تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     19-09-2015

آڈٹ کرنے والوں کی حدود

اچھی خبر یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے تمام سرکاری محکموں اور اداروںکو ہدایت کی ہے کہ و ہ اپنے معاملات آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے سامنے رکھیں۔ بری خبر یہ ہے کہ یہ آئینی ادارہ اس کام کے لیے موزوں نہیں ہے۔ میں تیس برس تک اس ادارے میں مختلف عہدوں پر کام کرنے کے بعد یہ رائے دینے کی پوزیشن میں ہوں۔ اس عرصے کے دوران آڈیٹر جنرل کا عہدہ تو ہر قسم کے الزامات سے پاک تھا لیکن یہ بات اُس کے ماتحت کام کرنے والوں کے لیے نہیں کہی جاسکتی؛ تاہم زرداری حکومت کے دوران بلند اختر رانا کی تعیناتی کے بعد اس عہدے کے بے داغ ہونے کا دعویٰ دھندلا گیا۔بلند اختر رانا کا تعلق ملتان سے تھا اوراُنہیں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا دوست بتایا جاتا تھا۔ اس سال کے شروع میں موجودہ حکومت نے اُنہیں مبینہ طور پر کی جانے والی بدمعاملگیوں کی پاداش میں عہدے سے ہٹادیا۔ ان کے سابق ساتھیوں نے الزام لگایا کہ اُنہوں نے محکمے کی بہت سے پُرکشش آسامیوں کو فروخت کردیا، لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں اس پر یقین نہ کرسکا کیونکہ میں نے اس عہدے پر بہت ایماندار افراد کو کام کرتے دیکھا ہے۔ اگرچہ یہ محکمہ جدید پیشہ ور خطوط پر نہ چلایا جاسکا‘ لیکن آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے عہدے پر فرائض سرانجام دینے والے افراد مجموعی طور پر بے داغ کردار کے مالک رہے ہیں۔
دراصل مختلف آسامیوں پر بھرتی کا طریق ِکار انتہائی فرسودہ ہے۔ وفاقی آسامیوں پر‘ جن میں دفترِخارجہ سے لے کر پولیس کا محکمہ تک شامل ہے، نوجوان افسران کو تعیناتی کے لیے صرف ایک امتحان پاس کرنا پڑتا ہے۔ روایتی طور پر سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے و الے پولیس اور دفتر خارجہ کے علاوہ ڈی ایم جی (ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ) میں جاتے تھے؛ تاہم آج کل امیدواروں کا رجحان کسٹم اورانکم ٹیکس آفس کی طرف زیادہ ہے اور اس کی وجوہ صاف ظاہر ہیں۔ اس طرح آڈٹ کا محکمہ امیدواروں کی ترجیح میں چھٹے نمبر پر ہے۔ اس میں عام طور پر وہ افراد آتے ہیں جن کے نمبر اتنے نہیں ہوتے (یا علاقائی کوٹہ بھی ایک وجہ ہوسکتا ہے) کہ وہ کسی اور من پسند سروس میں جائیں۔ ایک امتحان پاس کرکے آڈٹ کے محکمے میں آنے والے افراد غالباً اس کام کے لیے تربیت یافتہ نہیںہوتے۔ ہو سکتا ہے کہ اُن میں سے بہت سوں کو اکائونٹنگ کی شُدبُد بھی نہ ہو۔ ٹریننگ کے پہلے سال اُنہیں یہ مضمون پڑھایا جاتا ہے۔ جب اُن کی تعیناتی کنفرم ہوجاتی ہے تو اُنہیں زیادہ سخت ٹریننگ دی جاتی ہے۔ یہاں اُنہیں کسی 
قسم کی سپیشلائزیشن بھی کرنا ہوتی ہے؛تاہم اکائونٹنگ ، جو کہ مشکل مضمون سمجھاجاتا ہے (اور میرے لیے یہ اکتا دینے والا تھا) میں مہارت کے لیے ایک سال کی ٹریننگ ناکافی ہوتی ہے؛ چنانچہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ زیادہ تر نوجوان افسران اس شعبے کی پیچیدگیوںکا بہت کم تصور رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے ادھر آنے والے مایوسی کا بھی شکار رہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے پسندیدہ شعبے میں نہیں جاسکے تھے۔ اس لیے یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ چند ایک کو چھوڑکر، اس شعبے میں آنے والے زیادہ تر مرد وخواتین بہت جوش و جذبے سے کام کرتے دکھائی نہیں دیںگے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کا سٹاف اُن کے لیے زیادہ تر کام کردے گا۔ یہاں قارئین کی دلچسپی کے لیے بتاتا چلوں کی آڈٹ ڈیپارٹمنٹ میں طویل عرصہ تک ملازمت کرنے کے باوجود میں ایک پان شاپ کی بھی بیلنس شیٹ نہیں بنا سکتا۔ 
اس شعبے میں سب سے اوپر پبلک اکائونٹس کمیٹی کا نمبر آتا ہے۔ یہ کمیٹی پارلیمنٹ کا طاقتور واچ ڈاگ ہے۔ اس میں حکومت اور اپویشن، دونوں طرف کے ارکان ہوتے ہیں۔ اس کے چیئرمین کا تعلق عام طور پر اپوزیشن سے ہوتا ہے۔ اس کی میٹنگز میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹس کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ جس محکمے کا جائزہ لیا جارہا ہو، اس کے وزرا کی نمائندگی کرنے کے لیے اُن کے سیکرٹری اس کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ اگر کوئی سنگین بے ضابطگی دکھائی دے تو پبلک اکائونٹس کمیٹی کے ارکان سوال پوچھتے ہیں۔ جب زیادہ تنقید ہو تو پیش ہونے والا سیکرٹری کہہ اٹھتا ہے کہ جب یہ بے ضابطگی عمل میں آئی تو اُس وقت وہ اس عہدے پر موجود نہیں تھا۔ اس معاملے کی تحقیقات کرنے کے لیے ایک اور کمیٹی تشکیل دے دی جاتی ہے، اور یوں یہ معاملہ آگے بڑھ جاتا ہے۔ 
زیادہ تر کیسز میں وہ معاملہ کمیٹیوں کی بھول بھلیوں میں کہیں کھو جاتا ہے۔ موجودہ چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی، سید خورشید شاہ سے گزشتہ دس برسوںکے دوران بنائی جانے والی کمیٹیوں کی فہرست اور اُن کی پیش کردہ رپورٹس کے بارے میں پوچھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ سابق حکمرانوں کے سرکاری افسران نے‘ جو ان کمیٹیوں میں بیٹھے تھے، یقیناً معاملہ کہیں گول مول کرکے غائب کردیا ہوتا ہے۔ اس کا سراغ لگانا لمبی گھاس میں سے سبز گیند تلاش کرنے کے مترادف ہوگا۔ زیادہ تر کیسز میں آڈٹ کی کوالٹی بہت افسوس ناک ہوتی ہے ۔ سرکاری آڈیٹروں کی پیش کردہ رپورٹ بہت ہی سطحی ہوتی ہے۔ جب میرے سامنے ایسی رپورٹس پیش کی جاتیں تو مجھ جیسے اناڑی کو بھی اس کے کھوکھلے پن کا احساس ہو جاتا۔ 
نوآبادیاتی دور میں اس طرح کے آڈٹ کو قبول کیا جاتا تھا کیونکہ اُس وقت حکومت خود کو ترقیاتی اور کمرشل منصوبوں سے دور رکھتی تھی؛ تاہم اب نندی پور جیسے متنازع پلانٹ کا آڈٹ کرنے کے لیے فنی علم بھی درکار ہے۔ ممکن ہے کہ پلانٹ کی فعالیت کے بارے میں آڈیٹر جنرل کچھ نہ جانتے ہوں۔ حکومت کے طے شدہ قوانین کے تحت وہ اپنے لیے کنسلٹنٹ نہیں رکھ سکتے۔
آخری بات، بدعنوانی کے کیسز میں کوئی دستاویزی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا؛ چنانچہ ان معاملات کا آڈٹ لاحاصل سعی ہوتا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ اہم افراد سے پوچھا جائے کہ اُن کے اثاثے کس طرح بڑھ گئے جبکہ بظاہر اُن کی اتنی آمدنی نہیں تھی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved