تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-09-2015

کم بخت زمینی حقائق!

کچھ دن ہوئے، وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ قومی معیشت کا طیارہ اب بین الاقوامی معاشی رن وے پر دوڑ رہا ہے اور کسی بھی وقت اڑان بھرے گا یعنی فضا کی خبر لینا شروع کردے گا۔ یہ بیان سُن اور پڑھ کر ہم چونک پڑے۔ بہت سی باتیں ہوتی تو خاصی ناقابل یقین ہیں مگر بڑوں سے منہ سے نکلتی ہیں تو ان کا منہ دیکھتے ہوئے خواہ مخواہ یقین کرنے کو جی چاہتا ہے۔ بات چونکہ اسحاق ڈار کے منہ سے نکلی تھی اس لیے ہم کچھ دیر کو خوش گمانی کی دنیا میں پہنچ گئے اور جو ذہن میں آیا وہ سوچنا شروع کردیا۔ ہمیں ایسی حالت میں دیکھ کر گھر والے سہم جاتے ہیں اور قریب آنے کی کوشش نہیں کرتے! یہ بھی اسحاق ڈار جیسے کرم فرماؤں کی خاص عنایت ہے کہ کچھ دیر کے لیے ہمیں دنیا و مافیہا سے اور اہل خانہ کو ہم سے بے نیاز کردیتے ہیں! 
کچھ دیر تک تو ہم خوش فہمیوں کی وادی میں رہے مگر پھر وزیر خزانہ کے بیان کا نشہ اترنے لگا۔ رن وے پر دوڑنے اور اڑان بھرنے کی تیاری کرنے والی بات نے ہمارے حلق سے اترنے میں کچھ وقت لیا۔ اس مرحلے پر سلیم احمد مرحوم خوب آیا جنہوں نے کہا تھا ؎ 
دیوتا بننے کی حسرت میں مُعلّق ہوگئے 
اب ذرا نیچے اتریے، آدمی بن جائیے! 
ہماری قومی معیشت کا کچھ بھی ایسا ہی حال ہے۔ اس کا مُعلّق ہونا ایسا معاملہ ہے کہ اب کسی کو خیال بھی نہیں آتا اور حیرت بھی نہیں ہوتی! اور حیرت کیوں ہو؟ جب پارلیمنٹ مُعلّق ہوسکتی ہے تو معیشت کیوں ایسی نہیں ہوسکتی؟ 
اگر ہم کچھ دیر کے لیے فرض کر بھی لیں کہ قومی معیشت کا طیارہ بین الاقوامی معاشی رن وے پر دوڑ رہا ہے اور اڑان بھرنے والا ہے تب بھی ذہن چند سوالوں میں ضرور الجھا رہے گا۔ بہت سے کام ہر حکومت کو کرنے ہی پڑتے ہیں اور ان میں دعوے کرنا بھی شامل ہے۔ حکمران اپنے موڈ اور ضرورت کے مطابق کوئی بھی دعویٰ کرسکتے ہیں۔ ایک تو یہ بات ہے کہ انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہوتا اور پھر آپ ہی سوچیے کہ دعویٰ کرنے میں خرچ کیا ہوتا ہے۔ بس ذرا سی زبان ہی تو ہلانی پڑتی ہے۔ اب کیا حکومت اتنا بھی نہ کرے؟ سرکاری اخراجات کم کرنے یعنی سادگی اپنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں میں دعوے غنیمت ہیں جن پر کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ 
ہم اب تک وطنِ عزیز کی جن بہت سی چیزوں کو سمجھ نہیں پائے ان میں قومی معیشت بھی شامل ہے۔ صرف معیشت کے بجائے قومی معیشت ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ معیشت انفرادی بھی ہوتی ہے۔ اور معیشت کی یہ قسم ہمارے ہاں بہ درجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی معاشی حقیقت یہ ہے کہ انفرادی معیشتیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پنپتی ہی جارہی ہیں۔ یہ تمام پنپتی ہوئی انفرادی معیشتیں مل کر اجتماعی یا قومی معیشت کو جنم دیتی ہیں مگر یہ بھی محض سراب ہے، سراسر تھیوری کا معاملہ ہے۔ پریکٹیکل ہوکر سوچیے یعنی معاملے کو عمل کی کسوٹی پر پرکھیے تو قومی معیشت نام کی کوئی چیز پائی نہیں جاتی یا پھر اسے کماحقہ پنپنے کی اجازت نہیں ملتی! 
معیشت کی بات چل نکلے تو ذہن کے پردے پر سب سے پہلے اعداد و شمار ابھرتے ہیں۔ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں جو الجھا وہ پھر کسی کام کا نہ رہا۔ جو اس ''زندہ طلسمات‘‘ میں گیا سلامت واپس نہ آیا۔ اعداد و شمار کے سمندر، بلکہ بحرِ ذخّار میں ہمارے درجنوں بجٹوں کا بیڑا غرق ہوچکا ہے! ہم اپنے انفرادی و ذاتی و نجی بجٹ کی بات نہیں کر رہے بلکہ قومی یا وفاقی بجٹ کا رونا رو رہے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ بنیادی طور پر خزانے سے زیادہ ان مالیاتی وسائل کا وزیر ہوتا ہے جنہیں یارانِ با اختیار باپ کی جاگیر سمجھ کر خرچ کرتے یا لُٹاتے رہتے ہیں۔ وزیر خزانہ کو اس ''نیک‘‘ کام کے گواہ کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ اسحاق ڈار کا معاملہ یہ ہے کہ نواز شریف ان کے بغیر نہیں چل سکتے۔ حکومت چلے یا کھڑی رہے، اسحاق ڈار کی وزارت خزانہ چلتی رہتی ہے۔ جب بھی ن لیگ اقتدار میں آتی ہے، قومی معیشت کی بحالی اور از سرِ نو مستحکم ہونے کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ قومی معیشت کے بحال کو بحال کرنے کے لیے ن لیگ پر لازم ہوتا ہے کہ پہلے اسحاق ڈار کو activate کریں۔ وہ چونکہ مصدّقہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں اس لیے انہیں چارٹر کیے بغیر ن لیگ کی گاڑی آگے نہیں بڑھتی۔ 
جب ہم نے بین الاقوامی معاشی رن وے پر پاکستانی معیشت کے طیارے کے دوڑنے کا سُنا تو تصوّرات کی دنیا میں کھوگئے۔ کیا خوش کن تصور تھا کہ ہم معاشی فضاؤں میں بلند ہوچکے ہیں اور کھڑکی سے جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ آنکھوں کو بھلا لگ رہا ہے۔ ملک کے ایک سرکردہ ٹیکنوکریٹ سے اگر قومی معیشت کی بحالی کا مُژدہ سننے کو ملے تو کون یقین نہیں کرے گا؟ 
مگر جب ہم معیشت کی تصوّراتی فضاؤں میں کچھ وقت گزار کر زمین کی طرف واپس آئے تو دل میںپنپنے والا سارا جوش و خروش سمندر کے جاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ زمینی حقائق وہ ستم ظریف آئینہ ہیں جس میں سب کچھ ویسا ہی نظر آتا ہے جیسا وہ ہوتا ہے۔ سرکاری بیانات، سیاسی توجیہات اور بیورو کریٹانہ دعووں کی مدد سے کسی بھی معاملے کو خواہ کچھ بناکر پیش کیا جائے، خواہ کچھ بتایا جائے، جب حقیقت کی دنیا سے اس کا تصادم ہوتا ہے تو ملمّع ایک رگڑ میں اتر جاتا ہے۔ 
حکومتی مشینری کے پُرزے جو دعوے کرتے ہیں ان میں سے ہر ایک کا مبنی بر حقیقت ہونا بھی لازم نہیں ہوتا۔ اور ہمارے لیے بھی انہیں قبول یا تسلیم کرنا لازم نہیں۔ جو لوگ اخبارات میں قومی معیشت کے استحکام سے متعلق خبریں پڑھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے وہ جب کاغذ کا پُرزہ ہاتھ میں لے کر خریداری کے لیے گھر سے نکلتے ہیں تو قیمتیں سن کر قدم قدم پر اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں! اور کیجیے بھی کیا کہ یہی مقدور ہے۔ مٹھی میں دبے ہوئے نوٹ بھی کیا سادہ و معصوم ہیں کہ کسی سرکاری بیان کو سمجھتے ہیں نہ کسی یقین دہانی پر یقین رکھتے ہیں! 
کاغذ کے پُرزوں کو تو خیر کیا روئیے کہ ان کے پاس دماغ نہیں ہوتا، مصیبت یہ ہے کہ ٹھیلے والے، دکاندار اور دیگر کاروباری افراد بھی حکومت کی بات نہیں سمجھتے۔ لاکھ سمجھائیے کہ وزیر خزانہ نے قومی معیشت کے طیارے کو پرواز کی منزل تک پہنچادیا ہے لہٰذا ان کی بات کا کچھ بھرم رکھتے ہوئے گرانی کی سطح نیچے لائیے مگر کسی کے کانوں پر جُوں نہیں رینگتی۔ سب من مانی پر تُلے رہتے ہیں۔ ہم تو اس عمل کو حکومت، بالخصوص وزیر خزانہ کے فرمودات سے صریح بغاوت کے مماثل گردانتے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ وزیر خزانہ تو رن وے اور پرواز کی باتیں کریں اور اِدھر ہماری قومی معیشت دھکّا اسٹارٹ گاڑی کی طرح ''جہاں ہے، جیسی ہے‘‘ کی تصویر بنی کھڑی اور اَڑی رہے! ہم تو کہیں گے کہ جس طور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا جارہا ہے بالکل اسی طرح وزیر خزانہ کی بات کو غلط ثابت کرنے پر تُلی ہوئی قومی معیشت کو باغی یا غدّار قرار دے کر اس کے خلاف بھی آپریشن کا ڈول ڈالا جائے! 
علامہ کہہ گئے ہیں ؎ 
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی 
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی 
جو کچھ اسحاق ڈار نے کہا ہے اسے محض ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ اِس کے لیے آپ کو دیدۂ دل بھی وا کرنا پڑے گا۔ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ جو کچھ اسحاق ڈار دکھانا چاہتے ہیں اُسے ذرا ''چشمِ تصوّر‘‘ کی آنکھ سے دیکھیے اور پھر بتائیے کہ کیسی حسین دنیا، بلکہ دنیاؤں کا دیدار نصیب ہوتا ہے! 
اور ہاں، زمینی حقائق کا بھی کچھ علاج دریافت کیا جانا چاہیے۔ یہ کم بخت ہر خوش کن دعوے اور دل فریب وعدے کے گلے پر چُھری پھیرنے کے عادی ہیں۔ آخر کب تک زمینی حقائق کی چُھری ہماری آرزوؤں اور اُمیدوں کو ناکامی و نامرادی کے خون میں نہلاتی رہے گی؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved