تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     20-09-2015

ڈاکٹر صاحب! آپ پر کروڑوں سلام

دہشت گردی کی ایک اور واردات ہوئی، ایک بار پھرایک دفاعی تنصیب کو نشانہ بنایا گیا۔افسر اور جوان خون میں نہا گئے۔ حملہ آور کانسٹیبلری کی وردی میں ملبوس (پشاور کے قریب) بڈھ بیر پہنچے اور دو گروپوں میں تقسیم ہو کر چڑھ دوڑے۔ ایک نے گارڈ روم کو نشانہ بنایا تو دوسرے نے نماز فجر کی تیاری میں مصروف نمازیوں کو تاک لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے لاشے تڑپنے لگے اور خون کا دریا بہہ نکلا۔ پاک فوج کی کوئیک رسپانس فورس چند لمحوں میں موقع پر پہنچ گئی اور 14حملہ آوروں کو وہاں پہنچا دیا، جہاں پہنچنا ان کا مقدر ہو چکا تھا۔ 16 نمازیوں سمیت 29افراد شہید ہوگئے اور انتیس ہی زخمی۔ کوئیک رسپانس فورس کے کیپٹن اسفند یار بخاری نے مردانہ وار لڑتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اس اٹھائیس سالہ نوجوان کی شادی چند ہفتوں بعد ہونے والی تھی کہ اس نے قبل از وقت ہی سر پر (شہادت کا)سہرا سجا لیا۔ اسفند یار نے ملٹری اکیڈمی کاکول سے شمشیرِاعزاز حاصل کی تھی اور اپنے ساتھیوں میں ممتاز ترین تھا۔ وہ بچپن ہی سے فوج میں کمیشن حاصل کرنا چاہتا تھا، شاید گھر والوں کی خواہش پر میڈیکل کالج میں داخلہ لیا کہ اس کا گھرانہ ڈاکٹروں کا ہے۔ والد بھی ڈاکٹر ہیں اور اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنانے کی تمنا ان کے دل میں ہوگی، لیکن بیٹے کی خواہش پر انہوں نے اپنی خواہش قربان کر دی۔ اسے میڈیکل کالج کے بجائے کاکول کا راستہ اختیار کرنے کی اجازت دے دی۔اسفند یار سکول کے ایام ہی سے اپنا نقش جما چکا تھا۔ بہترین طالب علم کے طور پر اپنے اساتذہ ہی نہیں شہر بھر کی آنکھوں کا تارا بن گیاتھا، ''فخرِ اٹک‘‘ کہلاتا تھا۔ ملٹری اکیڈمی میں بھی اس نے اپنا امتیاز برقرار رکھا۔ کامیابیاں اس کا قد اونچا کرتی گئیں۔ وہ اپنے آسمان کا چاند تھا۔ اس کے والد کو لوگ اس کے حوالے سے جانتے اور مانتے تو اس کا سراونچا ہو جاتا۔ کسی باپ کی اس سے بڑھ کر خوش قسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا بیٹا اس کی شہرت اور عزت میں اضافے کا سبب بن جائے۔
ایک منفرد بیٹے کے منفرد باپ کے طور پر ڈاکٹر فیاض بخاری کا تعارف دنیا بھر کو اس وقت ہوا، جب بیٹے کی شہادت کی خبر ان تک پہنچی۔وہ روئے نہ گڑگڑائے، چیخے نہ چلائے بس سجدۂ شکر بجا لائے اور ایک شہید کے باپ کے طور پر آنکھیں خشک کر لیں ؎
زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں اس کے نام پر 
اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا
پاکستانی قوم خون دے کر اپنی عزت اور سالمیت کی حفاظت کرنے کی اپنی تاریخ رکھتی ہے۔ہزاروں مائیں اپنے لخت جگر قربان کر چکیں، ہزاروں باپ اپنی لاٹھیوں سے محروم ہو چکے، ہزاروں سہاگنیں اپنے سہاگوں کی قربانی دے چکیں اور ہزاروں بچے اپنے سروں کے سایے سے محروم ہو چکے لیکن زبان پر حرفِ شکایت نہیں آیا۔ وہ اپنے غم کو طاقت میں بدلنے میں لگ گئے اور پوری قوم کو نئی توانائی دینے کا سامان بن گئے۔ ان سب کو یاد کرتے اور ان کا اعتراف کرتے ہوئے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اسفندیار بخاری شہید کے والد نے اپنے خون کی لاج جس طرح رکھی اور جس طرح پورے قدکے ساتھ کھڑے ہوئے، اس نے ہماری تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔اسفندیار کو سلام پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے جلیل القدر والد کو سلام پیش کرنا بھی ہر پاکستانی پر واجب ہے۔ انہوں نے پاکستانی قوم کو وہ حوصلہ (بلکہ ولولہ) بخشا ہے، جس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ ہماری قومی اور فوجی قیادت کیپٹن اسفندیار کے لہو کو جس طرح بھی خراج پیش کرے، ہماری گزارش یہ ہوگی کہ ڈاکٹر فیاض بخاری کا اعتراف ضرور کیا جائے۔ انہیں پاکستان کا اعلیٰ سول اعزاز پیش کیا جانا چاہیے کہ انہوں نے صبر اور عزم کی جس دولت سے ہمیں مالا مال کیا ہے وہ اس طرح کم ہی ہمارے حصے میں آئی ہوگی۔ جس طرح راجہ عزیز بھٹی اور شبیر شریف شہیدوں میں بے مثال ہیں، اسی طرح شہداء کے والدین میں ڈاکٹر فیاض بخاری اپنی مثال آپ ہیں... ان پر لاکھوں نہیں کروڑوں سلام۔
_______________
یہ روشن پہلو اپنی جگہ... جذبۂ شہادت اور اس پر سجدۂ شکر اپنی جگہ... اس سے انکار نہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف ڈھیروں کامیابیاں حاصل کی جا چکی ہیں۔ہمارے خفیہ اداروں نے ان گنت وارداتوں کو واقع ہونے سے روکا ہے۔جنگجوئوں کے بے شمار منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں، بے شمار انتہا پسند نشانہ بن چکے ہیں اور بے شمار حوالۂ زنداں کر دیئے گئے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ جنگ ایک دن کی ، ایک ہفتے یا ایک مہینے کی نہیں۔ یہ طویل ہو سکتی ہے،اس کے خلاف لڑتے ہوئے جلد بازی کی نہیں استقلال اور پامردی کی ضرورت ہے، اس کے باوجود ان سوالات کا جواب ملنا چاہیے جو دفاعی تنصیبات کے حفاظتی انتظامات کے حوالے سے پیدا ہو رہے ہیں۔ہر آنکھ دیکھ رہی ہے کہ بار بار سکیورٹی اداروں کی وردیاں پہن کر دہشت گرد حملہ آور ہوئے ہیں۔ بار بار انہوں نے سکیورٹی حصار میں نقب لگائی ہے، بار بار انہوں نے ایک ہی تکنیک استعمال کرکے ہمارے اداروں کا امتحان لیا ہے... یہ بتایا جانا چاہیے کہ مومن ایک ہی سوراخ سے بار بار کیوں ڈسا جا رہا ہے؟ حملہ آور کیسے ایک ہی چال چلتے ہوئے اطمینان سے آتے اور ایک ہی طرح کی وارداتیں کر گزرتے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved