تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     19-09-2015

سچائی چھپ نہیں سکتی…

وقت کے ساتھ کیا کیا چیزیں یاد آتی ہیں۔ بچپن میں ہم کئی عامیانہ اور بسوں ویگنوں کے پیچھے لکھے گئے شعر پڑھا کرتے تھے۔ مثلاً ؎
شیشی بھری گلاب کی پتھر پہ توڑ دوں
تیری یاد آ جائے تو پڑھنا بھی چھوڑ دوں
یا پھر ؎
سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی، کبھی کاغذ کے پھولوں سے
سکول میں بیت بازی ہوتی تو کلاس چہارم یا پنجم میں میونسپلٹی کے پرائمری سکولوں میں اسی قسم کے شعر پڑھے۔ زیادہ بہتری ہوتی تو تھوڑا وزن کا خیال رکھ لیا جاتا وگرنہ معاملہ ایسا ہی تھا۔ گزشتہ چار پانچ روز سے متذکرہ بالا ایک شعر بڑی شدت سے یاد آ رہا ہے ؎ 
سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
سچائی بالآخر سچائی ہوتی ہے اور وہ جلد یا بدیر سامنے آ جاتی ہے۔ لیکن اس عاجز کو بالکل امید نہیں تھی کہ سچائی اس طرح سامنے آئے گی کہ خادم اعلیٰ خود اپنی زبان سے اس کی گواہی دیں گے۔ اللہ بڑا کارساز ہے۔ وہ سچائی کی لاج بھی رکھتا ہے اور سچ کو سامنے بھی لاتا ہے۔
اس عاجز نے بہاولپور میں لگنے والے سولر پاور پلانٹ پر ایک کالم لکھا۔ اس کالم کے محرک دراصل لاہور کے مال روڈ پر لگے ہوئے وہ سینکڑوں پینافلیکس تھے جن پر بڑے فخر اور یقین کے ساتھ لکھا ہوا تھا کہ ''اب روشن ہو گا پاکستان‘‘ ، ''بہاولپور میں 100 میگاواٹ کے قائد اعظم سولر پارک کا افتتاح‘‘۔ مجھے پہلے تو حیرت اس بات پر ہوئی کہ ملک عزیز میں مختلف وجوہ کی بنا پر بجلی کی پیداوار میں کمی بیشی آتی رہتی ہے۔ کبھی ہائیڈل کی پیداوار دریائوں میں پانی آ جانے سے بڑھ جاتی ہے اور کبھی صورت حال الٹ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح تھرمل بجلی کی صورتحال ہے؛ تاہم اگر ملک میں 
بجلی کے شارٹ فال کا اوسط نکالا جائے تو وہ چار ہزار میگا واٹ کے لگ بھگ بنتا ہے۔ اور جھوٹ کا یہ عالم ہے کہ چار ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی کے مارے ہوئے ملک کے عوام کو جعلی خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ محض سو میگا واٹ کی پیداوار سے ''اب روشن ہوگا پاکستان‘‘ یعنی کل درکار بجلی کے اڑھائی فیصد سے سارا پاکستان روشن ہو جائے گا۔ جھوٹ سلیقے کا ہونا چاہئے‘ مگر حکمرانوںکا خیال ہے کہ جب جھوٹ بولنا ہی ٹھہرا تو پھر اس کی انتہا کر دینی چاہیے۔
اس معاملے کا دوسرا رخ نہایت ہی تاریک تھا اور وہ یہ کہ یہ منصوبہ‘ جس کی مشہوری پر بلامبالغہ کروڑوں روپے خرچ کر دیے گئے تھے‘ سو میگا واٹ کا بھی نہیں تھا۔ یعنی دو جھوٹ۔ ایک تو یہ کہ چار ہزار میگا واٹ بجلی کے شارٹ فال کے شکار ملک کے عوام کو لالی پاپ دیا جا رہا ہے کہ ایک سو میگا واٹ کی پیداوار سے یہ ملک روشن ہو جائے گا اور دوسرا صریح جھوٹ یہ کہ یہ منصوبہ سو میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔ اس عاجز نے اس منصوبے کے افتتاح کے چند روز بعد ایک کالم لکھا اور اس میں پاکستان کے عوام کو یہ بتانے کی سعی کی کہ یہ منصوبہ سو میگا واٹ کا نہیں بلکہ محض اٹھارہ میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا حامل ہے۔
بہاولپور میں لگنے والے سو میگا واٹ بجلی کے سولر پاورمنصوبے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ صبح سورج نکلنے پر اس کی پیداوار شروع ہوتی ہے اور اس کا آغاز ایک دو میگا واٹ سے ہوتا ہے اور جوں جوں سورج بلند ہوتا جاتا ہے اور اس کی تپش اور روشنی بڑھتی جاتی ہے‘ بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ دوپہر دو بجے کے قریب اس کی پیداوار اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے اور پھر دوبارہ کم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور سورج ڈوبنے پر صفر ہو جاتی ہے۔ یعنی اس کا کل پیداواری دورانیہ تقریباً بارہ گھنٹے ہے اور اس دوران اس کی پیداوار ایک دو میگا واٹ سے لے کر اسی بیاسی میگاواٹ تک پہنچتی ہے اور پھر محض ایک دو گھنٹے کے بعد ہی دوبارہ کم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور شام کو دوبارہ صفر ہو جاتی ہے۔ اس طرح اگر اس پلانٹ کی پیدواری صلاحیت کو 24/7 یعنی سات دن اور ہردن میں چوبیس گھنٹے کی بنیاد پر اوسط نکالی جائے تو اس پیداوار کی یومیہ اوسط اٹھارہ میگا واٹ نکلتی ہے۔ میں شاید پہلا کالم نگارتھا جس نے یہ ساری تفصیل لکھی۔
جونہی میرا کالم چھپا‘ اس پر لے دے شروع ہوگئی۔ ایک سرکار دوست کالم نویس کا‘ جو میرے لئے بڑے محترم ہیں‘ فون آیا کہ کیا آپ کی ساری Calculation درست ہے؟ میں نے عرض کیا: برادرم! اگر میںغلط ہوں تو سرکار کو کہیے کہ سچ لکھ دے اور میرے حساب کتاب کو غلط ثابت کردے۔ پھر دوبارہ میرے عزیز کا فون نہیں آیا؛ تاہم اس دوران حکومتی حلقے شور مچاتے رہے کہ اٹھارہ میگا واٹ والا معاملہ جھوٹ پر مبنی ہے اور حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ خدا بھلا کرے اس شخص کا جس نے اس پروجیکٹ کے بارے میں کہہ دیا کہ اس سو میگا واٹ والے پروجیکٹ کی حقیقی پیداوار دس بارہ میگاواٹ ہے۔ اس پر خادم اعلیٰ کو غصہ آ گیا اور جب آدمی غصے میں ہو تو یا وہ بالکل ہی غلط بیانی کرتا ہے یا سچ بولنے پر آ جاتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ خادم اعلیٰ پر دوسری کیفیت طاری ہوئی اور انہوں نے دس بارہ میگاواٹ کہنے والوں کے لتے لینے شروع کر دیئے اور ''انکشاف‘‘ کیا کہ اس پلانٹ کی پیداواری صلاحیت کو دس میگاواٹ کہنے والے جھوٹ بولتے ہیں‘ اس پلانٹ کی پیداواری صلاحیت اٹھارہ میگا واٹ ہے۔
میں نے اپنے اس کالم میں لکھا کہ اس پلانٹ پر 133ملین ڈالر لاگت آئی ہے۔ میں نے تب بھی یہی لکھا تھا کہ 133ملین ڈالر سے اٹھارہ میگاواٹ بجلی کی پیداوار کا مطلب ہے 7.30ملین ڈالر فی میگاواٹ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس میں ساڑھے چھ ہزار ایکڑ زمین کی قیمت اور سڑکوں کی تعمیر کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔ اگر یہ رقم شامل کرلی جائے تو پلانٹ کی لاگت 150ملین ڈالر سے زیادہ ہوجاتی ہے اور فی میگا واٹ یہ رقم 8.25ملین ڈالر بن جاتی ہے۔ خادم اعلیٰ کو اصل دلچسپی شاید اس بات سے تھی کہ وہ خود سے منسوب بجلی کا کوئی منصوبہ عوام کے سامنے لائیں تاکہ لوگ یہ کہیں کہ منصوبہ میاں شہباز شریف نے بنوایا تھا‘ وگرنہ اتنی رقم میں اور بہت کچھ ہوسکتا تھا۔
ملتان شہر کے عین درمیان واقع میسکو پاور سٹیشن بے کار کھڑا ہے۔ یہ اٹھارہ میگا واٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت کا پلانٹ ہے اور محض اس لیے کئی عشروں سے بے کار پڑا ہے کہ یہ قدرتی گیس سے چلتا ہے اور اس کیلئے درکار صرف پانچ ایم ایم سی ایف ڈی گیس میسر نہیں‘ اور دوسرے یہ کہ اس کا کولنگ ٹاور بنایا جانا مقصود ہے۔ اس کولنگ ٹاور پر صرف آٹھ کروڑ روپے لاگت آتی ہے یعنی ایک ملین ڈالر سے بھی کم لاگت۔ آپ اندازہ کریں کہ کہاں 133ملین ڈالر اور کہاں ایک ملین ڈالر۔ رہ گیا گیس کا معاملہ تو جوایل این جی کا جہاز پرائیویٹ سیکٹر میں بیچا گیا تھا‘ اس سے اس پلانٹ کو چلا کر محض ساڑھے آٹھ روپے فی یونٹ بجلی حاصل کی جاسکتی تھی‘ مگر حکمرانوں کو اس ساڑھے آٹھ روپے فی یونٹ والی بجلی سے کہیں زیادہ عزیز نندی پور کی اٹھائیس روپے فی یونٹ والی بجلی تھی ۔ سو اس بجلی کے حصول میں اربوں روپے ڈوبنے کے بعد پلانٹ بند کرنا پڑ گیا۔ نندی پور اور ایل این جی والے جہاز کا قصہ پھر کبھی سہی۔ سوال یہ ہے کہ آخر خادم اعلیٰ کو ملتان میں موجود میسکو پاور اسٹیشن‘ جو اٹھارہ میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کا حامل ہے‘ کیوں نظر نہیں آتا؟ آخر اسے دوبارہ چالو کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس کی واحد وجہ شاید یہ ہے کہ میاں شہباز شریف کو ایسی چیز چاہیے جس پر وہ اپنے نام کا ٹھپہ لگوا سکیں۔
ملتان میںموجود میسکو پاور سٹیشن پاکستان بننے سے قبل کا ہے اور کسی زمانے میں‘ جب نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی موجود نہیں تھی اور تربیلا سے گدو تک پانچ سو میگا واٹ والی ٹرانسمیشن لائن نہیں تھی‘علاقائی بجلی گھر اپنے علاقے کی ضرورت پوری کرتے تھے۔ سارا ملتان اسی پلانٹ سے روشن ہوتا تھا۔ پھر آبادی میں اضافہ ہوا تو ملتان کے نواح میں پیراں غائب میں ایک تھرمل یونٹ لگایا گیا جو تب 265میگاواٹ کی پیداواری استعداد کا حامل تھا۔ اب دونوں یونٹ بند پڑے ہیں۔میسکوپاور سٹیشن محض چھ ماہ میں دس کروڑ روپے سے دوبارہ فعال ہوسکتا ہے مگر''کراڑ‘‘ کا بنایا ہواستر اسی سال پرانا یونٹ دوبارہ فعال ہو بھی گیا تو اس پر میاں شہباز شریف کے نام کا ٹھپہ نہیں لگے گا بلکہ یہی کہا جائے گا کہ میسکو کا پرانا بجلی گھر دوبارہ چالو ہوگیا ہے۔ میاں صاحب کو یہ سودا کسی صورت منظور نہیں‘ بھلے قوم کے اربوں روپے برباد ہو جائیں۔ بہاولپور کا سولر پروجیکٹ اور ساہیوال میں لگنے والے کوئلے کے بجلی گھر اس کی روشن مثال ہیں۔
وزیرآباد میں برسوں سے تیار چودھری پرویز الٰہی کا تعمیر کردہ دل کا ہسپتال اور علاقے کے مکین جو دل کے مریض ہیں‘ میاں صاحب کو جھولیاں اٹھا اٹھا کر''دعائیں‘‘ دے رہے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved