تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     21-09-2015

سرکاری ہسپتالوں کی صحتِ عامہ

ہر سال عید الاضحٰی کی آمد پر شہروں میں خصوصی میڈیکل کیمپ لگائے جاتے ہیں۔ یہ کیمپ ہمارے لیے ہوتے ہیں نہ آپ کے لیے۔ یہ اہتمام قربانی کے جانوروں کی صحت کا معیار بلند رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے! قربانی کے جانوروں کی عمومی صحت کا اس قدر خیال رکھنا بہت سوں محض عجیب ہی نہیں لگتا بلکہ بہت حد تک احساسِ کمتری بھی پیدا کرتا ہے! ان حیوانی میڈیکل کیمپس کو دیکھ کر انسان سوچتا رہ جاتا ہے کہ وہ زمانہ کب آئے گا جب اس کی صحت کے بارے میں بھی سوچا جائے گا! 
مرزا تنقید بیگ کہتے ہیں کہ ہمیں جانوروں کے لیے قائم میڈیکل کیمپ دیکھ کر زیادہ مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہمارے اور آپ کے لیے لگائے جانے والے کیمپ بھی خاصے حیوانی انداز ہی کے ہوتے ہیں۔ انسانی میڈیکل کیمپ کا ماحول بھی ایسا ہی ہوتا ہے جیسے حیوانوں کا چیک اپ کیا جارہا ہو! 
ایک خبر یہ آئی ہے کہ کسی ڈاکٹر نے حیوانات کے لیے بنائی جانے والی ادویہ انسانوں میں چلادیں! ہم نے انسانوں سے روا رکھے جانے والے اس سلوک کی اطلاع جب مرزا کو دی تو کہنے لگے : ''اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو اس ڈاکٹر کے خلوص کو سلام کرتے بنے گی۔‘‘ 
ہم نے حیران ہوکر سبب پوچھا تو بولے : ''میاں! یہ بھی کیا کم ہے کہ انسانوں کو جانوروں والی ادویہ دی جارہی ہیں۔ جانور خاصے قیمتی ہوتے ہیں اور بالخصوص قربانی کے جانور۔ ان کی صحت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے یا رکھنا پڑتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ انہیں دی جانے والی ادویہ بھی خاصی معیاری ہوتی ہیں۔ اگر کسی انسان کو جانوروں کے لیے مخصوص ادویہ دی گئی ہیں تو اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ڈاکٹر کو اس کی صحت کا بھی خیال آ ہی گیا!‘‘ 
ہم نے مزید حیرانی ظاہر کی کہ ایسی حالت میں تو انسان کے جسم پر عجیب و غریب اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ مرزا نے ترکی بہ ترکی جواب دیا : ''یہ بھی تمہاری خوش فہمی ہے، بلکہ غلط فہمی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ آج کا انسان درحقیقت جانور سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ زمانے بھر کی تبدیلیوں کو جھیلتے جھیلتے اس کا مزاج ایسا ہوچکا ہے کہ اب اس کے سر پر آسمان بھی ٹوٹ پڑے تو کچھ خاص اثر قبول نہیں کرتا! ویسے بھی ہمارے ہاں حکومتی اور ریاستی کوششوں سے انسان اور جانور کو ایک مقام پر لایا جاچکا ہے۔ دونوں ایک گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں، ایک چھت کے نیچے رہتے ہیں۔ ایسے میں وہ یوں شیر و شکر ہوچکے ہیں کہ ایک دوسرے کی ادویہ جھیل سکتے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ جانوروں کی ادویہ ملنے پر انسان کو رب کا شکر گزار ہی ہونا چاہیے کہ کسی صورت معیاری دوا نصیب تو ہوئی!‘‘ 
ہم سے تو مرزا کی باتیں ہضم نہ ہوسکیں۔ ہم نے جانوروں کے ایک ڈاکٹر سے رابطہ کرکے یہ قصہ بیان کیا تو اس نے کچھ اور ہی کہانی سنائی۔ سلوتری یعنی جانوروں کے ڈاکٹر کا کہنا تھا : ''میڈیا پر جب یہ خبر چلی تو کئی جانوروں کے منہ اتر گئے۔ میں چونکہ جانوروں کا ڈاکٹر ہوں اس لیے ان کی بے زبانی سمجھتا ہوں۔ جب میں نے جانوروں سے اداسی کا سبب پوچھا تو وہ بے زبانی کی زبان سے کہنے لگے کہ ہماری ادویہ انسانوں کو نہ دی جائیں، آخر ہماری اور ہماری ادویہ کی بھی کچھ عزت ہے! آپ کو اس بات پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔ جانوروں میں عزتِ نفس کا احساس بہت شدید ہوتا ہے! آپ نے دیکھا نہیں کہ جب تک انہیں موزوں خوراک نہیں ملے وہ خوراک کے برتن پر منہ نہیں مارتے۔ اور ہم انسان اشیائے خور و نوش کے نام پر پتہ نہیں کیسی کیسی انٹ شنٹ چیزیں بخوشی معدے میں انڈیلتے رہتے ہیں!‘‘ 
ہم سمجھے مرزا کی طرح جانوروں کا یہ ڈاکٹر بھی ہم سے تفریح لے رہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جانوروں کی ادویہ انسانوں پر استعمال کرنا ہمارے نزدیک بہت عجیب بات ہے۔ اب اگر کوئی اس معاملے سے تفریح کشید کرنا چاہے تو اس کی مرضی۔ شیر اور بکری کے ایک گھاٹ پر پانی پینے کا قصہ ہم نے پڑھا ہے مگر انسانوں اور جانوروں کی بیماریوں کو ایک سی دوا سے ٹھکانے لگانے کا تجربہ ہمارے لیے بہت حیرت انگیز ہے۔ ہمیں انسانوں اور جانوروں کو یوں ایک پیج پر لانا قطعی پسند نہیں! ہمارے لیے تو یہ تصور ہی سوہانِ روح ہے کہ ہمیں وہ انجکشن لگایا جائے جو بھینسوں کو لگایا جاتا ہے! آج تو یہ ہوا ہے کہ جانور کی دوا کو انسان پر آزمایا گیا ہے۔ کل کو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان ادویہ کے لیے انسانوں کو جانوروں کی طرح لائے جانے پر اصرار کیا جائے یعنی گلے میں رسّی اور تن پر لباس ندارد! یہ اکیسویں صدی ہے، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ 
ایک زمانے سے ہم صحت کی بنیادی سہولتوں کو رو رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کسی کو اس بات پر اعتراض ہو کہ اور بہت سے معاملات میں کون سی بنیادی سہولتیں میسر ہیں جو صحتِ عامہ کی بنیادی سہولتوں کا ماتم کیا جائے۔ عرض ہے کہ ہم دوسرے بہت سے معاملات میں حکومتی مشینری کی طرف سے نظر انداز کئے جانے کا بھی ماتم کرتے آئے ہیں! 
ہسپتال صحتِ عامہ کے لیے ہوتے ہیں مگر طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہسپتالوں کی صحتِ عامہ کا معیار انتہائی پست ہے! اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ افاقے کی امید دم توڑتی جارہی ہے۔ بہت سے لوگ بیمار تو بہت زور سے پڑتے ہیں مگر جب یہ سنتے ہیں کہ انہیں کسی سرکاری ہسپتال میں داخل کرنے کی تیاری کی جارہی ہے تو از خود نوٹس کے تحت صحت یاب ہو جاتے ہیں اور قسمیں کھا کھاکر اہل خانہ کو یقین دلاتے ہیں کہ کوئی بیماری ویماری نہیں، وہ بس یونہی مذاق کر رہے تھے! 
بہت سوں کا تو خیال ہے کہ جب سرکاری ہسپتالوں کی یہ ''تاثیر‘‘ ہے تو پھر ان کا نظام درست کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ سرکاری ہسپتال صرف خوفزدہ کرکے صحت مند نہیں کرتے بلکہ کبھی کبھی کسی کا کامیاب علاج کرکے اسے خوفزدہ اور وسوسوں میں بھی مبتلا کردیتے ہیں! کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی سرکاری ہسپتال میں ذرا تیزی سے صحت یاب ہوجائے تو طرح طرح کے خدشات ذہن میں ابھرتے ہیں۔ بیماری نے اتنا نہیں الجھایا ہوتا جتنا صحت یابی الجھا دیتی ہے! 
ہم نے ایک سرکاری ہسپتال کے کرتا دھرتا سے پوچھا کہ آخر سرکاری ہسپتالوں میں ایسا کیا ہے کہ لوگ اس قدر خوفزدہ اور مبتلائے تشویش رہتے ہیں۔ کہنے لگے : ''بات اتنی سی ہے کہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں اپنی حلال کی کمائی کو مالِ مفت دل بے رحم کے سے انداز سے لٹانے کی عادت سی پڑگئی ہے لوگوں کو۔ اب اگر کوئی سرکاری ہسپتال بر وقت اور موثر علاج کردے تو لوگ شک کرنے لگتے ہیں کہ کہیں ڈاکٹرز نے کوئی شارٹ کٹ تو نہیں لگادیا! یعنی یہ کہ کچھ دن بعد بیماری دوبارہ عود تو نہیں کر آئے گی، بلکہ کود کر پھر سامنے تو نہیں آجائے گی!‘‘ 
ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ آپ لوگ بھی عوام کی نفسیاتی الجھنیں کیوں بڑھاتے ہیں۔ جب لوگ سرکاری ہسپتالوں میں دیر سے صحت یاب ہونے کا مائنڈ سیٹ لے کر آتے ہیں تو آپ کو کیا پڑی ہے کہ انہیں تیزی سے چلتا پھرتا کردیں؟ اس پر انہوں نے تکلف کی پوٹلی ایک طرف رکھی اور صاف صاف الفاظ میں دل کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیا۔ ''بھائی صاحب! بات یہ ہے کہ ہم ایسا جان بوجھ کر نہیں کرتے۔ ہمیں بھی معلوم ہے کہ تیزی سے صحت یاب ہونے کی صورت میں لوگ، مولانا فضل الرحمٰن کی طرح، تحفظات کا شکار ہوجاتے ہیں! اب اگر سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹرز چند ادویہ آزمائیں اور ان میں سے ایک دو کارگر ثابت ہوجائیں تو اس میں بے چارے ڈاکٹرز کا کیا قصور!‘‘
سرزمین پاک پر صحت عامہ کی سہولتوں کے فقدان کا ایک بہتر اور خاصا ''بچت انگیز‘‘ علاج تو یہ ہے کہ انسان ہی بیمار نہ پڑے! اور اگر بیمار پڑ ہی جائے تو اپنے ذہن کو جلد از جلد صحت یابی کے لیے آمادہ کرے۔ رہ گیا سرکاری ہسپتالوں کی صحتِ عامہ کا مسئلہ تو ہمیں کامل یقین ہے کہ ہمارے خدشات برقرار رہیں گے یعنی ان ہسپتالوں کے پرنالے وہیں گرتے رہیں گے جہاں اب تک گرتے آئے ہیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved