احتساب ہونا چاہیے مگر احتساب اور انتقام
میں معمولی سا فرق ہے... گیلانی
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''احتساب ہونا چاہیے مگر احتساب اور انتقام میں معمولی سا فرق ہے‘‘ اس لیے ضروری ہے کہ پیپلز پارٹی والے اپنا احتساب خود کریں اور نواز لیگ والے اپنا جبکہ اس پر انتقامی کارروائی کا الزام بھی نہیں لگ سکتا‘ مثلاً میں سابق وزیراعظم ہونے کی حیثیت سے اپنا احتساب خود کروں اور اسی طرح راجہ پرویز اشرف‘ مخدوم امین فہیم‘ رحمان ملک اور میاں منظور وٹو اپنا اپنا احتساب خود کریں تاکہ دودھ کا دودھ ا ور پانی کا پانی ہو جائے اور کسی کے لیے شکایت کا کوئی موقعہ نہ رہے بلکہ جہاں تک خاکسار کا تعلق ہے تو سارا ٹبر ہی اپنا اپنا احتساب کر کے مخالفین کے دانت کھٹے کردے۔ انہوں نے کہا کہ ''زرداری سے پوچھوں گا وہ واپس کیوں نہیں آ رہے‘‘ جبکہ یہ ان کے لیے سنہری موقعہ ہے کہ آ کر اپنا احتساب کر کے مخالفین کی زبانیں ہمیشہ کے لیے بند کردیں اور اس طرح کسی دوسرے کو انتقامی کارروائی کا موقعہ ہی نہ ملے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
کراچی آپریشن کے بعد جرائم میں
70 فیصد کمی آگئی... قائم علی شاہ
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ ''کراچی آپریشن کے بعد جرائم میں 70 فیصد کمی آ گئی ہے‘‘ لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہمارے اور ایم کیو ایم کے سینکڑوں مخلص کارکن بیکار ہو گئے ہیں اور وہ روزگار کی تلاش میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں‘ اس لیے ہم ان کے متبادل روزگار کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں حالانکہ آپریشن کرنے والوں کو خود اس کی طرف متوجہ ہونا چاہیے تھا‘ حتیٰ کہ پرس اور موبائل فون چھیننے والوں کے تو چولہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں حالانکہ اسے یہاں پر باقاعدہ کاروبار اور روزگار کی حیثیت حاصل تھی جبکہ اس میں انتہائی پھرتی اور محنت درکار ہوتی ہے اور اس طرح بہت سے باہُنر نوجوان سڑکوں پر جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں یا جیل کی ہوا کھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام سکون محسوس کر رہے ہیں‘‘ اور جو بدنصیب اس سکون کی وجہ سے بے سکون ہو گئے ہیں ان کے جذبات کا احساس کرنا بھی جمہوری حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں چیئرمین سینیٹ رضا ربانی سے گفتگو کر رہے تھے۔
دہشت گردی کے مکمل خاتمہ میں
وقت لگے گا... احسن اقبال
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''دہشت گردی کے مکمل خاتمے میں وقت لگے گا‘‘ اور لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ اس کا بھی خاتمہ ہو جائے گا جس میں نصف صدی کا عرصہ لگ سکتا ہے جبکہ زندہ قوموں کی تاریخ میں نصف صدی ایک بے حد معمولی عرصہ ہے بلکہ اگر یہ قوم مزید زندہ نکلی تو اس مدت میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے‘ البتہ دہشت گردی کے خاتمہ میں وقت اس لیے بھی لگ سکتا ہے کہ نئے آرمی چیف امید ہے کہ کافی شرافت سے کام لیں گے اور شریف لوگوں کو تنگ کیے بغیر اپنا کام جاری رکھیں گے جس میں زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خا ن حکومتی منصوبوں پر تنقید کرتے ہیں‘ خود کوئی منصوبہ نہیں بناتے‘‘ اور لے دے کہ انہوں نے حکومت کو ناکام کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے جس پر وہ زیادہ محنت سے کام نہیں کر رہے جبکہ انہیں کافی سنجیدگی سے کام لینے کی ضرورت ہے تاکہ اس نیک مقصد میں کامیاب ہو سکیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک تقریب میں شرکت کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
لاہور مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے
اور رہے گا... رانا ثناء اللہ
صوبائی وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''لاہور مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے اور رہے گا‘‘ اگرچہ اب یہ شکرگڑھ اور راجہ گڑھ ہو کر ہی رہ گیا ہے کیونکہ اب اس کو گڑھ بنانے والے آجاسم شریف جیسے حضرات بھی ن لیگ کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں‘ نیز متحدہ مسلم لیگ کے بنتے ہی متعدد ارکان اسمبلی ن لیگ سے چھلانگ لگا کر اس میں شامل ہو جائیں گے جس کے بعد یہ گڑھ بھی نہیں بلکہ گڑھی شاہو قسم کی کوئی چیز ہو کر رہ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''سیاسی موسم بدل رہا ہے‘ پی ٹی آئی کے سربراہ گھر سے نہ نکلیں‘‘ جیسا کہ ماڈل ٹائون کا موسم ایک دم تبدیل ہو گیا تھا‘ اور پولیس مقابلے کے بعد کئی لوگ جان کی بازی ہار گئے تھے جس کا مطلب یہی ہے کہ سیاست میں جان کی بازی لگانی ہی نہیں چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان یقینی شکست سے گھبرا کر بے بنیاد الزام تراشی کر رہے ہیں‘‘ حالانکہ ان کے پاس صحیح الزام لگانے کے لیے بھی شواہد موجود ہیں لہٰذا انہیں اپنا قبلہ درست کر لینا چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
توسیع کا معاملہ
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو توسیع دینے کے موضوع پر بحث میں کافی گرما گرمی آ گئی ہے اور اب تو کھل کر اس تجویز کے حق میں کالم بھی شائع ہو رہے ہیں اور یہ محض صاحبِ موصوف کی کارگزاری کے حوالے سے ہے جس کا مظاہرہ انہوں نے دہشت گردی اور اس سے متعلقہ کرپشن کے خاتمے کے سلسلے میں کامیاب کوششوں سے کیا ہے؛ چنانچہ خیال یہی ہے کہ اگر انہیں اس کام کے لیے مزید مہلت میسر آ جائے جس کی کہ موجودہ حالات میں ضرورت بھی ہے تو اس کارِ خیر کو منطقی انجام تک پہنچانے کے یقینی امکانات بروئے کار آ سکتے ہیں۔ جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو وزیراعظم ٹھنڈے پیٹوں کبھی بھی اس پر صاد نہیں کریں گے بلکہ وہ تو یہ میعاد ختم ہونے کا انتظار بلکہ اس کے لیے دن گن رہے ہیں اور اگلے چند ماہ انہیں اسی اضطراب میں گزارنا پڑیں گے تاوقتیکہ ان پر عوام کی طرف سے اتنا دبائو نہ آ جائے کہ وہ اس پر مجبور ہو جائیں لیکن اس کی امید ان سے کم ہی رکھنی چاہیے کیونکہ وہ ہمیشہ صحیح وقت پر غلط فیصلہ کرنے کے لیے مشہور ہیں۔
آج کا مطلع
اس کی ہر طرز تفافل پر نظر رکھتی ہے
آنکھ ہے دل تو نہیں‘ ساری خبر رکھتی ہے