تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     19-09-2015

سرخیاں‘ متن اور ٹوٹے

ناراض بلوچوں کو منانے کی کوششیں 
جاری رکھی جائیں گی... نوازشریف 
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''ناراض بلوچوں کو منانے کی کوششیں جاری رکھی جائیں گی‘‘ یعنی جس طرح لوڈشیڈنگ سمیت جملہ مسائل کو حل کرنے کی کوششیں تقریباً اڑھائی سال سے جاری ہیں‘ اگرچہ اُن کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا لیکن نتیجے کا نکلنا نہ نکلنا اس کی مرضی پر منحصر ہے‘ ہمارا کام کوششوں کو صرف جاری رکھنا ہے جس میں ہم پوری طرح کامیاب ہیں البتہ کچھ کام ایسے ہیں جن کی کوششوں کو ہم جاری نہیں رکھتے لیکن ان کے پھر بھی مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں جن میں ہم درویشوں کی خوشحالی میں مزید اور روز بروز اضافہ سب کو نظر بھی آ رہا ہے اور ہم چونکہ پوری قوم کے نمائندے ہیں اس لیے ہماری خوشحالی کو ہی پوری قوم کی خوش حالی سمجھنا چاہیے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''بلوچستان کی سکیورٹی صورت حال بہتر ہو گئی ہے‘‘ اور انشاء اللہ چند ماہ تک ہماری صورت حال بھی مزید بہتر ہو جائے گی‘ صرف ایک آدھ ریٹائرمنٹ کی دیر ہے‘ ہمارے جملہ اختیارات بحال ہو جائیں گے اور حکومت کرنے کا صحیح مزہ بھی آنا شروع ہو جائے گا۔ آپ اگلے روز رچرڈ اولسن سے الوداعی ملاقات کر رہے تھے۔ 
کرپشن آمریت کی پیداوار ہے‘ سیاستدانوں 
نے آئین اور ایٹم بم دیا... خورشید علی شاہ 
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''کرپشن آمریت کی پیداوار ہے‘ سیاستدانوں نے ملک کو آئین اور 
ایٹم بم دیا‘‘ مثلاً ہمارے گزشتہ دور میں جس کرپشن کا شور مچایا جاتا ہے وہ بھی ہر لحاظ سے آمریت کی پیداوار ہے کیونکہ یہ آمریت ہی کا خوف تھا‘ جو بار بار آ دھمکتی ہے‘ جس کی وجہ سے یار لوگوں نے موقعہ کو غنیمت جانتے ہوئے کچھ جمع پونجی کا بندوبست کر لیا اور اس سے پیشتر کہ پھر آمریت آ جائے‘ برسات کے دنوں کے لیے کچھ اکٹھا کر لینا چاہیے‘ اسی لیے ٹبّر کے ٹبّر اسی کام میں لگے رہے؛ چنانچہ اگر آمریت کا خوف نہ ہو تو ہمیں کرپشن کرنے کی کیا ضرورت ہے‘ اس لیے اس سلسلے میں جو مقدمات قائم ہیں اور مزید انکوائریاں وغیرہ ہو رہی ہیں‘ کرپشن کو ایک مجبوری قرار دیتے ہوئے انہیں پہلی فرصت میں ختم کر دینا چاہیے۔ اور جہاں تک ایٹم بم بنانے کا سوال ہے تو یہ بھی سارا کیا دھرا جرنیلوں ہی کا تھا ورنہ وزیراعظم کی ٹانگیں تو آخر تک کانپتی رہیں لیکن ان کا بھی خیال نہ کیا گیا اور دھماکہ کر دیا گیا جبکہ اس کے نتائج وزیراعظم کے حصے میں آئے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ 
ہیپاٹائٹس کے مریض 
ایک اخباری اطلاع کے مطابق ہسپتالوں میں ہیپاٹائٹس کے انجکشن کی عدم فراہمی کی وجہ سے 10 ہزار مریضوں پر موت کی تلوار لٹکنے لگی ہے۔ لاہور میں‘ رپورٹ کے مطابق 3 ہزار مریض رجسٹرڈ ہیں جو ٹیکے نہ لگنے سے جگر کے کینسر اور سکڑنے کی بیماری میں مبتلا ہو رہے ہیں جبکہ مارکیٹ میں ایک ٹیکے کی قیمت 5 ہزار روپے ہے۔ حکومت ٹرانسپلانٹ کے لیے نیا انسٹیٹیوٹ بنا رہی ہے لیکن جگر کو خراب ہونے سے روکنے کے لیے فنڈز نہیں دے رہی جبکہ 3 سال سے ٹیکے جاری نہیں ہوئے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ آج ہی ایک وزیر باتدبیر کا بیان شائع ہوا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صحت اور تعلیم ہماری پہلی ترجیح ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ حکومت مہربانی کرے اور کسی بھی ترجیح کو اپنی پہلی ترجیح قرار نہ دے ورنہ اس کا ناکام ہونا طے شدہ اور شرطیہ ہے اور اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومتی وعدے کس قدر کھوکھلے اور سفید جھوٹ پر مبنی ہیں کیونکہ حکومت کی اصل ترجیح ہسپتال اور تعلیمی ادارے نہیں بلکہ میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین جیسے میگا منصوبے ہیں کیونکہ حکومت کے بھڑولے انہی سے بھرتے ہیں۔ ہسپتالوں اور سکولوں‘ کالجوں کی ضروریات پوری کرنے سے نہ حکومت کو کچھ بچتا ہے اور نہ ہی وہ دور سے نظر آتے ہیں تاکہ حکومت کی کارکردگی سب کو دکھائی بھی دے۔ تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو ۔
توسیع؟ 
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے جنرل راحیل شریف کے کام کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں توسیع دی جانی چاہیے۔ اس پر اختلاف رائے ہو سکتا ہے لیکن جو سب سے بڑا سوال اس وقت ذہنوں میں مچل رہا ہے‘ یہ ہے کہ فوج کی طرف سے جو آپریشن ہو رہا ہے‘ کیا نیا آرمی چیف آنے کے بعد بھی وہ اسی شدّومد سے جاری رہے گا؟ اور یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ کراچی میں کرپشن کے خلاف جو ایکشن لیا جا رہا تھا‘ اس کی شدت میں ابھی سے واضح کمی محسوس ہونے لگی ہے کیونکہ سیاستدانوں کی طرف سے اس کے خلاف دبائو روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اور جس میں موجودہ حکومت کی خفیہ تائید بھی موجود اور قدرتی بھی ہے کیونکہ ایک تو اس ایکشن کا ہاتھ اس کی طرف بھی بڑھنے کے خدشات موجود ہیں‘ اور دوسرے حکومت شاید بجا طور پر یہ سمجھتی ہے کہ اس کے کھل کھیلنے میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے اور جس کا اظہار وزیراعظم نے اگلے روز اپنے بیان میں یہ کہتے ہوئے کر بھی دیا کہ نادیدہ قوتیں انہیں حکومت کرنے نہیں دے رہیں؛ چنانچہ آرمی پر ایک تو سیاسی جماعتوں اور حکومت کی طرف سے بیرونی دبائو ہے اور دوسرے اُس پر آپریشن جاری رکھنے کے لیے اندرونی دبائو بھی ہے‘ اور سب سے بڑھ کر عوام کا دبائو ہے جو کراچی میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہونے سے پیدا ہو رہا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کی طرف سے ایک نیا احتسابی کمیشن قائم کرنے کی خبر سے بھی مترشح ہوتا ہے کہ یہ موجودہ آپریشن سے جان چھڑانے یا اس کا زور کم کرنے کے ایک متبادل انتظام کی طرف اشارہ ہے تاکہ اپنے لوگوں کو رینجرز وغیرہ کی یلغار سے بچایا جا سکے۔ ان حالات میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ایک لاکھ ڈالر کے سوال کی حیثیت اختیار کر چکی ہے! 
نفاذِ اردو میں مشکلات؟ 
برادرم جمیل یوسف نے اسلام آباد سے اطلاع دی ہے کہ یہاں بیوروکریسی میں نفاذِ اردو کے سلسلے میں بعض مشکلات پر بحث ہو رہی تھی کہ سیکرٹری کو اب معتمد لکھا جائے اور ایڈیشنل سیکرٹری کو اضافی معتمد و علیٰ ہٰذالقیاس۔ جمیل یوسف صاحب کا یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ کئی الفاظ بشمول جج‘ مجسٹریٹ‘ پراسیکیوٹر‘ ریڈر‘ کلرک‘ ہیڈ کلرک‘ اسسٹنٹ کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر وغیرہ‘ سب کے سب اُردوائے جا چکے ہیں‘ لہٰذا ان کے اُردو متبادلات کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘ یعنی انگریزی کے جو الفاظ ہماری بات چیت اور تحریروں میں بلاتکلف استعمال ہوتے ہیں‘ سربسر اردو ہے کہ اردو بنی ہی اس طرح سے ہے اور کم و بیش ہر زبان کے الفاظ کے اجتماع سے ہی یہ زبان استوار ہوئی ہے اور اس میں مزید ارتقا بھی اسی طرح ممکن ہے۔ علاوہ ازیں اعلیٰ عدالتیں اپنے فیصلے اردو میں لکھنے لگی ہیں جبکہ یہ خبر بھی ہے کہ وزیراعظم کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب بھی اردو میں کیے جانے کی تجویز زیر غور ہے۔ 
آج کا مطلع 
لرز رہی تھی مری لَو پڑے پڑے ہی‘ ظفرؔ 
وہ لے چلے ہیں کہاں سامنے ہوا کے مجھے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved