تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     21-09-2015

وہ کون؟

سینیٹ آف پاکستان کے فورم کو شریف سرکار نے سیٹی بجانے(Whistle Blowing)کے لئے استعمال کیا‘ لیکن نواز حکومت کو در پیش خطرات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وزیرِ اعظم کو خود بولنا پڑا۔ فرمایا کہ''وہ‘‘ مجھے حکومت سے نکال کر خود بیٹھنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی حسبِ عادت کہہ دیا، حکومت کو خطرہ ہے۔ چیئرمین سینیٹ کامریڈ رضا ربانی نے جمہوریت کو ڈانواں ڈول قرار دیا۔ دونوں بیانوںکا مطلب اور ٹائمنگ حسبِ اِتفاق ملے ہوئے ہیں۔ حسبِ ضرورت یا حسبِ انتظام ، یہ ملین ڈالر کا سوال ہے، جس کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ موجودہ حالات میں جمہوریت سے کیا مراد ہے؟ بھائی، بہن، بیٹا، داماد، سالے، بہنوئی، بھانجے پھر ان کے سالے، بہنوئی وغیرہ! ایسا ٹولہ ہر برسات کے بعد ہر سڑک کے نئے ٹھیکے مانگتاہے۔ جن کا قبضہ ملک کے دو میدانوں میں100 فیصد پکا ہو چکا ہے۔ پہلا پاکستان کی معیشت ، دوسرا پاکستان کی پارلیمنٹ۔ عوام کے لئے آئین کہتا ہے، ہر شخص کو اس کی تعلیم اور اہلیت کے مطابق نوکری دو۔ سیاست کا اگلا دروازہ جمہوریت نے عوام کے لیے بند کر رکھا ہے۔ پچھلے دروازے سے کیا ہو رہا ہے؟ اس کا معمولی سا ثبوت وفاق کا ایک ادارہ ہے، جس میں سرکاری خرچ پر ذاتی کاروبار چلانے والا وزیر پہنچا۔ ایچ آرکے سربراہ سمیت کل اسامیوں کی تعداد پوچھی، پھر نوکریوں کی‘ اسامیوں کی فہرست اُٹھائی، اپنے بیگ میں ڈالی اورکہا اہل اُمیدواروںکی لِسٹ میں بھیجوںگا، آپ ٹیسٹ اورانٹرویوکر لیں۔ اس جمہوریت میں صحت کے شعبے کی فتوحات کی فہرست بڑی طویل ہے۔ پہلے کھانسی کا جعلی شربت آیا‘ پھر دل کے مریضوں کے لیے دوائیوں کے نام پر موت بانٹی گئی۔ پوٹھوہارکی بچیوں کے سکولوں میں مرحلہ وار اٹک، پھر جہلم اور بعد ازاں ڈومیلی میں بچہ کُش سپرے کیا گیا۔ یہ ساری واردات اس صوبے میں ہوئی جس کے لیڈروں کی تصویر ڈینگی کا سپرے کرنے والی گاڑیوں پر ڈینگی مچھروںکے ساتھ چھاپی جاتی ہے۔ یہ وہی جمہوریت ہے جس میں اسّی ہزار سرکاری سکولوں والے صوبے میں مائیں سکول کی بھاری فیس کے خلاف ریلیاں نکالنے پر مجبور ہیں۔ صدرِ پاکستان نے اس صورتِ حال پر لاہور کے دانشوروں کی ایک تازہ میٹنگ میں خوب پھول برسائے۔ صدرِ ممنون نے کہا، پیسے کہاں سے لائیں، تعلیم کا بجٹ چھ فیصد کرنے کے لئے خزانے میں پُھوٹی کوڑی بھی نہیں۔ ایک اہلِ دل نے صدر سے مکالمہ کیا۔ صدرکو بتایا گیا، میٹرو بنانے کے لئے اربوں کھربوں روپے کے ڈھیر ہیں لیکن تعلیم کے شعبے کے لئے چھ فیصد بجٹ دینے سے خزانہ خالی ہو جائے گا! آئین میں1973ء سے ہی تعلیم کے شعبے کو بنیادی اہمیت دی گئی، لیکن یہ شعبہPrinciples of the policy of the stateیعنی ریاست کے رہنما اصول میں ڈالا گیا۔ 1973ء کا آئین کہتا ہے کہ رہنما اصول کو اِنفورس نہیں کیا جا سکتا۔ اس مشکل کا حل نکالنے کے لئے سال2010ء میں جب میں وزیرِ قانون تھا تو بنیادی حقوق میں ایک انقلابی اضافہ کیا اور پاکستان کے دستور میں تعلیم کے حق کے حوالے سے غریب عوام کو آرٹیکل 25-Aکے ذریعے ریاست نے یہ گارنٹی دی:
25A. The State shall provide free and compulsory education to all children of the age of five to sixteen years in such manner as may be determined by law.
ترجمہ:'' یہ ریاست کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ مفت اور لازمی تعلیم اُن بچوں کو فراہم کرے جن کی عمر پانچ سال سے لے کر سولہ سال کے درمیان ہے، اس مقصد کے حصول کے لئے قانون سازی کے ذریعے طریقہِ کار وضع ہو‘‘۔
آج یہ بنیادی حق پانچ سال پرانا ہو چکا ہے، لیکن ابھی تک میگا پروجیکٹ اور میگا کرپشن والی جمہوریت نے قوم کے معصوم بچوں کا حق ڈنکے کی چوٹ پر مار رکھا ہے۔ اربوں کھربوں روپے سرمایہ داری، جاگیرداری، چوربازاری کے گماشتوں کے لئے مخصوص ہیں۔ قومی وسائل میں عام آدمی کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جاتا۔ 
اب آتے ہیں ملین ڈالرکے سوال کا جواب ڈھونڈنے کی طرف کہ وہ کون ہے جس نے جمہوریت کو اتنا ٹرخادیا کہ بے چاری ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے بل پوج گئی۔ اس کا ایک جواب یہ ہو سکتا ہے کہ بیرونی طاقت ہماری جمہوریت کو ڈرا رہی ہے۔ وہ طاقت علاقائی ہو سکتی ہے یا عالمی۔ اگر حکومت کو ڈرانے والا ایشیائی اداکار ہے تو تب بھی، عالمی فنکار ہے جب بھی، میں اُس کی مخالفت کر سکتا ہوں۔ لیکن اگر کوئی قومی ادارہ بڑے چور پکڑنے کے لئے جمہوریت کی چارپائی کے نیچے ڈانگ پھیر رہا ہے تو پھر قوم کوچوروں سے کوئی ہمدردی نہیں ہو گی، اس لئے کہ کہیں قوم کے اثاثوں کی لوٹ سیل کا لنڈا بازار لگا ہوا ہے اورکہیں لوگوں کی کھال کھینچنے والا ٹیکس اور قرضہ خاندانی مقاصد کے لیے خرچ ہو رہا ہے۔ مجھے کم ازکم کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہماری قوم کی قیادت شیرکے ہاتھ میں ہے اور شیر شیر ہوتا ہے،جدّہ میں ہو یا اٹک میں۔
وزیراعظم نے جس دلیری سے جمہوریت کے خطرے کا الارم بجوایا ہے، اسی دلیری کے ساتھ قوم کے اس سوال کاجواب دے دیں'' وہ کون ہے‘‘۔کچھ لوگوں کو رات میں چلنے کی عادت ہوتی ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت خود ہی چل چلاؤ کا پروگرام بنا بیٹھی ہے۔کچھ دوسروں کو ڈراؤنے خواب بھی آتے ہیں۔ اگر وزیراعظم نے ایسا خوفناک خواب دیکھا ہے تو وہ اس کی تعبیر کسی درباری مولوی سے پوچھ لیں۔
ایک بات طے ہو چکی ، جدہ کے مسافروں کا رخصتی والا دروازہ بند ہے اور مڈل ایسٹ کے میزبان موج میلے میں نہیں‘ جنگ میں مصروف ہیں۔ لہٰذا اس مرتبہ عرب ملکوں کے جہاز خالی نہیں، فوجیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ 1999ء کے بعد پہلی دفعہ شیر پسینے میں نہاگئے۔ اللہ جانے یہ ٹھنڈا پسینہ ہے،گرم پسینہ ہے یا پھر گرما گرم ۔ اور پسینہ آیا کس کی وجہ سے، وہ کون بتائے گا! 
پہلے اس نے ''مُس‘‘ کہا‘ پھر ''تَق‘‘ کہا پھر ''بل‘‘ کہا 
اس طرح ظالم نے، ''مستقبل‘‘ کے ٹکڑے کر دیئے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved