تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     20-09-2015

جنگِ ستمبر کی چند یادداشتیں

اپنے پچھلے کالم میں ہم نے جنگ ستمبر کا ذکر کیا تھا۔دو واقعات کے بیان میں ہم سے کچھ غلطی ہوئی تھی جس کی تصحیح ہمارے مہربان دوست ایئرکموڈور(ر) سجاد حیدر نے فرمائی ہے۔ ہم نے پچھلے کالم میں بھی بتایا تھا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے سجاد حیدر صاحب ستارۂ جرأت سے نوازے جا چکے ہیں اور وہ اپنے زمانے کے ماہر ترین ہوا بازوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے ہمیں لکھا کہ ''ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں جو 5 ستمبر کوپنڈی یا پاکستان میں کہیں بھی ہماری فضائی حدود میں بھارتی دراندازی کا پتا دیتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ 6 ستمبر کو صبح گیارہ بجے بھارت نے وزیر آباد کے قریب ایک ٹرین کو نشانہ بنایا تھا اور یہی وہ واقعہ تھا جس نے صدر ایوب کی آنکھیں کھولیں۔ 5 ستمبر کی شب کی جو یادداشت آپ نے تحریر کی ہے، وہ سب 6 ستمبر کی شب کی ہو سکتی ہے۔ جو دھماکے آپ نے سنے وہ بموں کے نہیں بلکہ اینٹی ائیرکرافٹ گنوں کے ہو سکتے تھے۔ چھوٹی بچیوں کی سماعت کے لئے یہ دونوں آوازیں ایک جیسی ہوتی ہیں‘‘ ۔ سو ہم اپنی غلطی مانتے ہوئے سجاد حیدر صاحب کی فرمودہ تصحیح تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم ایک تصحیح ہم بھی کرنا چاہیں گے اور وہ یہ کہ اس وقت ہماری عمر چھوٹی بچیوں والی نہیں تھی۔ ہماری نسبت طے پا چکی تھی اور تین ماہ بعد ہماری شادی ہونے والی تھی۔
اپنی بیسٹ سیلر کتاب Flight of the Falcon میں سجاد حیدر صاحب نے اس جنگ کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ ان کی اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی''شاہین کی پرواز‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ بتاتے ہیں کہ کس طرح وہ جنگ صدرایوب اور ان کے آرمی چیف جنرل موسیٰ کی نا اہلی کا ثبوت بنی۔ سیالکوٹ سیکٹر کے دفاع کی ذمہ داری چھٹے آرمرڈ ڈویژن کی تھی لیکن اسے اس کی تعیناتی کی اطلاع اس وقت ہوئی جب بھارتی پندھرویںڈویژن بی آر بی کینال تک پہنچ چکی تھی؛ حالانکہ بی آر بی کینال لاہورکی آخری دفاعی حد تھی۔ جنرل ابرار حسین جو اس ملک کے معدودے چند جرأت مند جرنیلوں میں سے ایک ہیں، اپنی کتاب Men of Steel میں لکھتے ہیں کہ جی ایچ کیو سے انہیں اپنے چھٹے آرمرڈ ڈویژن کو حرکت میں لانے کاحکم نامہ 6 ستمبرکی دو پہرکو ملا تھا۔ ان کی بھاری بھرکم ڈویژن بھرپور انداز میں جی ٹی روڈ کے راستے سیالکوٹ پہنچی جہاں بھارت کے فضائی حملے کا خطرہ تھا۔ اسی خطرے کے پیشِ نظر اپنے پرانے ٹینکوںکو ضروری دیکھ بھال کے عمل سے گزارے بغیر یہ ڈویژن سیالکوٹ پہنچی۔ چند لمحوں میں وہاں خیمے کھڑے کیے گئے اور جنرل صاحب ساتھیوں سمیت جونہی جنگی نقشے بچھا کر منصوبہ بندی کرنے لگے، جی ایچ کیو سے ایک کپتان ان(جنرل ابرار) کے نام جنرل موسیٰ کا زبانی پیغام لے کر پہنچا جس میں کہا گیا تھا کہ اب کھاریاں اورگوجرانوالہ پہنچا جائے۔ یہ کہانی بہت لمبی ہے، لیکن اگلا نہایت ہی ناقابلِ یقین واقعہ یہ ہوا کہ جنرل ابرار کو فلیش سگنل کے ذریعے سیالکوٹ اور جسرکے علاقوںکے دفاع کے لئے آگے بڑھنے کا حکم ہوا۔ یہ علاقے بھارتی حملے کی زد میں آ چکے تھے۔
ہمارے ایک اور جنگی ہیرو بھی ہیں جنہیں جنگِ ستمبر میں اپنی شاندار کارکردگی کی بنا پر یاد رکھا جانا چاہئے۔ میجر منور خان آزاد کشمیر رجمنٹ میں شامل تھے جو بعد میں آزاد کشمیر ریگولر فورس (AKRF) بنی۔ یہ فورس پاکستانی فوج سے الگ بھرتیوں اور تربیت کا علیحدہ ڈھانچہ رکھتی ہے۔ جولائی 1965ء میں پاکستانی فوج نے آپریشن جبرالٹرکا آغازکیا۔ یہ جموں وکشمیر میں داخلے کی مہم تھی۔ میجر منورکا نام اس مہم میں ممتاز رہا۔ اپنے جوانوںکی قیادت کرتے ہوئے وہ راجوڑی کے ایک درّے سے بھارت میں داخل ہوئے۔ اس مقام پر بھاری فائرنگ ہوئی تھی۔ وکی پیڈیا کے مطابق مقامی لوگوں نے اس درّے کو میجر منورکے نام سے موسوم کرکے اسے درۂ منور پکارنا شروع کر دیا تھا۔ میجر منور نے پورے تین مہینے پانچ سو مربع میل کا یہ علاقہ اپنے قبضے میں رکھا۔ دلیرانہ کارناموں کے اعتراف میں انہیں غازیٔ کشمیر کا خطاب بھی دیا گیاتھا۔ 640 صفحات کی ضخیم کتاب: History of Indo-Pak war-1965 میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمود احمد اپنے اس افسرکے حوالے سے لکھتے ہیں: ''وہ (یعنی میجر منور) اس سارے علاقے کا انتظام سنبھالے ہوئے تھے۔ ان کے اپنے پولیس اہلکار تھے، اپنے تحصیلدار تھے، اپنی حکومت تھی۔ مقامی آبادی کی مکمل حمایت انہیں حاصل تھی۔ جو مدد بھی انہیں درکار ہوتی، وہ انہیں فراہم کر دی جاتی۔ راجوڑی کی پوری وادی میں ان کی عملداری قائم تھی‘‘۔
جی ایچ کیو سے ایک بار پھر جنرل موسیٰ نے اپنی جنگی حکمت عملی کی بدانتظامی کا ثبوت دیا اور اچانک حکم جاری کر دیا گیا کہ میجر منور اور ان کے جوان یہ علاقہ خالی کر کے جی ایچ کیوکو رپورٹ کریں۔ میجر منور نے مایوسی اور افسردگی کے عالم میں اس علاقے اور وہاں کے لوگوں کو خیر باد کہا۔ لوگ بھی ان کے جانے پر افسردہ تھے اور رو رہے تھے۔ بعد میں میجر منورکو ستارۂ جرأت سے نوازا گیا اور جنرل ایوب نے انہیں''شاہِ راجوڑی‘‘ کا خطاب بھی دیا۔ میجر منورکے فرزند بریگیڈیئر (ر) وقار احمد ملک اپنے مرحوم والد اور ان کے عظیم الشان کیریئر کی داستان ہمیں یوں سناتے ہیں۔ ان کی پیدائش چکوال میں ہوئی ۔ بچپن ہی سے فوج میں شامل ہونا ان کی دلی خواہش تھی۔ ایک روز انہیں لوگوںکا جمگھٹا دکھائی دیا جو انگریزوں کی دوڑ دیکھنے کے لئے جمع ہوئے تھے۔ جب بندو ق چلا کر دوڑکا آغاز کیا گیا اور تو اچانک منور خان بھی مقابلے میں کود پڑے، اور وہ دوڑ انہوں نے جیت بھی لی۔ ان کی کارکردگی دیکھ کر سبھی حیران تھے۔ سبھی پوچھ رہے تھے کہ یہ لڑکا کون ہے؟ رجمنٹ کے سربراہ ان کے قریب آئے تو انہوں نے جھٹ سے کہہ دیا کہ ''میں فوج میں شامل ہونا چاہتا ہوں‘‘۔ ان کی یہ خواہش اسی وقت پوری کر دی گئی۔ انگریز ایک اتھلیٹ کے طور پران کی قابلیت بھانپ چکے تھے؛ چنانچہ انہوں نے منور خان کو اپنی سرپرستی میں لے لیا، انہیں تعلیم دلائی اور جب وہ اٹھارہ برس کے ہو گئے تو فوج میں بھرتی کر لیا۔ وقار ملک کہتے ہیں کہ ان کے والی مسلسل ایک کے بعد دوسرے چیلنج سے نبر د آزما رہے۔ انہیں کبھی موت سے ڈر نہیں لگا، کبھی ناکامی سے خائف نہیں ہوئے، تاریخ میں اپنا نام بنانے کے لئے پر عزم تھے اور ایسا کرنے میں وہ کامیاب بھی رہے۔ ہم نے بریگیڈیئر (ر) وقار ملک سے پوچھاکہ ان کے والد نے اپنے ساتھیوں سمیت جب بھارت کے زیر انتظام راجوڑ ی پرکامیابی سے قبضہ کر لیا اور وہاں پاکستانی جھنڈا گاڑکرسارا انتظام بھی اپنے ہاتھ لے لیا تو پھر انہیں وہاں سے واپس کیوں بلا لیاگیا؟ میجر منور جب واپس پنڈی آئے تو وقار ملک اس وقت کم عمر تھے،انہیں بس اتنایاد ہے کہ ان کے والد کافی مایوس تھے اور عین ممکن ہے کہ ان کی یہی دل شکستگی چند برس بعدان کے دل کے دورے کا سبب بنی جو جان لیوا ثابت ہوا۔
آج پچاس برس بعد میجر منورکے بیٹے کی خواہش ہے کہ ان کے والدکی جرأت اور بہادری کا یاد رکھا جائے۔ یہ ایک غیر معمولی کہانی ہے اور اگر کوئی تخلیقی ذہن رکھنے والا شخص اس پرکام کرے تو اس پر ایک بہترین فیچر فلم بنائی جا سکتی ہے۔ اگر ہالی ووڈ والے"Charlie Wilson's War"کے نام سے ایک فلم بنا سکتے ہیں (جس میں دکھایاگیا ہے کہ کس طرح جوان ہیرنگ نامی ہیوسٹن کی ایک امیر خاتون کانگرس کے رکن چارلی ولسن کو اس امر پرآمادہ کرتی ہے کہ افغانستان میں روسیوں سے جنگ کے لئے ان کی حکومت کو مجاہدین کی مالی معاونت کرنی چاہئے) تو لالی ووڈ میں کوئی یا پھر وسائل رکھنے والا کوئی دوسرا فرد میجر منورکی کہانی پر ''شاہِ راجوڑی‘‘ کے نام سے فلم کیوں نہیں بنا سکتا؟ ہمیں یقین ہے کہ بڑی سکرین پر اپنے ہی ایک ساتھی کے کارناموں کوتمثیلی صورت میں دیکھنا پاکستان آرمی کے لئے بھی ایک ولولہ انگیز امرہوگا۔ زندہ قوموں کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے گزشتہ اور موجودہ ہیروزکو یاد رکھتی ہیں۔ ایئرکموڈور(ر) سجاد حیدر اور مرحوم میجر منور بھی ہمارے دو ایسے ہی ہیروز ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved