وزیراعظم میاں نواز شریف نے انکشاف کیا ہے کہ وہ حکومت میں رہتے ہوئے بھی جیب سے خرچ کرتے ہیں۔ واقعی ؟ کب اورکس مد میں وہ اپنی جیب سے خرچ کرتے ہیں؟ وزیراعظم ہائوس کے اخراجات تو پہلے سے بھی بڑھ گئے ہیں۔
پچھلے برس وزیراعظم کے لیے بائیس کروڑ روپے کی گاڑی خریدی گئی۔ لاکھوں روپے کے کتے وزیراعظم ہائوس کی حفاظت کے لیے خریدے گئے۔ اس سال پندرہ کروڑ روپے سے دس لینڈ کروزر گاڑیاں خریدی گئیں اور جن میں یہ بانٹی گئیں وہ سب ان کے اپنے ہیں۔ ایک سال میں انہوں نے بارہ غیرملکی دورے کیے جن میں مجموعی طورپر431 افراد کو اپنے ساتھ لے کرگئے۔ صدر مملکت ممنون حسین نے بیرونی دوروں میں قرض پر لی گئی رقم میں سے 60 ہزار ڈالر کی ٹپ بانٹی۔ شہباز شریف نے لاہور میں اپنے تین گھروں مین تین کیمپ آفس قائم کر رکھے ہیں۔ رائیونڈ کو وزیراعظم کے ساتھ وزیراعلیٰ کے کیمپ آفس کا بھی درجہ ملا ہوا ہے۔ جاتی عمرہ کا یہ گھر خوش قسمت ہے جس کی چھت تلے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ رہتے ہیں اور اسے دو رتبے ملے ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ سرکاری ہے۔ خاندان کے ہر فرد اور تمام گھروں کے لیے علیحدہ سکیورٹی انتظامات ہیں۔ 1200سے زیادہ پولیس والے اور ایلیٹ فورس علیحدہ ہے۔
وزیراعظم کے ذاتی اخراجات کی ادائیگی کی تفصیلات چھوڑیں، ہمیں تو فارن آفس ان 431 افراد کے نام بتانے کو تیار نہیں جو گزشتہ برس مختلف بیرونی دوروں میں ان کے ساتھ تھے۔ سینیٹ نے یہ نام مانگے تھے مگر فارن آفس نے انکارکر دیا۔ یہ 431 افراد ہمارے خرچ پر بیرون ملک جا سکتے ہیں لیکن ہمیں یہ حق نہیں کہ ان کے نام جان سکیں۔ نام چھپانے کی ایک ہی وجہ ہے کہ سب اپنے ہی تھے۔ غیرملکی دوروں میں برخوردار اورکاروباری پارٹنرز ساتھ ہوتے ہیں۔کاروبارِ حکومت بھی چل رہا ہے اور ساتھ ساتھ ذاتی کاروبار بھی۔ اسے کہتے ہیں۔۔۔۔ رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی۔
یہ سب کچھ عوام کے ٹیکسوں سے ادا ہو رہا ہے۔ حیران ہوںکہ اپنی جیب سے کب اور کہاں خرچ کرتے ہیں۔ وزیراعظم ہوں یا وزیراعلیٰ‘ وہ وزیراعظم ہائوس اور وزیر اعلیٰ ہائوس کی حالت درست کرانے کے بجائے سب سے پہلے اپنے گھر کی تزئین و آرائش کرنے کا حکم دیتے اور اسے کیمپ آفس کا درجہ عنایت فرماتے ہیں۔ کیمپ آفس سے مراد وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کا سرکاری گھر ہے، اس پر اٹھنے والے تمام اخراجات حکومت ادا کرے گی۔ یوسف رضا گیلانی نے ملتان کے گھر کو کیمپ آفس ڈیکلیئر کر کے اس کی خوب مرمت کرائی۔ یہی کام راجہ پرویز اشرف کے دور میں ہوا۔ جنرل مشرف دور میں بھی یہی ہوتا رہا۔ کیمپ آفسز پر کروڑوں خرچ ہوئے، آبائی گھر نئے بن گئے۔ رائیونڈ اورگڑھی خدابخش میں بھی یہی کچھ ہوا۔ جب آصف زرداری صدر بنے تو منصوبہ بنا کہ گڑھی خدا بخش کو بھی کیمپ آفس کا درجہ دے کر کنکریٹ کی ایک طویل دیوارکھڑی کی جائے۔ تین ارب روپے کا تخمینہ تھا۔
پاکستان ہر سال پانچ ارب ڈالرکا قرضہ لے رہا ہے۔ ذرا تصورکریں، اگر میاں نواز شریف کو جیب سے پیسے خرچ کرنے ہوتے توکیا وہ431 لوگوں کی ٹکٹیں اپنی جیب سے خریدتے؟ سال میں 50 دن انہیں امریکہ، برطانیہ، چین اور یورپ کے بڑے ہوٹلوں میں رہائش، کھانا پینا، ڈالروں میں ڈیلی الائونس وغیرہ کی ادائیگی کرتے؟ کیا وہ تین ماہ میں پانچ بار اپنی جیب سے سعودی عرب جاکر عمرہ کرتے؟ یہ سب عوام کے پیسوں سے ہی ممکن ہے۔ مان لیتے ہیں، یہ سب کچھ وزیراعظم صاحب پاکستان کے لیے کرتے ہیں، ملکی مفاد کی خاطر بیرونی دورے کرتے ہیں، لیکن کیا لندن میں سلطنتِ برطانیہ کی طرف سے ترکوںکو شکست دینے کے صد سالہ جشن میں ان کی شرکت بھی ملک کے مفاد کے لیے تھی یا اصل مقصد اپنے بچوں سے ملاقات تھا؟ کیا تین ماہ میں برطانیہ کے تین دورے کرنا پاکستان کے مفاد میں تھا؟ وزارت تجارت کے افسرمذاق اڑاتے ہیں کی جن تجارتی ایم او یوز پر بالعموم سفارت خانے کا کمرشل اتاشی دستخط کرتا تھا‘ اس کے لیے اب نواز شریف خود تشریف لے جاتے ہیں۔ وہ ہر ماہ اوسطاً چار دن ملک سے باہر ہوتے ہیں۔
میاں نواز شریف کے اپنی جیب سے خرچ کرنے کے دعوے سے یاد آیا، جب شوکت عزیز وزیراعظم بنے تو وہ عمرہ کرنے سعودی عرب تشریف لے گئے۔ ان کے ساتھ ایک بڑا وفد بھی گیا۔ موصوف نے دعویٰ فرمایا، اس کا سارا خرچ وہ اپنی جیب سے ادا کریںگے۔ مجھ جیسے صحافیوں اور کالم نگاروں نے ڈھول بجائے، دیکھیں جناب وزیراعظم کو ملک کا کتنا احساس ہے۔ چند ماہ بعد قومی اسمبلی میں کچھ دستاویزات جمع کرائی گئیں تو پتا چلا کہ کروڑوں روپے سرکاری خزانے سے ہی خرچ ہوئے تھے۔ شوکت عزیز ایک لمحے کے لیے گھبرائے نہ شرمندہ ہوئے۔
چوہدری شجاعت وزیراعظم بنے تو وہ بھی شکرانے کے طور پر بڑا وفد عمرے پر لے گئے اور دعویٰ فرمایا کہ خرچہ جیب سے کریںگے۔کچھ دن بعد پتا چلا کہ ساری ادائیگی سرکاری خزانے سے ہوئی۔ چوہدری صاحب نے تردید کی اور کہا کہ انہوں نے جیب سے ادائیگی کی تھی۔ جب وزیراعظم سفرکرتا ہے تو بہت سے اخراجات ایسے ہوتے ہیں جو جیب سے ادا نہیں ہوسکتے، لہٰذا ریکارڈ پرآگیا کہ سرکاری خزانے سے ادا ہوئے تھے۔
سابق وزیرداخلہ رحمن ملک نے بھی اپنے دور میں پاکستان کے 200 سے زائد صحافیوں اور اہم شخصیات کو مفت حج کرایا۔کچھ دن بعد ایف آئی اے ان تمام لوگوں کو ڈھونڈ رہی تھی کہ وزارت حج نے لکھا ہے کہ فلاں فلاں صاحب حج کے اخراجات جمع کرائیں ورنہ جیل جائیںکیونکہ رحمن ملک بل دینے سے انکاری تھے۔کچھ معززین نے ادائیگی کرکے عزت بچائی۔ گیلانی صاحب اور جمالی صاحب بہتر نکلے۔ انہوں نے فرمایا، وہ ملک کے وزیراعظم ہیں، ان کی مرضی جس کو چاہے سرکاری خرچ پر عمرے کے لیے لے جائیں۔ بہتر اس لیے کہ انہوں نے جھوٹ بول کر لوگوںکو حج یا عمرہ نہیںکرایا۔ زرداری واحد صدر تھے جو ایک بڑے وفد کو عمرے پرلے گئے اور26 کروڑ روپے جیب سے ادا کیے۔
میاں نواز شریف کے جیب سے خرچے کی بات سن کر یاد آیا کہ قائداعظم زیارت میں تھے، کچھ کھا پی نہیں رہے تھے،کسی کو یاد آیا انہیں فیصل آبادکے دو خانسامے بھائیوں کا پکایا ہواکھانا بہت پسند ہے۔ بڑی مشکل سے انہیں ڈھونڈکر زیارت لایاگیا۔ قائد اعظم کوکھانا پسند آیا،جب انہیں خانسامے بلوانے کا پتا چلا تو ناراض ہوئے اوردونوں بھائیوں کو واپس بھجوا دیا۔ ذاتی اکائونٹ سے ایک چیک لکھا اورکہا حکومت پاکستان کے خزانے میں جمع کرا دو، ایک غریب ملک کا حکمران یہ عیاشی نہیںکرسکتا۔ اس چیک کی کاپی آج بھی آرکائیو میںموجود ہے۔ اپنا حال یہ ہے کہ اسلام آباد میں دیگیں پک کر ہیلی کاپٹر پر مری جاتی ہیں۔
ایک اور واقعہ الطاف گوہر نے اپنی کتاب ''ایوب خان‘ ـ فوجی راج کے پہلے دس سال‘‘ میں لکھا۔ ایوب خان کے حکم پرسکندر مرزا سے تین جرنیلوں نے استعفی لے لیا۔ سکندر مرزا کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر نوازش رات گئے ان کے گھر پہنچے تو مرزا صاحب بولے، تمہیں پتا ہے کیا ہوا؟ صدرکی اہلیہ سامان سمیٹ رہی تھیںاور نوازش سے دکھی ہوکر پوچھا، کیا ہم اسی سلوک کے مستحق تھے؟ یہ کہہ کر اپنا ضروری سامان چھ بکسوں میں ڈالا اور چابیاں نوازش کے حوالے کر دیں۔ ایوان صدرکو فوج نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ اس آپریشن کے انچارج بریگیڈیئر بہادر شیر تھے جو پستول لے کرگھوم رہے تھے۔ سکندر مرزا نے اپنا لباس تبدیل کیا اور بش شرٹ پہن لی۔ اپنے پرائیویٹ سیکرٹری قدرت اللہ شہاب کے لیے سونے کا پین اور ایوان صدرکے ایک ملازم ، جس کی کچھ روز بعد شادی تھی کے لیے رقم بریگیڈیئر نوازش کو دی اورکہا ہاں! اگر ان کے ذمے کوئی رقم یا بل ہو تو بتادیں تاکہ وہ ادائیگی کرتے جائیں۔ پھر دونوں میاں بیوی بغیر پروٹوکول ائیرپورٹ روانہ ہوگئے۔ سکندر مرزا نے کوئٹہ سے اپنے ذاتی بلوںکی ادائیگی کے لیے ستر ہزار روپے کی رقم بھیجی!
آپ کو یہ دو واقعات ہماری درسی کتابوں میں نہیں ملیں گے تاکہ بچوں کویہ پتا نہ چلے کہ ایک دور وہ بھی تھا جب حکمران روپے پیسے کے معاملے میں اتنے ایماندار تھے اور انہیں فکر ہوتی تھی کہ ان کے ذاتی کردار پرکوئی انگلی نہ اٹھائے۔ ویسے وزیراعظم نواز شریف کو تاریخ میں زندہ رہنے کا یقینا شوق ہوگا۔ جاتے جاتے وہ ایک کام کریں، قائداعظم اور سکندر مرزا کی طرح کوئی دستاویزی ثبوت سرکاری آرکائیو کے لیے چھوڑ جائیں کہ انہوں نے بھی کوئی چیک اپنے ہاتھ سے لکھ کر قوم کے خزانے میں جمع کرایا تھا، ورنہ پاکستانی تاریخ میں چالیس کروڑ روپے کے وہ بینک چیک موجود رہیںگے جو حمزہ شہباز نے نواز شریف کو عدالت سے ملنے والی سزاکے طور پر نیب کے پاس جمع کرائے تھے!