یہ ہے کہ جب ہم برسرِ اقتدار تھے تو ہم بھی دیوار کے اُس پار دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردی اور کرپشن کا بیکٹیریا پھیلا کر الزام سیاستدانوں پر تھوپ دیا گیا‘‘ کم از کم معصوم فرشتوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور میں نیشنل کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
بجلی منصوبے اور سردخانہ
ایک اخباری اطلاع کے مطابق بجلی منصوبوں کے لیے گزشتہ مالی سال میں ایک پائی بھی جاری نہ ہو سکی؛ جبکہ دیامیر بھاشا ڈیم کے لیے مختص 15 ارب‘ نیلم جہلم 13.5 ارب‘ داسو‘گولان گول پراجیکٹ کے لیے 11 ارب روپے نہ ملے۔ اسی طرح خیال خوار پراجیکٹ 60 کروڑ‘ تربیلا ڈیم توسیع کے لیے 5 ارب جاری نہ ہوئے جبکہ رواں مالی سال میں بھی کوئی رقم نہیں دی گئی۔ اور‘ یہ اس حکومت کا حال ہے جو ہر تیسرے دن ملک کو اندھیروں سے نکالنے کے عزمِ صمیم کا اعادہ کرتی ہے جبکہ ایک اور اطلاع کے مطابق میٹرو بس منصوبے میں تاخیر پر برہم ہو کر وزیراعلیٰ پنجاب نے دیگر سکیموں کے فنڈز پر کٹ لگانے کا حکم دیا اور صاف کہا کہ دوسری ترقیاتی سکیموں کے فنڈز بھی اس منصوبے پر لگا دیئے جائیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ اقتدار میں آنے کے کافی دیر بعد تک بھی بجلی منصوبے اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ حکومت کی ترجیح اول رہی ہے۔ تاہم‘ مختلف اوقات میں حکومت کی ترجیحِ اول مختلف رہی ہے حالانکہ عوام اگر پہلے ہی اس قدر بیوقوف ہیں تو انہیں مزید بیوقوف بنانے کی کیا ضرورت ہے۔
خواب و خیال
آج کل میڈیا کے ہر شعبے میں اس بات کی دھوم مچی ہوئی ہے کہ سندھ کی طرح کا آپریشن پنجاب میں بھی ہونا چاہیے کیونکہ یہاں پر کرپشن سندھ سے بھی زیادہ ہے اور بے دریغ لوٹ مار کی جا رہی ہے‘ جس کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ کو کہنا پڑا کہ اس مقصد کے لیے رینجرز کو دعوت دینا خلاف قانون ہے۔ عوام کی پُرزور خواہش کے باوجود رینجرز اور دیگر سکیورٹی ادارے اس سلسلے میں کرپشن کے خلاف کارروائی اس لیے نہیں کر سکتے کہ یہ ان کے دائرۂ اختیار میں نہیں ہیں کیونکہ جو کچھ طے ہوا وہ یہ تھا کہ اسی کرپشن کے خلاف کارروائی ہوگی جو کسی نہ کسی طور دہشت گردی کی فنانسنگ میں مدد گار ہوتی ہے چونکہ پنجاب میں صرف سادہ کرپشن ہوتی ہے ‘یعنی اس کا دہشت گردی کی فنانسنگ میں کوئی کردار بظاہر نظر نہیں آتا، اس لیے کراچی جیسی کارروائی یہاں نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اس ضمن میں فوج کی توجہ منعطف کرانے کی کوئی ضرورت یا جواز ہے۔ اس لیے میڈیا اور عوام کو یہ تسلی رکھنی چاہیے کہ یہاں ایسا کوئی کام نہیں ہوگا‘ اور کرپشن ختم کرنے کے جو ادارے موجود ہیں ‘ وہ ان لوگوں کے ماتحت ہیں جو خود کرپٹ ہیں‘ اس لیے راوی ان کے لیے چین ہی چین لکھتا رہے گا جبکہ رینجرز وغیرہ سے اس کی آس لگانا فضول بھی ہے اور احمقانہ بھی‘ اور اسی لیے کرپشن میں دن دگنی رات چوگنی ترقی بھی ہو رہی ہے‘ حتیٰ کہ نیشنل ایکشن پلان بجائے خود رفتہ رفتہ مدھم اور ختم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اہلِ سیاست اس کے خلاف متحد ہو چکے ہیں اور کسی بھی قسم کے سیاسی بحران کی دھمکی دے سکتے ہیں اور اسمبلیاں چھوڑنے جیسی دھمکیاں دے بھی چکے ہیں۔ اس لیے ان اداروں کو اس آپریشن سے ازخود ہی دست کش ہو کر اپنی عزت بچا لینی چاہیے ع
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
آج کا مقطع
اک عمر کے بگڑے ہیں‘ ظفرؔ پھر بھی ہے امید
اب موت ہے نزدیک‘ سدھر جائیں گے دخرا
دخرا (بلوچی) بمعنی تب تک