تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     23-09-2015

مٹی

دبئی میں مزدوری کرتے‘ شفٹیں بھگتاتے عمر ہی گزر گئی۔ روکھا ملا تو وہ کھا لیا۔ کبھی کچھ بھی نہ کھایا اور سو رہے۔ چارپائی بھی وہ جس پر کمرے میں رہنے والے دو افراد سوتے۔ جس کی ڈیوٹی نہ ہوتی سو جاتا۔ کبھی کفیل کی جھڑکیں سننا پڑتیں کبھی سیٹھ کی۔ یوں ایک عمر گزر گئی۔ خواب یہ تھا کہ اس ساری مشقت‘ اس لمبے بن باس کا بدلہ ملے گا۔ بچے پڑھ لکھ جائیں گے۔ ملک کے قابل فخر شہری بنیں گے۔ باپ کا نام روشن کریں گے۔ قوم کی خدمت کریں گے۔ یوں طویل مشقت کا میٹھا پھل ملے گا۔ بڑھاپا آرام سے کٹے گا اور اطمینان سے بھی! 
مگر آہ! خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا! ساری محنت مزدوری بیکار گئی۔ پردیس میں گزاری عمر کا پھل ملا مگر کڑوا۔ بیوی نے روپے کی ریل پیل دیکھی تو اللے تلوں پر خرچ کرنے لگی۔ زیورات اور ملبوسات پر اور کوٹھی کی پہلے تعمیر اور پھر آرائش پر بے تحاشا پیسہ خرچ کیا۔ بچوں کی تربیت و تعلیم اس بی بی کی ترجیحات میں ہی شامل نہ تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بچے لڑکپن میں آوارہ ہو گئے۔ نوجوانی آئی تو ساتھ خودسری لائی‘ اوباش دوست گھیرے رکھتے۔ دس گیارہ جماعتوں سے آگے ایک لڑکا بھی بڑھ نہ پایا۔ آہستہ آہستہ‘ مرحلہ وار‘ نشہ کرنا شروع کردیا۔ پھر جوئے کی باری آئی اور اس کے بعد وہ سب کچھ جو اس قسم کے نوجوان کرتے ہیں! 
وہ یہ سب کچھ دیکھتا مگر کیا کر سکتا تھا! آنسو کبھی نکل کر جھریوں بھرے رخساروں پر بہتے‘ کبھی اندر ہی اندر دل میں جذب ہو جاتے۔ ہاں ایک بات کا اُسے علم تھا اور اس پر پختہ یقین تھا کہ قدرت اسی کا ساتھ دے گی۔ ایک نہ ایک دن اس بے راہروی کا‘ اس ناشکری کا اس ناخلف اولاد کو حساب دینا ہوگا! 
شہید اسفند یار کی عظیم قربانی دیکھ کر بار بار اُس بوڑھے شخص کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے جو کئی سال پہلے جہاز میں ساتھ والی نشست پر بیٹھا اپنی زندگی کی وہ داستان سنا رہا تھا جو اوپر رقم ہوئی ہے۔ کچھ بقایاجات اور واجبات وصول کرنے وہ ایک بار پھر دبئی جا رہا تھا۔ ناخلف اولاد کا ذکر کر کے وہ رو بھی پڑا۔ مجھے دبئی سے دوسرے جہاز میں سوار ہو کر‘ کہیں اور جانا تھا۔ نہ جانے دل پر کیا سایہ سا لہرایا کہ مصافحہ کرنے کے بجائے رخصت ہوتے وقت اسے گلے سے لگا لیا اور عمر میں چھوٹا ہونے کے باوجود نصیحت نما فقرہ کہا کہ آپ کی محنت کی قدر نہ کرنے والے ایک نہ ایک دن نقصان اٹھائیں گے! 
اس ملک کی خاطر شہید ہونے والا ہر نوجوان‘ اس ملک کو آکسیجن کا ایک نیا سلنڈر عطا کرتا ہے۔ زندگی کی ایک نئی لِیز ملتی ہے۔ جو اسفند یار بھی اس مٹی کو لہو دیتا ہے‘ مٹی کو مزید زرخیز کر جاتا ہے۔ مگر کیا ہم اپنے اسفند یاروں کی قربانی کی قدر کر رہے ہیں؟ نہیں معلوم اس قسم کی کوئی روایت‘ کوئی سند ہے یا نہیں‘ مگر یوں لگتا ہے اسفند یار‘ جہاں بھی ہے‘ برزخ کے باغ میں ہے یا بہشت کے چمن زار میں‘ یا فرشتوں کے حصار میں‘ اپنے وطن کو دیکھ رہا ہے اور پریشان ہو رہا ہے کہ کیا اُس نے قربانی اس لیے دی تھی کہ وہ سب کچھ ہو‘ جو ہو رہا ہے؟ 
اسفند یار کا خاندان حکمران تھا نہ سرمایہ دار‘ کارخانہ دار‘ تھانہ جاگیردار‘ سیاسی تھانہ مذہب کے نام پر کاروبار کرنے والا۔ مگر جب وطن کی مٹی نے پکارا تو کسی حکمران کا خون بہا نہ کوئی صنعت کار آگے آیا‘ کسی جاگیردار نے اپنے بچے کا سینہ گولیوں کے سامنے رکھا نہ کسی سیاست دان نے قربانی دی نہ عوام سے مذہب کے نام پر روپے اکٹھے کر کے پرتعیش زندگی گزارنے والے کسی مولانا ہی نے مٹی کی پکار پر لبیک کہی۔ مڈل کلاس کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ فیملی نے وطن کی پکار پر لبیک کہا اور اپنا لخت جگر پیش کردیا ؎ 
کامل اس فرقۂ زُہّاد سے اٹھا نہ کوئی 
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے 
مگر اسفند یار جب بہشت کے دریچے سے نیچے جھانکتا ہے تو اپنے آنسو روک نہیں سکتا! کیا قربانی اس لیے دی تھی کہ لوٹ مار کا بازار گرم رہے؟ اخلاق و دیانت کی دھجیاں اڑیں؟ اور خلقِ خدا 
ناامیدی میں آسمان کی طرف دیکھے؟ یہ کیسا ملک ہے۔ کافر اپنی کرسمس پر اشیا کے نرخ اتنے کم کر دیتے ہیں کہ لوگ خریداری کے لیے پورا سال کرسمس کا انتظار کرتے ہیں۔ یہاں یہ حال ہے کہ جو قصاب گھر آ کر بکرے کو ذبح کرنے کے پانچ سو روپے لیتا تھا اب عید پر تین ہزار کا مطالبہ کر رہا ہے اور وہ بھی گاہک کو اپنے ہاں بلا کر! خدا کے نام پر قربانی کے موقع کو‘ کیا جانوروں کے بیوپاری اور کیا قصاب‘ سب تجوریاں بھرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں! اگر جانور عید کے دوسرے دن آدھی قیمت پر مل جاتا ہے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ عید سے پہلے ناجائز منافع خوری کے لیے قیمت کو بڑھایا گیا تھا جب کہ عید کے دوسرے تیسرے دن اُس سے آدھی قیمت پر بیچ کر بھی بیوپاری کو نقصان نہیں ہوا‘ فائدہ ہی ہوا! 
جس وطن کی مٹی کو اسفند یار۔ آہ وہ نوجوان خوش شکل اسفند یار۔ جس کی منگیتر نے تین ماہ بعد عروسی کا جوڑا پہننا تھا۔ جس کے گھر میں ڈھولک بجنا تھی‘ جس نے بھائیوں اور دوستوں کے جلو میں‘ پیلی چادر تلے‘ آہستہ آہستہ قدم رکھ کر‘ مہندی کی تقریب کو سجانا تھا‘ جس نے شملے والی پگ پہننا تھی‘ جس نے بچپن کے دوستوں کے ساتھ اپنے ولیمے کا کھانا کھانا تھا‘ جس نے عروسی کی شب اپنی دلہن کا گھونگھٹ الٹ کر اسے ایک مجاہد کا تابناک چہرہ دکھانا تھا‘ جس نے رونمائی میں اپنی چاند سی بیوی کو خوبصورت تحفہ دینا تھا‘ جس نے اپنے باپ کے سینے سے لگنا تھا۔ جس نے چمکتے رخسار پر ماں کا بوسہ لینا تھا... ہاں جس وطن کی مٹی کو اسی اسفند یار نے اپنے گرم‘ تازہ اور بے حد سرخ خون سے زرخیز کیا ہے‘ کیا اُس وطن کی مٹی اس قابل بھی نہیں کہ اُس پر سیاسی جماعتوں کے اجلاس ہو سکیں۔ کیا المیہ ہے کہ اسفند یار تو وطن پر قربان ہو رہے ہیں اور ہمارے سیاست دان اور حکمران‘ دوسرے ملکوں کو وطن بنا رہے ہیں اور بنائے جا رہے ہیں۔ ہم نے آزادی حاصل کی تھی اس لیے کہ ہماری قسمت کے فیصلے لندن نہ ہوں مگر اب دبئی ہو رہے ہیں۔ ہمارے ملک کے سابق حکمران‘ اپنے وطن کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ اس میں رہیں۔ وہ اپنے نئے وطن کے شہزادے کی وفات کی تعزیت اپنے نئے وطن کے بادشاہ سے کرتے ہیں۔ کاش ہمارے سابق حکمران ایک دو نہیں‘ سارے سابق حکمران‘ اسفند یار کے گھر آ کر یہاں بھی تعزیت کرتے اس لیے کہ جو بے تحاشا مراعات یہ حضرات سابق حکمرانوں کی حیثیت میں حاصل کر رہے ہیں‘ وہ اسفند یاروں ہی کی مرہون منت ہیں۔ اگر اس سرخ مٹی پر اسفند یاروں کا لہو نہ گرے تو کون سی مراعات اور کون سا وطن؟ 
یہ شکوہ صرف سابق حکمرانوں سے نہیں‘ شہیدوں کی روح حاضر حکمرانوں کو بھی پکار پکار کر وارننگ دے رہی ہے کہ اپنے کاروبار لندن اور جدہ سے واپس لے آئو‘ یہی مٹی‘ تمہاری اپنی مٹی ہے جو کچھ ہے‘ اسی پر لگائو۔ یاد رکھو‘ پرائی مٹی پر دولت چھوڑ‘ اپنا آپ بھی قربان کر دو پھر بھی وہ تمہاری نہیں بنے گی! تمہاری مٹی یہی ہے! نوجوانوں کے خون جذب کرتی مٹی! سرخ مٹی! اپنی مٹی! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved