تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     19-09-2015

بِزَن

بزن فارسی لفظ ہے ، اس کا معنیٰ ہے : ''ماردو ، گردن اڑا دو‘‘۔ ہمارے آزاد الیکٹرانک میڈیا کے بعض مہربان دوست اور بعض دیگرلبرل کرم فرما ''مولوی ‘‘ نامی مخلوق سے بہت حساس (Allergic) ہیں ، ان کے نزدیک ہر خرابی کا سبب یہی طبقہ ہے، ان کے بس میں ہو تو چشم زدن میں گردن اڑا کر رکھ دیں تاکہ ہر برائی سے معاشرے کی تطہیر ہو جائے۔ اپنے سوا ہر ایک سے ناراض میڈیا کے بعض ماہرین کہیں گے کہ یہ مولوی سرمایہ دار وں ، چوربازاری کرنے والوں ، ذخیرہ اندوزی کر کے مہنگائی کا طوفان برپا کرنے والوں ، نظام ِ عدل کی تباہی و بربادی کے ذمے داروں، بے رحم حکمرانوں،الغرض پورے استحصالی نظام کے ایجنٹ ہیں اور اس کے مستفیدین (Benificiaries)میں سے ہیں، اس لیے یہ ان طبقات کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے ۔ یہ یک طرفہ الزام ہے۔ 
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آئمہ و خطباء اِ ن معاشرتی مفاسد اور خرابیوں پر اپنے دروس و خطابات میں بات کیوں نہیں کرتے ؟ سوال یہ ہے کہ جن ممالک میں مذہب ریاست کے کنٹرول میں ہے ، کیا وہاں کوئی امام و خطیب نظام کی خرابیوں پر براہ راست تنقید کر سکتا ہے اور Case to Caseان کی نشاندہی کر سکتا ہے ؟ جواب نفی میں ہے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو آئندہ اس منصب پر نہیں رہے گایا زنداں خانے پہنچ جائے گا اور اگر زیادہ خطر ناک ہو ا تو زمین اس کے وجود سے پاک کر دی جائے گی۔ مصر و شام اور عراق و ایران کی ماضی کی تاریخ اس کی شاہدِ عدل ہے ۔ ہمارے ہاں بھی مساجد کی انتظامیہ پر بالعموم سردار، چوہدری ، وڈیرے ، ایک نئی مذہبی فیوڈل کلاس یعنی مزاراتِ اولیاء کے بعض سجادہ نشین اور بااثر طبقات مسلط ہیں ،لہٰذا انہیں براہ راست چھیڑنا آسان نہیں۔ عمومی اور اجمالی انداز میں بات کرنا الگ بات ہے۔ جس الزام کا کوئی ہدف نہ ہواس سے بچ نکلنا آسان ہو تاہے ۔ ہمارا قومی مزاج یہ ہے کہ ہر شخص اور ہر طبقہ اپنے آپ کو مستثنیٰ کر کے دوسروں کو ہر معاشرتی و اَخلاقی خرابی کا ذمے دار قرار دیتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے ۔ 
اگر کوئی زانی یا شرابی یا ہیروئن کا نشے باز ہے، قحبہ گری یا جوئے کا اڈہ چلا رہا ہے اور کوئی خطیب یہ کہے کہ ہمارے محلے میں زنا، شراب، ہیروئن اور جوئے جیسی خرابیاں فروغ پارہی ہیں اور ان کے اڈے قائم ہیں، تو جولوگ ان میں ملوث ہیں وہ کاٹ کھانے کو دوڑیں گے اور کہیں گے کہ مولوی کو کسی کی نجی زندگی میں جھانکنے کی کیا ضرورت ہے ؟ یہی حال کرپشن کو زیرِ بحث لانے کا ہے ۔ اسلام پردہ پوشی کی تعلیم دیتا ہے ، کسی کا راز افشا کرنے اور اسے رسوا کرنے کو ناپسندیدہ قرار دیتا ہے ۔ اس کے بارے میں احادیثِ مبارکہ میں تعلیمات موجود ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اے لوگو ! جو اپنی زبان سے ایمان لائے ہو اور (ابھی )ایمان تمہارے دل میں داخل نہیں ہوا ، تم مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی پردہ دری نہ کرو ، سو جو اپنے مسلمان بھائیوں کی پردہ دری کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس کا پردہ فاش فرما دے گا اور اسے اس کے گھر میں رسوا کرے گا‘‘(سنن ابی داؤد : 4882) ہمارے فقہائے کرام نے اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں کہا ہے کہ اگر کسی کی اخلاقی خرابی اُس کی ذات تک محدود ہو تو اس کی پردہ پوشی کی جائے اور وعظ و تذکیر کے ذریعے اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے‘لیکن جب کسی کی معاشرتی یا اخلاقی خرابی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لینے لگے اور پورا ماحول اخلاقی خرابیوں سے آلودہ ہونے لگے تو پھر اس کی نشاندہی اور ازالہ ازحد ضروری ہے۔ ایسی ہی حالت کے بارے میں کہا گیا ہے :''ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے ‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اللہ تعالیٰ عَلانیہ بری بات (کی تشہیر) کو پسند نہیں فرماتا ، مگر مظلوم کو (داد رسی کے لیے )اس کی اجازت ہے‘‘(النساء : 148) اللہ تعالیٰ ظالم کی زیادتیوں کے خلاف حاکم یا عدالت یا ایسے اور افراد کے سامنے ایک مظلوم کو فریاد کرنے کی اجازت دیتا ہے تاکہ اسے انصاف اور ظالم کو اُس کے کیے کی سزا ملے ،تو پورے معاشرے کو اَخلاقی اور معاشرتی خرابیوں سے بچانا اس کے مقابلے میں کئی درجے زیادہ اہم ہے ۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے میں دولت و ثروت ہی تکریم و احترام کا معیار ہے ، اس سے کسی کو غرض نہیں کہ دولت حاصل کرنے کے ذرائع حلا ل ہیں یا حرام؟ جب زانی اور شرابی اپنے بارے میں شرعی حکم ماننا تو درکنار ، سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہے ، تو کرپٹ کیسے خوش دلی سے آمادہ ہو گا ۔ میڈیا کے دوست شیشے کے گھر میں ہوتے ہیں ، اُن میں سے بعض بلٹ پروف گاڑیوں میں چل رہے ہوتے ہیں ، مولوی تو چوراہے کے بیچ کھڑا ہے ۔ 
میری گزارشات کا مُدّعا یہ ہے کہ مولوی بھی اسی معاشرے کا فرد ہے۔ اس کا خمیر بھی اسی معاشرے سے اُٹھا ہے ، جو بشری اور انسانی کمزوریاں معاشرے کے عام افراد میں ہوتی ہیں ،مولوی اس سے مبرا نہیں ہوتا ۔ عام معاشرے میں جو اچھے اور بُرے افراد کا تناسب ہے ، توقع کی جاتی ہے کہ دینی تعلیم و تربیت کی وجہ سے یہ تناسب علمائے دین اور خدام ِ دین میں بہتر ہو اور ہونا بھی چاہیے۔ معاشرہ بجا طور پر یہ توقع رکھتا ہے کہ علماء اخلاق و کردار کا بہتر معیار پیش کریں۔اسی لیے معاشرہ دینی مدارس اور مساجد کو چلانے کا مالی بار رضاکارانہ طورپر اپنے ذمے لیتا ہے اور اہل ِ دین کے بارے میں تمام تر منفی پروپیگنڈے کے باوجود وہ دین اور اہلِ دین کے ساتھ کھڑا ہے اور یہی وجہ ہے کہ الحمد للہ علیٰ احسانہٖ ہمارے خطے میں دینی اقدار اور دینی شعائرکا التزام اور احترام دوسرے ممالک کے مقابلے میں کافی بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اسے مزید بہتر بنائے اور دینی طبقات کے بارے میں عام مسلمانوں کی جو توقعات اور حسنِ ظن ہے ، انہیں اِن پر پورا اترنے کی سعادت و توفیق عطا فرمائے ۔ یہ بھی گزارش ہے کہ چند افراد کی خرابیوں کی وجہ سے پورے طبقے کو ہدفِ طعن بنانا درست نہیں۔ 
یہی وجہ ہے کہ معاشرے کے دیگر عافیت پسند طبقات کی طرح مولوی نے بھی اپنے لیے عافیت کا راستہ تلاش کر لیا ہے ۔ ایک طبقہ رسالت و نبو ت اور ولایت و امامت کے فضائل بیان کرکے عوام کو روحانی سُکون پہنچا تا ہے اور دوسرا توحید سے شروع کر کے اپنی بات کو شرک و بدعت پر ختم کردیتا ہے۔ اس طرح اپنی دانست میں وہ بھی اپنی ذمے داریوں سے سُبکدوش ہوجاتے ہیں ۔ اسلام دینِ کامل ہے ، اسلام ایک جامع تصوّرِ حیات کا نام ہے اور اسے بالاجزاء (by parts)قبول کرنے یا Pick & Chooseکی گنجائش نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے(1): ''اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو ، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘ (بقرہ : 208) (2) ''بے شک وہ لوگ اللہ اور اس کے رسولو ں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان (ایمان لانے میں ) فرق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائے اور بعض کا انکار کیا اور چاہتے ہیں کہ ایمانِ (کامل) اور کفر کے درمیان کوئی راستہ اختیار کریں‘‘(النساء : 150) یعنی یہ روش دین میں قابل قبول نہیں ہے ۔ 
پچھلے دنوں ہمارے ایک لبرل مذہبی مفکر نے یہ راہ دکھائی ہے کہ اجتہاد عوام کے منتخب نمائندوں یا پارلیمنٹ کا کام ہے اور انہی کی تعبیر و تشریح حتمی قرار پائے گی ۔ اگر اس اصول کو درست تسلیم کر لیا جائے تو مغرب کا جدید تصور بھی یہی ہے کہ انسان اپنے خیر و شر اور نفع و نقصان یعنی What is for & What is against کو طے کرنے کا خود مجاز ہے اور جو فیصلہ وہ اپنی اجتماعی دانش(Collective Wisdom) سے کرے، وہی درست ہے ، اسی کو ہماری فقہ میں مَالَہٗ وَمَا عَلَیہَا سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ علماء اور لبرل مفکرین کے درمیان یہی بنیادی فکری اور اصولی اختلاف ہے ۔ علماء قرآن و سنت کے ساتھ غیر مشروط وابستگی اور تمسُّک بِاالْکِتَاب وَ السُّنّہ کولازمی قرار دیتے ہیں اور انسان کی اجتماعی دانش کو خطا اور لغزش سے مبرّا اور معصوم قرار نہیں دیتے ، بلکہ قرآن و سنت ہی انسانی دانش کی اِصابت (Righteousness) اور خطا (Wrongness) کو جانچنے کے لیے معیار اورکسوٹی ہے ۔ امام مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :''میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ، جب تک تم ان کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ رہو گے، ہر گز گمراہ نہیں ہو گے ، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی مکرمﷺکی سنت‘‘ (مؤطا امام مالک : 3338) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved