تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     21-09-2015

سولر پلانٹ‘ ایل این جی کا جہاز اور نندی پور پراجیکٹ

اب اسے بدنصیبی کہیں یا بدنیتی؟ میاں صاحبان کے بنائے گئے بجلی گھروں سے بجلی کم پیدا ہو رہی ہے اور بدنامی زیادہ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ پیدا ہونے والی بدنامی کے پیچھے بدنیتی بھی ہے اور بدنصیبی بھی۔ بدنیتی یوں کہ‘ مقصد قوم کو اندھیروں سے نکالنے کے بجائے اپنے نمبر ٹانکنا تھا۔ بجلی کی پیداوار سے زیادہ توجہ اس بات پر تھی کہ کچھ ایسا کیا جائے جو نظر آئے‘ جس پر ہمارے نام کا ٹھپہ ہو‘ جو ہمارے نام سے جانا پہچانا جائے۔ اس بدنیتی میں مزید اضافی بدنیتیاں بھی شامل تھیں۔ مثلاً یہ کہ ان پراجیکٹس میں ان کے پیارے بھی نام بنا لیں‘ بلکہ نام کے ساتھ ساتھ اپنا ''کام‘‘ بھی بنا لیں۔ اس ''کام بنانے‘‘ کا مفہوم کافی لچکدار ہے اور اسے کھینچ کر کہیں بھی لے جایا جا سکتا ہے۔ 
قائداعظم سولر پارک پر تو میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور گزشتہ کالم بھی اسی موضوع پر تھا۔ ساڑھے چھ ہزار ایکڑ پر پھیلا ہوا پراجیکٹ جس میں لگے ہوئے لاکھوں سولر پینل ایک شاندار منظر پیش کرتے ہیں محض اٹھارہ میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے مگر اس کا پھیلائو معترضین پر ایسا رعب و دبدبہ ڈالتا ہے کہ چھوٹے موٹے آدمی کا تو پائجامہ بہرحال گیلا ہو ہی جاتا ہے۔ بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع ریوا میں لگنے والے سات سو پچھتر میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کے حامل سولر پراجیکٹ کی کل لاگت چھ سو پچاس ملین امریکی ڈالروں کے لگ بھگ ہے۔ یعنی فی میگاواٹ تقریباً اعشاریہ آٹھ تین ملین ڈالر۔ جبکہ بہاولپور والے قائداعظم سولر پارک میں سو میگاواٹ کے پراجیکٹ کی کل لاگت (بقول خود میاں شہبازشریف صاحب) 
ایک سو تیس ملین ڈالر اور پیداوار سو میگاواٹ (حقیقت میں تو اٹھارہ میگاواٹ ہے مگر میاں شہبازشریف کا دل رکھنے کے لیے فی الحال سو میگاواٹ ہی تسلیم کر لیتے ہیں۔ ویسے ہم نے بھارتی سولر پراجیکٹ کی بھی تنصیب شدہ استعداد ہی پر سارا حساب جوڑا ہے لہٰذا یہاں بھی یہی اصول اپنایا ہے) ہے۔ اس حساب سے ایک میگاواٹ کی پیداواری لاگت (حسابی کتابی) ایک اعشاریہ تین ملین ڈالر ہے۔ جو بھارتی پلانٹ کی نسبت سو میگاواٹ پیداوار پر دو گنا کے لگ بھگ ہے اور ا ٹھارہ میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کے حساب سے سوا سات ملین ڈالر فی میگاواٹ بنتی ہے۔ اگر اسی حساب کتاب میں بھارتی پلانٹ کی فی میگاواٹ لاگت اس کی تنصیبی پیداواری صلاحیت اور بہاولپور والے سولر پلانٹ کی فی میگاواٹ لاگت بھی اس کی تنصیبی پیداواری صلاحیت سو میگاواٹ پر بھی لگا لیں تو بھارتی پلانٹ کی فی میگاواٹ پیداواری لاگت بہاولپور کے مقابلے میں چالیس فیصد کم ہے۔ یعنی بھارتی حساب سے بہاولپور و لاہور پلانٹ ایک سو تیس ملین ڈالر یعنی تیرہ ارب روپے کے بجائے تراسی ملین ڈالر یعنی آٹھ ارب تیس کروڑ روپے میں لگنا چاہیے تھا۔ صرف اس ایک پراجیکٹ میں ہمارے ہمسایہ ملک کی نسبت چار ارب ستر کروڑ روپے بچائے جا سکتے تھے۔ بہاولپور والا سولر پراجیکٹ ابھی زیر تعمیر ہے اور اسے سومیگاواٹ سے ہزار 
میگاواٹ تک لے جانے کا پروگرام ہے۔ اس حساب سے اس پر سینتالیس ارب روپے کا کھانچہ متوقع ہے۔ جس طرح اس پلانٹ کا ٹھیکہ دیا گیا ہے اس پر یار دوست بڑی کہانیاں سناتے ہیں۔ 
نندی پور پراجیکٹ ایک ایسا طلسمِ ہوشربا ہے کہ اس کے اسرار آہستہ آہستہ اس طرح کھل رہے ہیں اور بہت کچھ کھلنے کے باوجود ابھی بہت کچھ پردۂ غیب میں ہے۔ اس کا ظہور بھی ہوگا لیکن کب؟ اس کا ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ حکومت معاملات کو چھپانے میں‘ سچ کو پوشیدہ رکھنے میں اور حقائق کو دبانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ خدا خوش رکھے ہمارے ملتانی مخدوم سید یوسف رضا گیلانی کو‘ جو کرتے تھے تقریباً چوک میں کھڑے ہو کر کرتے تھے۔ جو لیتے تھے عوام الناس کو ممکنہ حد تک اطلاع پہنچانے کے بعد لیتے تھے۔ کمیشن ایجنٹ ایسے بڑبولے کہ مال پکڑنے سے پہلے دہائی ڈال دیتے تھے۔ احمق اس قدر کہ اخبار نویسوں کو پہچانے بغیر ان سے براہ راست سودے بازی کی باتیں کرتے تھے۔ بھولے اتنے کہ دوست دشمن کی پہچان کیے بغیر ایڈوانس پکڑ لیتے تھے۔ ایک طرف ''شفافیت‘‘ کا یہ عالم تھا کہ ہر چیز‘ ہر حرکت اور ہر سودا سب کو صاف نظر آتا تھا اور ادھر رازداری کا یہ عالم ہے کہ جو لوگ ایک پنجابی محاورے کے مطابق ''چٹے دن میں‘‘ وزیراعظم کے ساتھ جہاز پر چڑھ کر سرکاری دوروں پر ان کے ساتھ گئے ہیں‘ ان کی فہرست نہیں مل رہی۔ ان کے نام کا پتہ نہیں چل رہا اور ایل این جی کا پورا جہاز بیچ دیا‘ نہ کسی کو قیمت خرید کا پتہ ہے اور نہ قیمت فروخت کا۔ درمیانی فرق کس کی جیب میں گیا کسی کو معلوم نہیں۔ حتیٰ کہ یہ پتہ بڑی مشکل سے چلا ہے کہ خریدار کون ہے۔ 
اس ایل این جی والے جہاز کا قصہ بڑا مزیدار ہے۔ پتہ چلا کہ ایک بحری جہاز کراچی کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوا ہے اور یہ ایل این جی لے کر آیا ہے۔ تب شنید تھی کہ اس ایل این جی سے گیس پر چلنے والے وہ بجلی گھر جو گیس نہ ہونے کے باعث بند پڑے ہیں چلائے جائیں گے۔ میری اطلاعات کے مطابق سفائر‘ ہالمور (Halmore) اورئینٹ اور سیف پاور گیس نہ ہونے کی وجہ سے بند تھیں۔ کیپکو کی وہ ٹربائنیں جو گیس سے چلتی ہیں بند پڑی ہیں۔ گیس نہ ہونے سے گدو پاور سٹیشن بند پڑا ہے۔ چار سو سینتالیس میگاواٹ بجلی کا پیداواری یونٹ صرف اس لیے بند پڑا ہے کہ اس کی گیس ادھار پر ایک کھاد فیکٹری کو دی گئی تھی اور ابھی تک یہ گیس وہ کھاد فیکٹری استعمال کر رہی ہے۔ صرف گیس نہ ہونے کے باعث آٹھ سو چالیس میگاواٹ استعداد والے چار پلانٹ جو لاہور کے اردگرد واقع ہیں بند پڑے ہیں‘ ان میں سے دو پلانٹ تیل پر دو سو دس میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ فیصل آباد کا گیس تھرمل پاور سٹیشن بھی دو سو دس میگاواٹ کا ہے وہ بھی بند پڑا ہے۔ اندازاً دوہزار میگاواٹ کے لگ بھگ بجلی صرف گیس نہ ہونے کے باعث ملکی پیداوار میں شامل نہیں ہو رہی اور سرکار نے ایل این جی کا جہاز ان بند کارخانوں کو چلانے کے بجائے فاطمہ فرٹیلائزر والوں کو بیچ کر نوٹ کھرے کر لیے۔ نفع چند پیادوں کی جیب میں چلا گیا اور بند کارخانے بند پڑے رہے کہ ان کے چلنے کی صورت میں قوم کو تو راحت مل سکتی تھی مگر کاروباری حکمرانوں کو ذاتی طور پر کوئی فائدہ نہیں تھا۔ 
نندی پور کا قصہ بڑا عجیب و غریب ہے۔ حکومت اب تک صرف ایک رولا مچا رہی ہے کہ سابقہ حکومت نے اس پلانٹ کی مشینری روک لی تھی۔ بابر اعوان نے ''معاملات‘‘ طے نہ ہونے پر فائل ڈیپارٹمنٹ میں روک لی تھی۔ مشینری کراچی کی بندرگاہ پر پڑی برباد ہوتی رہی۔ یہ ساری باتیں ٹھیک ہیں لیکن ان ساری باتوں کا اس سے کیا تعلق ہے کہ اپنی مرضی کے پیسے خرچ کرنے‘ اپنی مرضی کی انتظامیہ لگانے اور اپنی مرضی کی تبدیلیاں کرنے کے باوجود پلانٹ پوری طرح چل کیوں نہیں سکا؟ چلنے کے بعد بند کیوں ہوا؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب نہ بڑے میاں صاحب کے پاس ہے اور نہ چھوٹے میاں صاحب کے پاس۔ ویسے اس پلانٹ کی بربادی کے بنیادی ذمہ دار جناب میاں شہبازشریف ہیں کہ انہوں نے اس پلانٹ کے سارے انتظامی معاملات پنجاب حکومت اور خاص طور پر اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے۔ 
ابتدائی طور پر نندی پور پاور پلانٹ کا تخمینہ لاگت تین سو انتیس ملین ڈالر تھا۔ یہ خاص طور پر تیل سے چلنے والے پلانٹ کے طور پر منظور ہوا تھا اور اسی ڈیزائن پر تیار ہوا تھا۔ میاں صاحبان کے ذہن رسا نے اس میں ایک نئی پخ ڈال دی اور سوچا کہ اگر گیس آ گئی (پہلے والوں کو گیس مل نہیں رہی اور دو ہزار میگاواٹ کے لگ بھگ گیس فائر پاور سٹیشن بند پڑے ہیں) تو کیا کریں گے؟ پریشانی اتنی شدید تھی کہ لگتا تھا کل پرسوں ان کو گیس ملنے والی ہے۔ 
(باقی صفحہ 13پر) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved