تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     21-09-2015

ایوان صدر میں اردو

کوئی چار پانچ مہینے ہوتے ہیں کہ مجیب الرحمن شامی صاحب کی قیادت میں کچھ صحافیوں کے ہمراہ صدر مملکت جناب ممنون حسین صاحب سے ملاقات ہوئی۔ صدر صاحب ہم سے یہ جاننے کے خواہشمند تھے کہ ملک میں اسلامی و مشرقی اقدار کے فروغ کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے۔ شامی صاحب نے اپنے مخصوص مدلّل انداز میں گفتگو کا آغاز کیا اور پھر باری باری شمع محفل ہر ایک کے سامنے آتی چلی گئی۔ ہر ایک نے بڑی عمدگی اور شائستگی کے ساتھ اپنے ذہن میں موجود تجاویز صدر صاحب کے سامنے پیش کیں جن پر پر وقتاً فوقتاً صدر صاحب بھی کچھ اضافہ کرتے جارہے تھے۔ مجلس کے تقریباً اختتام پر شامی صاحب نے مائیک بردار شخص کومجھے مائیک دینے کا اشارہ کیا۔ میں نے صدر صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ اگر ایوانِ صدر کا دفتری نظام اردو میںکر دیا جائے تو یہ نہ صرف اسلامی و مشرقی اقدار کی پاسداری ہوگی بلکہ اس اقدام سے ملک کے اندر موجود علمی قابلیتیں نکھر کر سامنے آئیں گی۔ بارگاہِ صدارت میں یہ کہنے کی جسارت بھی کر لی کہ دستور کے آرٹیکل 251 کے تحت اردو کو بطورواحد سرکاری زبان کے نفاذ کو یقینی بنانا صدر مملکت کی آئینی ذمہ داری بھی ہے۔ بات ختم ہوئی تو شامی صاحب نے ایک خاموش تالی بجا کر میری تجویزکی گویا تائید کر دی لیکن صدر صاحب نے ایک زیرک سیاستدان کی طرح اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور مجھے لگا کہ شاید اردوکا معاملہ صدر صاحب کی ترجیحات کی فہرست میں خاصا نیچے ہے۔ 
میں کتنا غلط سوچ رہا تھا، اس کا اندازہ مجھے پچھلے ہفتے یہ جان کر ہوا کہ اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے
آٹھ ستمبر کے فیصلے پرعملدرآمد کے لیے پہلا سرکاری اجلاس برپا ہی ایوانِ صدر میں ہوا۔ اس اجلاس کی جو روداد مجھ تک پہنچی اس کے مطابق صدر صاحب نے ایوانِ صدر کے اعلیٰ افسران کو واضح طور پر بتا دیا کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر من و عن عمل کریں اور اردو کو واحد دفتری و سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کے لیے کام کریں۔ پہلے مرحلے میں یہ طے پایا ہے کہ صدر مملکت جن یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں، ان سے ہونے والی تمام سرکاری خط وکتابت اردو میں ہوگی اور یہ ہدایات یونیورسٹیوں تک بھی پہنچا دی گئیں کہ صدر مملکت کو تمام معروضات اردو میں ہی پیش کی جائیں۔ اس کے علاوہ صدر صاحب نے یہ بھی ہدایت کردی کہ ایوانِ صدر میں، سپریم کورٹ کے دی گئی مہلت کے اندر اندر ہی اردو مکمل طور پر دفتری زبان کے طور پر نافذ کردی جائے۔ پارلیمانی نظام میں اگرچہ صدر انتظامی اختیارات سے محروم ہوتا ہے لیکن اس کی سیاسی و اخلاقی حیثیت اتنی بڑی ہوتی ہے کہ اس کی ہدایات سے صرفِ نظر کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اب اگر ایوانِ صدر دعوت ناموں سے لے کر صدارتی فرامین تک کی زبان اردو کردیتا ہے تو ملک کے دیگر اداروں کو اس کی پیروی کرنا پڑے گی۔ ہوسکتا ہے کچھ کالے انگریز اپنی وہی قابلِ نفرت چالیں چلنے کی کوشش کریں جو وہ 1947ء سے آج تک کرتے آئے ہیں لیکن صدر صاحب اگر یکسو رہیں تو ایک دو مہینوں میں ملک کا معتدبہ کاروبار اردو میں منتقل ہوجائے گا۔ پھر وہ دن بھی آئے گا جب ہماری ریاست ایک اجنبی زبان کی بجائے اپنے لوگوں کو ان کی اپنی زبان میں مخاطب کرنے لگے گی۔ 
ایوانِ صدر میں اردو کا نفاذ بے شک پاکستانیوں کی اپنے ہی ملک میں پائے جانے والے نوآبادیاتی نظام کے خلاف پہلی فتح ہے۔ اردو کی اگلی لڑائی پاکستان پبلک سروس کمیشن سے ہے جو عدالتی فیصلے کے بعد بھی مقابلے کے امتحانات اردو میں کرنے میں ہچر مچر سے کام لے رہا ہے۔ اس نے انگریزی کو ان امتحانات میں لازمی حیثیت دے کر بیورکریسی کو پاکستانی سماج سے کاٹ کر نجانے کس کا تابع بنا رکھا ہے۔ اس کا موجودہ نظام ِ امتحان دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ یہ صرف اس لیے ترتیب دیا گیا ہے کوئی ایسا نوجوان کامیاب نہ ہونے پائے جس کے چال چلن سے لے کر اندازِ فکر تک انگریزی میں نہ ڈھل چکا ہو۔ یہ اس
ملک کے خلاف سازش نہیں تو کیا ہے کہ ایک ایسا نوجوان جو سندھی ، اردو، پشتو، بلوچی، پنجابی، عربی، فارسی میں عالمانہ مہارت رکھتا ہو، انہی زبانوں میں ہر طرح کے علوم کا ابلاغ کرسکتا ہو صرف اس لیے مقابلے کا امتحان نہیں دے سکتا کہ اسے انگریزی نہیں آتی؟ یہ طرفہ تماشا صرف پاکستان میں ہی ہے کہ یہاں وہ شخص جسے یہاں بولی جانے والی زبانوں کا ایک لفظ بھی نہ آتا ہو، نہ صر ف مقابلے کا امتحان دے سکتا ہے بلکہ اس میں کامیاب ہوکر ہمارے سروں پر سوار بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن وہ نوجوان جوایک مدرسے میں سولہ سال پڑھتا رہا ہے، اردو کے علاوہ عربی میں بھی اظہار خیال کی قدرت رکھتا ہے، پاکستانی معاشرے کی حرکیات کا شعور رکھتا ہے اور حالات پر عالمانہ رائے قائم کرسکتا ہے، صرف اس لیے امتحان دینے کا اہل نہیں کہ اسے انگریزی نہیں آتی! پبلک سروس کمیشن روز اوّل سے آج تک دراصل ہمارے بہترین اداروں کے نوجوانوں کو شودر قرار دے کر ریاستی نظام سے دور رکھنے اوردوسرے ملکوں کے گھٹیا اداروں میں چاندماری کرکے آنے والوں کو ہمارے سروں پر بطور حاکم سوار کرنے کے سوا کر کیا رہا ہے؟ اب وقت آگیا ہے کہ یہ ادارہ اپنی اصلاح کرے اور اپنے نظامِ امتحان کو مغربی انداز کی بیوروکریسی کی تشکیل کی بجائے پاکستانی نوجوانوں کے لیے ریاستی نظام میں شمولیت کے دروازے کھولے۔ 
سپریم کورٹ نے دستور کے آرٹیکل 251 کے تحت اردو کو نافذ کرنے کے جو احکامات حکومت کو دیے ہیں ان میں زیادہ معنویت پیدا ہوجائے اگر عدلیہ بھی اپنی بنیادی زبان اردو قرار دے لے۔ فیصلوں کا ترجمہ، قوانین کا ترجمہ یا اصطلاحات کا ترجمہ بے شک کسی
درجے میں اہم ہے لیکن معاف کیجیے گا اردو کی نفاذ کی بنیادی شرط نہیں۔ اردو کے نفاذ کے لیے سپریم کورٹ اپنا کردار فیصلے اردو میں لکھ کر (ترجمہ نہیں) ہی ادا کرسکتی ہے۔ ایک بار سپریم کورٹ نے یہ کام شروع کردیا تو ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے فیصلے اردو میں لکھنے لگیں گی۔ ویسے بھی ہمارے وکلاء و جج صاحبان کے لیے غلط انگریزی لکھنے کی نسبت درست اردو لکھنا کہیں زیادہ آسان کام ہوگا۔ اپنی زبان میں لکھے ہوئے فیصلے ابہام سے پاک ہوں گے، ہر فریق کی سمجھ میں آئیں گے اور ان پر زیادہ اچھے طریقے سے عمل ہوسکے گا۔ سپریم کورٹ اردو میں فیصلے لکھنے کے لیے کوئی مہلت مقرر کرنا چاہے تو ہمیں اس کو ماننے کے سوا چارا نہیں لیکن ہم اتنا تو کہہ سکتے ہیں کہ اردو میں فیصلے لکھنے کے لیے لمحۂ موجود سے بہتر وقت کبھی نہیں ہوگا۔ 
تعلیمی اداروں میں انگریزی کو ذریعہ تعلیم کے طور پر نافذ کرنے کی مجنونانہ کوششوں کی وجہ سے ہماری صوبائی حکومتیں، بالخصوص پنجاب حکومت اردو زبان کے نفاذ میں ایک بڑی رکاوٹ کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ اس نے اپنے قو ل و فعل سے ثابت کیا ہے کہ دستور کا آرٹیکل 251 یا سپریم کورٹ کا فیصلہ اس کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ حکومت عوام کے پیسے سے عوام کے بچوں کو وہ زبان پڑھانے پر مصر ہے جو خود اس کو بھی نہیں آتی۔ اس کی دیکھا دیکھی خیبر پختونخوا اور سندھ کی صوبائی حکومتیں بھی اس کارِ فضول میں اپنا وقت اور ہمارا پیسہ برباد کررہی ہیں۔ صوبائی حکومتوں سے اپنا حق لینے کے لیے شاید ہمیں ان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست لے کر ایک بار پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved