تمام ادارے سیلابی صورت حال سے نمٹنے
کے لیے تیار رہیں... شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''تمام ادارے سیلابی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں‘‘ کیونکہ ہم ایک اور سیلاب سے نمٹنے کی تیاری کر رہے ہیں جو بس کوئی دن میں آیا ہی چاہتا ہے کیونکہ ہمارے بعض دیگر اہم اختیارات کی طرح نیب اور ایف آئی اے کو بھی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے اور نیب آئے دن بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے کی سنائونی بھی دیتی رہتی ہے‘ جو مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف ہے؛ چنانچہ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ آئندہ آبیل مجھے مار‘ قسم کا کوئی آفیسر مقرر نہیں کریں گے۔ لیکن مصیبت یہی ہے کہ ہر بیل رکھّنا ہی ثابت ہوتا ہے بلکہ اس صورت حال کا صحیح علاج تو یہ ہے کہ بھائی جان آرمی چیف کا عہدہ بھی خود ہی سنبھال لیں کیونکہ آئین کے مطابق بھی وزیراعظم اگر سپہ سالارِ اعظم ہوتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ سپہ سالار ہونے میں کیا قباحت ہے جبکہ ملک عزیز میں تو کسی بھی چیز میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
اپنے دورِ حکومت میں لوڈشیڈنگ
کا خاتمہ کردیں گے... اسحق ڈار
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار نے کہا ہے کہ ''اپنے دورِ حکومت میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردیں گے‘‘ تاہم اس کے لیے معمولی سی شرط یہ ہے کہ ہمارا دورِ حکومت قیامت تک جاری رہے کیونکہ لوڈشیڈنگ بھی قیامت سے پہلے ختم ہونے والی نہیں ہے یعنی اگر دنیا ختم ہوئی تو اس کے ساتھ ہی یہ منحوس بھی ختم ہو جائے گی‘ انشاء اللہ العزیز‘ لیکن لگ ایسا رہا ہے کہ قیامت ہمارے سروں پر بہت جلد ہی ٹوٹنے والی ہے حالانکہ اُسے اتنی جلد بازی کی کیا ضرورت تھی‘ ابھی تو ہم نے اپنی آدھی میعاد بھی نہیں گزاری جبکہ آدھی میں ہم لوگ اپنا لوڈ کم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں‘ لیکن یہ روز بروز بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور پوری قوم جس کے نیچے کراہ رہی ہے‘ حالانکہ اسے ہمت اور جوانمردی سے کام لینا چاہیے کیونکہ ہم اگر اپنا لوڈ عوام پر نہ ڈالیں تو آخر کس پر ڈالیں‘ اور قوم ہمیں منتخب بھی اسی لیے کرتی ہے اور اگر نہیں کرتی تو ہم اپنے ذرائع سے خود ہی منتخب ہو جاتے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دے رہے تھے۔
موجودہ حالات میں حکومت اور فوج
ایک پیج پر نہیں... گیلانی
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''موجودہ حالات میں حکومت اور فوج ایک پیج پر نہیں ہیں‘‘ لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ فوج ہمارے ساتھ بھی ایک پیج پر نہیں ہے اور معمولی بلکہ برائے نام وجوہ کی بنا پر یہ لوگ ہمیں بھی پریشان کر رہے ہیں حالانکہ پیسہ تو پیسہ ہی ہوتا ہے‘ وہ ملکی خزانے میں رہے یا سیاستدانوں کے پاس‘ بلکہ سیاستدان اسے زیادہ بہتر طور پر محفوظ رکھ سکتے ہیں اور جو انہوں نے ثابت بھی کر دیا ہے‘ حکومت جس کی واپسی کی ناکام کوششوں میں لگی ہوئی ہے جبکہ قوم کا پیسہ قومی لیڈروں کے پاس نہیں تو اور کس کے پاس ہونا چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ ''میرے خلاف ایک روپے کی کرپشن ثابت نہیں ہو سکی‘‘ جبکہ اربوں کے معاملات الگ ہیں کیونکہ ویسے بھی ایک روپے کی کرپشن کون احمق کرتا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ''صرف جھوٹے الزامات لگ رہے ہیں‘‘ کیونکہ سچے الزامات کی تو حکومت کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
میر مرتضیٰ بھٹو قتل کا معمہ
سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ مرتضیٰ بھٹو ایک بہادر آدمی تھا‘ اس کے قتل کا معمہ حل ہونا اور قاتلوں کو سزا ملنی چاہیے جبکہ مرحوم کی بیوہ غنویٰ بھٹو‘ جو پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ کی چیئرپرسن بھی ہیں‘ نے کہا ہے کہ ہم نے مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کو معاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس افسران شعیب سڈل‘ واجد درانی‘ شکیب قریشی‘ شاہد حیات اور راحیل طاہر‘ جنہوں نے اس کیس کو ہینڈل کیا تھا‘ کو اب سامنے آ کر بتانا چاہیے کہ اس سازش کے پیچھے کون تھا تاکہ سچ باہر آ سکے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ایس ایچ او حق نواز کو کس نے قتل کیا اور ریٹائرڈ جنرل بابر کو آپریشن شروع کرنے کا حکم کس نے دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو کو کس نے قتل کیا‘ عالم بلوچ اور اس کے بیٹے کو کس نے مارا اور آصف علی زرداری کو صدر بنانے کے لیے ارکان پارلیمنٹ کو کتنی رقم ادا کی گئی؟ انہوں نے کہا کہ وہ جنرل مشرف سے بھی پوچھتی ہیں‘ جنہوں نے این آر او کروایا اور سابق چیف جسٹس افتخار چودھری سے‘ جنہوں نے مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کا سووموٹو ایکشن کیوں نہ لیا۔ آپ گڑھی خدا بخش میں میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی 16 ویں سالگرہ کے موقع پر خطاب کر رہی تھیں۔
اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جب مرتضیٰ بھٹو کو قتل کیا گیا تو اس وقت ان کی ہمشیرہ محترمہ کی اپنی حکومت تھی لیکن پھر بھی یہ قتل آج تک ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ میں ان دنوں اردو سائنس بورڈ میں تھا اور میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ اگر بینظیر بھٹو قتل ہو جاتیں تو اتنا نقصان نہ ہوتا جتنا اب ہوا ہے اور اس کالم کی فوٹو کاپیاں پورے ملک میں تقسیم کی گئی تھیں‘ حتیٰ کہ ان دنوں کسی کو بھی اس بات میں شک شبہ نہیں تھا کہ مرتضیٰ بھٹو کو کس نے قتل کروایا ہے اور یہ بھی کہ بینظیر بھٹو کے قتل کی سازش میں کون کون شامل تھا۔
میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا معمہ حل کرنے کا بوجھ موجودہ حکومت کے کاندھوں پر بھی ہے‘ لیکن جہاں لیاقت علی خان‘ حسین شہید سہروردی اور مادرِ ملت کے قتل کا اب تک معمہ حل نہیں ہو سکا‘ اس کی بھی گتھی موجودہ حکومت کی طرف سے سلجھائے جانے کی توقع ایک خام خیالی کے علاوہ کچھ نہیں ہے‘ خاص طور پر اس وقت جب کہ مفاہمت کی زبردست زیریں لہر اب بھی رواں دواں ہے۔ کیا اس کا مطالبہ بھی فوج سے کیا جائے؟
آج کا مطلع
کسی خواب نے ان آنکھوں سے اوجھل ہو جانا تھا
جسم نے ہلکا پھلکا‘ دل نے بوجھل ہو جانا تھا