تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     22-09-2015

بیس روپے کا غصہ

کسی قصبے کا ترکھان شام کو اپنی ورکشاپ بندکرکے معمول کے مطا بق گھر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد ایک سیاہ کوبرا ناگ اس کی ورکشاپ میں گھس گیا۔ کافی دیر وہ ادھر ادھر منہ مارتا رہا۔ اندھیرے میں وہ ترکھان کے نصب کئے گئے مشینی آرے کے قریب سے گزرا تو اس کے لمبے اور تیز دندے اس کی کھال سے ٹکرائے جس سے وہ زخمی ہو گیا۔ گھبرا کر اس نے تیزی سے پلٹ کر زور سے آرے کوکاٹنے کی کوشش کی تو اس کے تیز نوکیلے دند وں سے اس کا منہ بھی زخمی ہوگیا۔ کوبرا ناگ جو پہلے ہی غصے میں تھا، منہ پر لگنے والے نئے زخم کی وجہ سے غصے سے مزید پاگل ہوگیا اور اپنے پورے جسم کو آرے کے گرد لپیٹتے ہوئے اسے پوری شدت سے کسنا شروع کر دیا۔ وہ جیسے جیسے آرے کو کسنے کی کوشش کرتا اسے لگنے والے زخموں کو مزید تکلیف پہنچتی اور وہ مزید غصے میں آکر آرے کو زیادہ زور سے کسنے کی کوشش کرنے لگتا تاکہ اس کا یہ انجانا دشمن دم گھٹنے سے ختم ہو جائے۔ 
اگلی صبح جب ترکھان ورکشاپ میں داخل ہوا تو یہ عجیب و غریب منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس نے شور مچایا تو لوگ اکٹھے ہو گئے۔ انہوں نے ورکشاپ کے اندر جھانک کر دیکھا تو سب گھبرا گئے۔ جو لوگ خالی ہاتھ تھے پیچھے ہٹ گئے۔ منظر کچھ عجیب سا تھا۔ بہت بڑا کالے رنگ کا کوبرا ناگ آرے کے گرد لپٹا مردہ حالت میں پڑا تھا اور ورکشاپ کی مشین کے نیچے خون ہی خون تھا۔ یہ خون تکبر، طیش اور غصے کی بھینٹ چڑھ چکا تھا۔
ہماری روزمرہ زندگی میں نہ جانے کتنے گھر اسی غصے کے باعث اجڑ جاتے ہیں۔ غصہ کس قسم کا ہوتا ہے؟ اس نے مجھے گھورکرکیوں دیکھا؟ اس نے مجھے گالی کیوں دی؟ طیش سے بے قابو ہونے والا جب سامنے والے کو زخمی یا قتل کر دیتا ہے تو اپنے اس جرم کی پاداش میں پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور اسے سپاہیوں سے صبح و شام سر جھکائے نہ جانے کتنی گندی گالیاں سننا پڑتی ہیں۔ حوالات سے جب وہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جاتا ہے تو اس کی ماں، بہنیں اور بیٹیاں اس سے ملاقات کے لئے جاتی ہیں، جہاں ملاقات کے مراحل طے کرتے ہوئے انہیں طرح طرح کی گندی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیل کے اندر اس کا اپنا جو حشر ہو رہا ہوتا ہے وہ ایک الگ کہانی ہے۔ مقدمے کی سنگینی جیسے جیسے بڑھتی ہے وہ شخص جس نے گالی دینے پر قتل کیا ہوتا ہے، اس کی ماں ، بہنیں اور بیٹیاں مقتول کے رشتہ داروں کے پاس معافی مانگنے کے لئے جاتی ہیں اور ننگے سر اس گھر کے ایک ایک فرد کے پائوں پڑنے لگتی ہیں۔ 
روزمرہ زندگی میں معمولی باتوں پر غصے میں آ کر ہم دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں، مگر وقت گزرنے کے بعد ہمیں پتا چلتا ہے کہ اس کا تو کچھ نہیں بگڑا لیکن ہم نے اپنا بہت زیادہ نقصان کر لیا ہے۔ اس لئے انسان کو چاہئے کہ اچھی زندگی کے لئے کچھ چیزوں کو، کچھ لوگوں کو اور کچھ حوادث کو نظراندازکر دے۔ بات بات پر طیش میں آکر اتنے سخت رد عمل پر نہیں اترآنا چاہئے کہ بعد میں اس کی تلافی کرنا ممکن نہ رہے ۔ 
رحیم یار خان کے ایک قصبے میں کوئی دو ہفتے پہلے ایک رکشے والے کو کچھ با اثر افراد نے اس وجہ سے مار مارکر ختم کر دیا کہ اس نے ان سے بیس روپے کرائے کا مطالبہ کیا تھا۔ صرف بیس روپے مانگنے پر سواریوں کو اس قدر غصہ آیا کہ انہوں نے غریب رکشہ ڈرائیور کو جو پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی اور بوڑھی بیمار ماں کا واحد سہارا تھا، جان سے مار دیا۔ شاید مارنے والے بہت بڑے لوگ تھے، علاقے کے امیر تھے یا ہو سکتا ہے کسی سرکاری افسر یا کسی رکن اسمبلی کے رشتہ دار یا حواری ہوں، لیکن لگتا ہے کہ ان کی امارت اور چودھراہٹ کی 
قیمت بیس روپے بھی نہیں تھی۔ رکشے والا ان سے کرایہ مانگتا تو ان کی چودھراہٹ غضب ناک ہو جاتی اور بالآخر وہ غصے اور طیش میں اتنے پاگل ہو گئے کہ انہوں نے ایک غریب انسان کو جان سے مار دیا۔ وہ انسان جو سارا دن محنت مزدوری کرنے کے بعد اپنی پانچ بہنوں اور بوڑھی ماں کا پیٹ پالتا تھا، جو گرمی اور سردی میں اپنی بیمار ماں کے علاج اور پانچ بہنوںکا جہیز بنانے کے لئے ہر وقت کولہو کے بیل کی طرح مزدوری میں جتا رہتا تھا، اس گناہ میں مارا گیا کہ اس نے اپنا پسینہ خشک ہونے سے پہلے نہیں بلکہ بعد میں اپنے کام کی اجرت مانگی تھی۔ نہ جانے رحیم یار خان کے ڈی پی او اور بہاولپور کے آر پی او کو اس رکشے والے کا قتل یاد بھی ہوگا یا نہیں۔ ہو سکتا ہے انہیں اس کی خبر ہی نہ ہوئی ہو کیونکہ ایک چھوٹی ذات کا غریب رکشہ ڈرائیور کسی کو کیسے یاد رہ سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیس روپے اجرت مانگنے پر رکشے والے کو قتل کرنے والے لوگ اب جیل میں ہوں اور اب تک ان کے وکیلوں کی فیسوں اور پولیس کو رام کرنے پر ان کے لاکھوں روپے خرچ ہو گئے ہوں اور اس وقت جیل میں پڑے وہ سوچ رہے ہوں کہ کاش بیس روپے اسے دے دیئے ہوتے۔
اگر تو اس ملک میں کوئی قانون ہے اور خوش قسمتی سے رحیم یار خان کے سیشن جج کا اس جانب دھیان پڑ گیا تو ہو سکتا ہے کہ بیس روپے کے لئے قتل کئے جانے والے رکشہ ڈرائیور کی بوڑھی ماں کو انصاف مل جائے۔ ہو سکتا ہے بہاولپور کے آر پی او کو کہیں سے خبر ہوجائے تو مقتول رکشہ ڈرائیورکی پانچ بہنوں کے سر پر ہاتھ رکھ دیں، ورنہ روز حساب رحیم یار خان کے صاحبان اختیار سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم لوگوں کو اس بیگناہ کے قتل کا علم نہیں تھا؟ کیا تم نے پانچ بہنوں اور ایک بوڑھی ماں کو انصاف اس لئے نہیں دیا تھا کہ ان کاکوئی بڑا آ دمی سفارشی نہیں تھا؟ کیا تم جانتے نہیں کہ میرے بھیجے ہوئے پیغمبر محمد مصطفیٰﷺ کو غریبوں سے کتنا پیار تھا؟ کیا تم سب بھول گئے کہ ان پر سب سے زیا دہ ایمان غریب لوگ ہی لے کر آئے تھے؟ کیا تم میرا پیغام بھول گئے تھے کہ ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے؟
ہو سکتا ہے، متعلقہ حکام سے یہ سوال پوچھا ہی نہ جائے کیونکہ وہ کہہ دیں گے کہ ہم بادشاہ وقت کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ان کے معتمد خاص اور اپنے بھائی کو بلا مقابلہ کامیاب کرانے کے بعد پنجاب بھر میں بادشاہ سلامت کی جماعت کے امیدواروں کو بھی بلدیاتی انتخابات میں بلا مقابلہ کامیاب کرانے میں مصروف تھے۔ ہمیں تو گڑھی شاہو میں ایک سیا سی ورکر کے قتل پتا ہے، لیکن چونکہ یہ سیاسی قتل ہے اس لئے اس کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں اور مقتول کا تعلق بھی وقت کے بادشاہ کی مخالف جماعت سے تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved