بہت سے دیگر مسائل کی وجہ سے حالیہ دنوں پیش آنے والے دوواقعات پر بہت کم توجہ دی گئی۔ ایک تو پاکستان کا اپنا تیار کردہ ڈرون، جس کی مدد سے قبائلی علاقوں میں انتہاپسندوں کونشانہ بنایا گیا اور آنے والے دنوں میں اس کا استعمال دیکھنے میں آئے گا، اور دوسرا امریکی رئپر ڈرون سے شام میں دو برطانوی مسلمان جنگجوئوں کی ہلاکت۔یہ امریکی ڈرون برطانوی افواج کے زیر ِا ستعمال تھا۔
جس دوران ہم پاکستان میں امریکی ڈرون طیاروںسے انتہاپسندوں (اور گاہے گاہے سویلینز) کی ہلاکت کے عادی ہوچکے ہیں، ڈیوڈ کیمرون حکومت نے اس ہتھیار کو یہ سوچ کر اپنے ہی شہریوں کے خلاف استعمال کر ڈالا کہ وہ برطانیہ پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ فی الحال ایسے کسی منصوبے کی تفصیل سامنے نہیں آئی اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ حکومت کو اس منصوبے کی بھنک کس طرح پڑی تھی، تاہم ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے پاس کچھ ایسے دہشت گردوں کی فہرست موجود ہے جنہیں ہلاک کیا جائے گا۔ ان کا تعلق زیادہ برطانیہ سے ہی ہوسکتا ہے۔ ایسی ہی ایک فہرست امریکہ کے پاس بھی ہے، فرق یہ کہ امریکی فہرست بہت طویل ہے اور اس میں پاکستان، افغانستان، شام، یمن، صومالیہ اور عراق سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوںکے نام شامل ہیں۔ اوباما انتظامیہ نے ڈرون طیاروں کے استعمال میں بے حد اضافہ کردیا۔ 2001ء میں امریکہ کے پاس صرف 80 ڈرون طیارے تھے، اب یہ آٹھ ہزار کے قریب ہیں۔ فی الحال جو چار ممالک اس متنازع ہتھیارکو استعمال کرتے ہیں، وہ امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور پاکستان ہیں۔
انسانی حقوق کے نمائندوں اور وکلا کی طرف سے اس ہتھیار، جسے استعمال کرنے والا شخص ہلاکت گاہ سے بہت دور ہوتا ہے، پر اٹھائے جانے والے زیادہ تر اعتراضات کی بنیاد اخلاقی اور قانونی اصولوں پر ہے۔ تاہم دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اب اس کے سٹریٹیجک استعمال پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں میں القاعدہ اور دیگر جہادی تنظیموں کے سیکڑوں دہشت گردانجام کو پہنچے۔ اس کے باوجود اس کی مخالفت میں چلنے والی تحریک کمزور نہیں ہوئی۔ امریکی ناقدین ان کے استعمال کو ''گھاس کاٹنے‘‘ کے عمل سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جتنی بار مرضی گھاس کاٹ لیں، یہ پھر اُ گ جائے گی۔
ریٹائرڈ امریکی جنرل سٹینلے میک کرسٹل، جنھوں نے 2003ء سے لے کر 2008ء کے درمیان افغانستان میں سپیشل فورسز کی قیادت اور اس کے بعد 2009-2010ء میں تمام افغان آپریشنز کی کمان کی، نے2010ء میں ڈرون طیاروں کے موضوع پر بات کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا۔۔۔'' اس کے استعمال میں تکبر کا تاثر ملتا ہے ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک علاقے کے لاچار افراد پر آسمان سے ہلاکت خیز ہتھیار پھینکا جاتا ہے جبکہ فائر کرنے والا شخص بہت دور ہونے کے باوجود وہاں سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اس منفی تاثر کی وجہ سے آپ رائے عامہ کو اس کے خلاف کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف اسے روایتی جنگ کی وجہ سے جنم لینے والے مہیب مسائل کا آسان حل سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح انسانی ذہن میں جنگ کا تصور تبدیل ہورہا ہے۔ ‘‘
تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہم ڈرون طیاروں کے مقابلے میں بالکل بے بس نہیں تھے۔ یہ طیارے بہت آہستہ پرواز کرتے ہیں اور انہیں ہماری فضائیہ کے تربیتی طیارے بھی گراسکتے ہیں۔ تاہم ہماری حکومتیں اس جرأت کے مضمرات جانتی تھیںکہ اس کا مطلب امریکہ کے ساتھ براہ ِ راست محاذکھولنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ اور ایک حوالے سے، ہمارے حکمران امریکی ڈرون حملوں کے بارے میں ''نرم گوشہ‘‘بھی رکھتے ہیں۔ تاہم کچھ حکومتیں، جیسا کہ صومالیہ، یمن اور شام سر پرمنڈلانے والے ان طیاروں کے مقابلے میں بالکل بے بس ہیں۔ اس طرز ِحرب پر ایک اور اعتراض یہ کیا جاتا ہے یہ ویڈیو گیم جیسی ایک کارروائی لگتی ہے کیونکہ ہلاک کرنے والا شخص ہزاروں میل دور ہوتا ہے اور وہ غیر جذباتی انداز میں بٹن دبا کر دشمنوں پر میزائل برساتا ہے۔ تاہم یہ اعتراض تو پھر بی باون بمبار طیارے پر بھی کیا جاسکتا ہے جس میں پائلٹ پچاس ہزار فٹ کی بلندی پر ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک خاطر خواہ فاصلہ ہے۔ بہرحال بہت سے امریکی ڈرون آپریٹرز نے اپنے کام سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ وہ اس ذہنی دبائو کو برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ ان کے دبائے ہوئے بٹن کے نتیجے میں ہزاروں میل دور افراد ہلاک ہو جائیں ۔
چند سال پہلے میں نے خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹری سے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے موضوع پر بات کی ۔ اُن کا کہنا تھا کہ فاٹا سے دور رہنے والے لوگ اس پرزیادہ مشتعل ہیں جبکہ فاٹا کے لوگ امریکی کاوش کو سراہتے ہیں کیونکہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں اُن پر جبر کرنے والے انتہا پسند اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔ یہ بات اب تک ثابت ہوچکی ہے کہ ہونے والے ملٹری آپریشنز میں وہ واحد چیز جس سے انتہا پسند خائف تھے، وہ ڈرون ہی تھے کیونکہ اس امریکی ہتھیار کا اُن کے پاس کوئی توڑ نہ تھا۔ایک اور وجہ جس نے جدید جنگوں میں ڈرون کی افادیت بڑھادی ہے ، وہ یہ کہ اس نے دشمن کے علاقے میں جاکر لڑنے والے والے سپاہیوں اور پائلٹوںکی جانوں کو لاحق خطرے کو ختم کردیا ہے۔ اب دشمن کے علاقے میں دستے بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی تاثر ملتا ہے کہ حکومت ہمہ وقت انتہا پسندوں کے تعاقب میں ہے، گویا کچھ کررہی ہے۔ افغانستان میں نیٹو افواج کو طالبان کے ہاتھوں جانی نقصان برداشت کرنا پڑرہا تھا۔ پاکستانی حکومت نے امریکی فورسز کو انتہا پسندوں کا تعاقب کرتے ہوئے اپنے علاقے میں آکر کارروائی کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا، اس لیے امریکہ کے پاس ان طیاروں کے استعمال کا جواز نکلتا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی برسوںتک ڈرون بلوچستان کے کسی ائیرپورٹ سے پرواز کرتے تھے۔
اخلاقی اور قانونی پہلو ایک طرف، ڈرون ٹیکنالوجی اتنی موثر ہے کہ سیاست دان اور جنرل اسے نظر اندا ز نہیں کرسکتے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ تمام عسکری مسائل کا حل نہ ہو لیکن ان کا استعمال وہاں یقینی طور پر بہت فائدہ مند ہوگاجہاںزمینی دستوں کے بھاری جانی نقصان کا خدشہ ہو۔ تاہم دی گارڈین میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں سمین جنکنز (Simon Jenkins) ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ کوئی جنگ بھی صرف فضائی قوت سے نہیں جیتی جا سکتی۔ دور ِحاضر میںشام اور لیبیا میںکی جانے والی فضائی کارروائیاں ظاہر کرتی ہیں کہ فضائی قوت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ فتح کے لیے آپ کو زمینی دستوں کو متحرک کرنا پڑتا ہے۔ مشرق ِوسطیٰ میں مغربی ریاستیںزمینی دستے بھیجنے سے گریزاں ہیں۔ ایک عرب ملک کی فورسز یمنی شہریوں کو ہلاک کرنے میںتو بہت مہارت دکھارہی ہیں لیکن ان کی حربی تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ وہ صرف اپنے شہریوں کے خلاف ہی شیر ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی آخرکار ایران اور روس سے بات کررہے ہیں۔