تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     19-09-2015

شہدائے پشاورکی پکار

16دسمبر2014ء کے بعد، ایک بار پھر پشاور سے شہیدوں کے لہو نے ہمیں پکارا ہے۔ پاک فوج فضائی ہو، بحری ہو یا بری، اس وقت ہدف ہے۔ دفاعِ پاکستان کے اس معرکے میں لازم ہے کہ پوری قوم یک سو ہوکر افواج کی پشت پر کھڑی ہو جائے۔
بد قسمتی یہ ہے کہ سیاسی قیادت کی ذہنی سطح توقع سے زیادہ پست ہے۔ وہ ایسی سطحی بحثوں میں الجھی ہو ئی ہے کہ آ دمی اس فکری و اخلاقی دیوالیہ پن پرسر پکڑ کر بیٹھ جا تا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ 1965ء میں، اگر سیاسی قیادت اسی سطح کی ہوتی تو کیا آج فخر کے ساتھ، ہم ان دنوں کو یاد کرتے؟ اگر اُس وقت لوگ ایوب خان سے سیاسی ادھار چکا نے بیٹھ جاتے توکیا آج ہم یومِ دفاع منا رہے ہوتے؟ دفاع کا جو معرکہ آج در پیش ہے، یہ ماضی کے مقابلے میں کہیں سنگین ہے۔ اس میں دشمن کا ٹھکانہ واضح ہے نہ اس کاہدف۔ دشمن، اس بار افراد کا ایک گروہ ہی نہیں، ایک بیانیہ بھی ہے۔ اس بیانیے کو ماننے والے گلیوں اور محلوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ہمیںاس کا مقابلہ صرف ہتھیاروں سے نہیں، فکری محاذ پربھی کرنا ہے۔ کیا کوئی محبِ وطن اس وقت بھی سیاسی حساب بے باق کرنے کے بارے میں سوچ سکتا ہے؟ 
دہشت گردی اور کرپشن، اس وقت دوبڑے مسائل ہیں۔ ان سے نجات کے لیے ہمیں ترجیحات کا تعین کرنا ہے۔کرپشن ایک الجھا ہوا سیاسی مسئلہ بھی ہے۔کرپشن اور سیاسی عصبیت، دونوں کو جدا کرنا مشکل ہے۔ اس لیے یہ فوج کا کام نہیں۔ آئین یہی کہتا ہے اور عقلِ عام کا تقاضا بھی یہی ہے۔ فوج کرپشن یا بیماری کے خاتمے کے لیے وجود میں نہیں آتی۔ حالتِ امن میں وہ سماجی بہبود کی بہت سی خدمات سر انجام دیتی ہے لیکن جب جنگ برپا ہو، تب اس سے بڑی حماقت کوئی نہیں ہو سکتی کہ فوج کو کسی دوسرے معاملے میں الجھادیا جا ئے۔ کراچی میں جب رینجرز کے ذریعے کرپشن کے خاتمے کی بات ہوئی تو میں نے اُس وقت بھی یہی لکھا تھا کہ یہ اس ادارے کا سوئے استعمال ہوگا۔ اس پر پیپلزپارٹی کا احتجاج کچھ ایسا بے بنیاد بھی نہیں تھا۔ پشاور کے حادثے نے ہمیں ایک بار پھر اس جانب متو جہ کیا ہے۔
اس سانحے نے ہمیں ایک بار پھر یاد دہانی کرا ئی ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑامسئلہ دہشت گردی ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب تجزیہ نگار ملاوٹ شدہ اشیا کی فروخت کو دہشت گردی قرار دیتے ہیں۔ یہ سطحی جذباتیت کے سوا کچھ نہیں۔ دہشت گردی کی ایک متعین صورت اس وقت پاکستان کی سالمیت اور امن کے درپے ہے۔ یہ ریاست کے خلاف مسلح بغاوت ہے۔ ہم سب اس سے واقف ہیں۔ ہمیں یہ بھی اندازہ ہے کہ اس سے پہنچنے والا نقصان کس سطح کا ہے۔ اس وقت یہی دہشت گردی ہمارا ہدف ہونا چاہیے۔ جو کوئی دہشت گردی کے دائرے کو پھیلاتے ہوئے، اس حوالے سے ابہام پیدا کر تا ہے، وہ اپنی کج فہمی سے ملک اور عوام کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اسی طرح جو مالی کرپشن کو دہشت گردی کہتا ہے‘ وہ بھی اسی جرم کی سنگینی کوکم کرتا ہے۔ 
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے، اس وقت دو باتیں ناگزیر ہیں۔ ایک یہ کہ فوج کو دیگر کسی کام میں الجھائے بغیر، اسے موقع دیا جائے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف یک سو ہو جائے۔ قوم اس معاملے میں سیسہ پلائی دیوار بن کر اس کے پیچھے کھڑی ہو جائے۔ مکمل ذہنی اور عملی ہم آہنگی اس جنگ کو جیتنے کے لیے لازم ہے۔ دوسری یہ کہ ملک کو کسی سیاسی عدم استحکام میں مبتلا نہ کیا جائے۔ اہلِ سیاست تہیہ کر لیں کہ وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جو ملک کو سیاسی اضطراب میں مبتلا کرے۔ میں عمران خان سے بھی اپیل کروں گا کہ وہ 4 اکتوبر کے جلسے کو منسوخ کریں اورحکومت کے خلاف اپنی جد وجہد کو آئین اور قانون کے دائرے میں رکھیں۔ جلسہ غیر آئینی نہیں ہو تا لیکن ہنگامی حالات میں جب حکومت اس پر پابندی لگاتی ہے تو وہ غیر قانونی ضرور ہو جاتا ہے۔ ایسے وقت حکومت یا ریاست کو للکارنا ملک کے مفاد میں نہیں۔
ملک کا نظام چلا نے کے لیے ادارے کام کر رہے ہیں۔ پارلیمان، عدالت اور میڈیا موجود ہیں، جہاں اپنی بات کہی جا سکتی ہے اور جہاں سے شکایات کا ازالہ بھی ممکن ہے۔ میری پارلیمنٹ سے یہ بھی درخواست ہوگی کہ وہ اس موقع پر ہنگامی فیصلے کرے۔ جیسے یہ قانون بنا دیا جا ئے کہ جب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے، ملک میں کوئی مظاہرہ ہوگا نہ ہڑتال اور نہ دھرنا۔ 1965ء کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ لاہور دشمن کے حملوں کی زد میں تھا لیکن کاروبارِ زندگی ان دنوں میں بھی مفلوج نہیں ہوا۔ گوالے دودھ فراہم کر تے رہے اور کہیں سبزی، پھل یا کھانے پینے کی اشیا میں کمی نہیں آ ئی۔ آج بھی اسی جذبے کی ضرورت ہے۔ اگر کسی کو کوئی شکایت ہے تو وہ سڑکوں پر نکلنے کے بجائے عدالت کارخ کرے۔ اس وقت حب الوطنی کا تقاضا یہی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ، معلوم ہوتا ہے کہ بہت جلد ختم ہو نے والی نہیں۔ اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ آپریشن ضربِ عضب اپنے آخری مر حلے میں داخل ہو چکا، لیکن ان واقعات سے لگتا ہے کہ یہ مرحلہ طویل ہو سکتا ہے۔ داعش اور دوسری تنظیمیں بھی یہاں اپنی جگہ بنا چکی ہیں۔ اب اندازہ ہو رہا ہے کہ کراچی کا آپریشن، صرف دہشت گردی کے حوالے سے کتنا ضروری تھا۔ القاعدہ جنوبی ایشیا کے مالی معاون یہاں چھپے بیٹھے تھے۔ ہمیں یہ بھی اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ عناصر ہمارے ریاستی اداروں میں بھی داخل ہو چکے ہیں۔ یہ کوئی معمولی صورتِ حال نہیں۔ اسے ہم قومی جنگ سمجھ کر لڑیں گے تو فتح ہوگی۔
آج دہشت گردی ایک عالمی چیلنج ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ، چین اور روس، داخلی اختلافات کے باوجود، اس کے خلاف یکسو ہیں۔ اس بارے میں ان کا نقطہ نظر ایک ہے اور حکمتِ عملی بھی۔ وہ جانتے ہیں کہ مسابقت کے دوسرے میدان مو جود ہیں 
جہاں زور آز مائی کرنا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کو آگے بڑھ کر بھارت کے ساتھ بھی اسی ایک نکتے پر بات کرنی چاہیے۔ ہم کشمیر اور دوسرے معاملے کو ایجنڈے پر رکھتے ہوئے بھی، صرف دہشت گردی پر با ت کر سکتے ہیں۔ دونوں ممالک مانتے ہیں کہ کشمیر ایک متنازعہ معاملہ ہے۔ اس میں بھی شبہ نہیں کہ یہ تقسیمِ ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ اس وقت لیکن اس سے سنگین تر اور فوری توجہ کا حامل معاملہ دہشت گردی ہے۔ ہمیں بھارت سے صرف اس ایک نکتے پر دوٹوک بات کرنی چاہیے۔ دونوں اپنے اپنے ریاستی مفادات کا دفاع کرتے رہیں، لیکن باہمی طور پر یہ طے کر دیا جائے کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف دہشت گردی کے کسی واقعے میں ملوث نہیں ہوںگے۔ مسابقت کے دوسرے میدان مو جود ہیں جہاں زور آ زمائی میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن دونوں دہشت گردی کے خلاف ایک دوسرے سے تعاون کریںگے۔ اس کے لیے اگر ہمیں پہل کرنا پڑے تو کوئی حرج نہیں۔ جب یہاں دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد مو جود ہیں تو مزید ضروری ہوگیا کہ اس کے خاتمے کے لیے بھارت سے دو ٹوک بات کی جائے۔
افواجِ پاکستان کے جوانوں کی جانیں بہت قیمتی ہیں۔ اسی طرح اس ملک کے عام شہری کے جان و مال کی قیمت بھی کم نہیں۔ ان جانوںکی حفاظت اور امن ہماری پہلی ترجیح ہو نی چاہیے۔ پشاور کا حادثہ ایک تذکیر ہے کہ آج دہشت گردی کے خلاف یک سوئی ہماری بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ میرے نزدیک ان لوگوں کی بصیرت اور دیانت دونوں مشکوک ہیں جو اس موقع پر قوم کو کسی دوسرے مسئلے میں الجھائیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved