ہرسال کی طرح اس سال بھی20 ستمبر کو مرتضیٰ بھٹو اور ان کے ساتھیوں کی برسی منائی گئی ۔ اس بہیمانہ قتل کو 19 سال گزر چکے ہیں۔تمام ملزمان یا تو قتل کردیئے گئے یا پھر ان کی اکثریت کو بری کردیا گیا۔ لیکن اتنے طویل عرصے بعد اس بار آصف زرداری کا بیان اور اس کی پیپلز پارٹی کی جانب سے برسی زیادہ کھل کر مناناکچھ عجیب سا ہے ۔ ہمیشہ ان کی بیوہ غنویٰ بھٹو ہی ان کی برسی کی تقریب کراتی رہی ہیں ۔ لیکن زرداری صاحب کا اس برسی کے موقع پر بیان کہ ''مرتضیٰ بھٹو ایک دلیر شخص تھا‘‘ حیران کن ہے کیونکہ مرتضیٰ بھٹو کی زندگی میں زرداری صاحب کو ایسا بیان دینے کی نہ تو کوئی توفیق تھی اور نہ ہی ہمت!
اگر ہم ان مقابلے کی برسیوں کا موازنہ کریں تو ایک طرف غنویٰ بھٹو نے ہمیشہ سیاسی جلسہ منعقد کروایا۔ دوسری جانب زرداری صاحب نے غریبوں اور ناداروں میںکھانا تقسیم کروایا۔ ایسے غریبوں اور ناداروں کی موجودگی ہی پیپلزپارٹی قیادت کے پارٹی پروگرام سے انحراف اور سیاسی دیوالیہ پن کو ثابت کرتی ہے۔ جس پارٹی نے غربت‘ بھوک‘ ننگ اور افلاس کے خاتمے کی ٹھانی تھی اسی پارٹی کی میڈیا، ریاست اور حکمران طبقات کی منظور نظر قیادت نمائشی لنگر لگا کر شاید مرتضیٰ بھٹو کو ایصالِ ثواب پہنچانے کا جتن کررہی ہے۔ ایک عجیب معمہ یہ بھی ہے کہ جس بھوک اور ناداری کا خاتمہ کرنے کی جدوجہد مرتضیٰ بھٹو کر رہا تھا اس کے خاتمے سے تو اس ملک کی دولت مند سیاسی اشرافیہ کے لیے ثواب اور ایصال ثواب کے ذرائع بھی ختم ہو جاتے!اگر کوئی بھیک لینے والا نہیں رہے گا تو پھر بھیک دینے والے ثواب کہاں سے کمائیں گے؟اپنے ہولناک گناہوں کی بخشش کاکیا راستہ تلاش کریں گے؟ شاید اس لیے بھی یہ حکمران اتنا استحصال ‘ لوٹ مار اور بدعنوانی کرتے ہیں کہ یہاں کی رعایا بھوک، افلاس اور محرومی کی ذلتوں میں سسکتی رہے اور خیرات کے ذریعے نیک نامی کا کھلواڑ بھی چلتا رہے، ثواب بھی ملتا رہے۔ یہ وہ مکروہ نفسیات ہے جو آج کے کہرام زدہ معاشرے کی نفسیات‘ سیاست ‘ ثقافت اور سماجی زندگی پر مسلط ہے۔ زرداری اور اس کے نو دولتیے حواری بھی اب اسی بالاست طبقے کا حصہ بن چکے ہیں۔
اس مروجہ سیاست اور صحافت میں حکمران خاندانوں کے قصے کہانیوں اور سکینڈلوں تک ہی پورے سماج اور اس کی حرکت کو محدود کر دیا گیا ہے۔ انہی کرداروں میں سے عوام کے سامنے ہیرو اور ولن تخلیق کئے جاتے ہیں اور ان کی پہچان کارپوریٹ میڈیا اس ''اینگل‘‘ سے بناتا ہے جو سرمائے کے معاملات سے مطابقت رکھتا ہو۔مرتضیٰ بھٹو کا قتل صرف خاندانی لڑائی کی وجہ سے نہیں ہوا تھا۔یہ درست ہے کہ پسماندہ معاشروں میں فرد کے کردار کو مبالغہ آرائی سے پیش کیے جانے کی وجہ سے کئی شخصیات مخصوص حالات میں عوام کی خواہشات اور ارمانوں کے تحت خود کو ڈھالنے کی کو شش کرتی ہیں۔ لیکن جب فرد کے گرد پوری تحریک مجتمع ہوجائے تو پھر اس محور کو مٹا کر پوری تحریک کو زائل کرنا حکمران طبقات، ان کی ریاست اور سامراجی آقائوں کے لیے نسبتاً آسان ہوجاتا ہے۔ مرتضیٰ بھٹو نے ابتدا میں اپنے والد
کے وحشیانہ قتل کا انتقام لینے کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اپنایا تھا۔1980 ء کی دہائی میں ایسی گوریلا تحریکوں کا نہ صرف وقت ختم ہورہا تھا بلکہ ان کاروائیوں سے ضیاء الحق کی ظالم آمریت کو نوجوانوں ‘ مزدوروں‘ خواتین اور دہقانوں کی تحریکیں کچلنے کے لیے جواز مل رہے تھے۔وقت کے ساتھ مرتضیٰ بھٹو بھی سمجھ چکے تھے کہ ریاست پر مسلح جدوجہد کے حملوں کو کس طرح عیار آمریت نے عوام سے انتقام لینے اور سوشلسٹ نظریات کو کچلنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ اپنی بہن کے اقتدار میں وہ واپس آکر پابند سلاسل ہوگئے۔ صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ بھی جیل سے جیتی اور رہائی کے بعد پارٹی کو نظریاتی بنیادوں پر واپس سوشلزم کی جانب لے جانے کی کوشش شروع کردی تھی۔ پیپلز پارٹی میں ایسے انقلابی تصورات حکمران طبقات کو برداشت تھے نہ ہی اس وقت تک پیپلز پارٹی کو تابع کر لینے والاامریکی سامراج ایسی کیفیت کو پنپنے کا موقع دے سکتا تھا۔
مرتضیٰ بھٹو کی خصوصاً نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت ریاست کے لیے قطعاً قابل ِ قبول نہیں تھی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بورژوا ریاست کبھی بھی ایسے فرد کو معاف یا فراموش نہیں کرتی جس نے اس کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوں۔ پھر پیپلز پارٹی کی حکومت میں صاحب اقتدارٹولے کو،جس میں بہت سے ضیاء الحق کے حواری بھی تھے، مرتضیٰ بھٹو کا یہ ابھار بہت ہی کھٹکتا تھا۔ یہ ان کی سیاسی موت کا پیغام تھا۔یوں ریاستی اسٹیبلشمنٹ، سیاسی سٹیٹس کو اور سامراج کے امتزاج پر مبنی باطل جال تخلیق پا گیا جس کا گھیرا مرتضیٰ کے گرد تنگ ہونے لگا۔ لیکن اس وقت مرتضیٰ بھٹو سے ہونے والی ملاقاتوں میں یہ بہت واضح تھا کہ اب وہ آخری مرحلے تک لڑنے کا عہد کررہا تھا۔ لینن اور ٹراٹسکی کے اقوال اپنی گفتگو میں اکثر دہرانے لگا تھا۔ ایک نامساعد عہد میں وہ ایک مشکل ڈگر پر چل پڑا تھا۔ حکمرانوں نے اپنے کچھ سرمایہ دار اور جاگیر دار مرتضیٰ بھٹو کے آس پاس بھی پہنچا دیئے تھے۔ ان افراد کی رائے بھی اس فیصلے میںشامل تھی جس کے تحت مرتضیٰ بھٹو نے پیپلز پارٹی میں رہ کر پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ پروگرام کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کی بجائے مقابلے میں نئی پیپلز پارٹی بنانے کا اعلان کیا۔اس فیصلے سے بے نظیر کی پیپلز پارٹی پر براجمان ٹولے نے سکھ کا سانس لیا اور جشن منایا، دوسری طرف ریاست کے لیے بھی مرتضیٰ بھٹو کو نشانہ بنانا قدرے آسان ہوگیا۔ مرتضیٰ بھٹو کے بہیمانہ قتل کے بعد نوجوانوں اور پیپلز پارٹی کے کارکنان میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔لیکن ایک طرف ''سرکاری‘‘ پیپلز پارٹی سے وابستہ مرتضیٰ بھٹو کی فیملی کی اس جرم میں شراکت کے اشارے تھے اور دوسری جانب سیاسی تنزلی اور جمودکا عہد، لہٰذا کوئی تحریک نہیں ابھر سکی۔
20ستمبر کو برسی کے جلسے میں غنویٰ بھٹو نے اس نظام کی مذمت کی ہے ''جو اس ملک کے بچوں کو کھاتا جارہا ہے۔‘‘ لیکن پھر اسی نظام کے اداروں کی تعریف اور انہی سے مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی امید ایسے متضاد پہلو ہیں جن سے کوئی انقلابی رجحان نہیں برآمد ہو سکتا۔ مرتضیٰ بھٹو کی دختر فاطمہ کے سیاست میں نہ آنے اور بیانات تک محدود رہنے سے بھی کافی امیدوں پر پانی پھرا ہے۔ پارٹی کے اس شدید زوال میں بھی مرتضیٰ بھٹو کی پیپلز پارٹی کی جانب سے اس خلا کو پر نہ کرسکنے کی وجوہ میں میڈیا کوریج کی ترجیحات کے ساتھ ہی پارٹی پروگرام کو واضح طور پر سوشلسٹ انقلاب اور ناقابلِ مصالحت طبقاتی جنگ پر استوار کرنے میں ناکامی بھی شامل ہے۔ اس نظام سے متصادم اور اس کو یکسر مسترد کیے بغیر آج کوئی ریڈیکل یا انقلابی قوت کی تعمیر ناممکن ہے۔ مرتضیٰ نے اپنے آخری دنوں کی ایک گفتگو میں کہا تھا کہ اب انقلاب سے پیشتر نہ ہماری کوئی منزل ہے نہ پڑائو ۔ حکمران طبقات اور ان کی سیاست سے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کرکے انقلابی سیاست کرنا کٹھن ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ ابتدا میں شاید بہت بڑی سیاسی بیگانگی محسوس ہوتی ہے لیکن اس بیگانگی کو برداشت کرتے ہوئے منظم ہو کر آنے والی تحریک کے لیے قوتیں تیار کرنے سے ہی اس بیگانگی کو توڑا جاسکتا ہے۔ جب وقت اور سماج پلٹتے ہیں تو پھوٹنے والے طبقاتی کشمکش کے انقلابی ریلے سے اس نظام زر کو نیست ونابود کرنے اور نیا سماج تخلیق کرنے کا فریضہ اسی صورت میں ادا کیا جاسکتا ہے۔