تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     23-09-2015

آپریشن جبرالٹر کے دو پل

لوگ سوال کرتے ہیں کہ آپریشن جبرالٹر کیا تھا اور یہ کیوں ناکام ہوا؟ چھمب جوڑیاں کے بعد جب ہماری فوجیں اکھنور کی طرف بڑھنے ہی والی تھی تو عین اس موقع پر اس کی کمان جنرل اختر حسین ملک سے لے کر جنرل یحییٰ خان کے سپرد کیوں کی گئی؟ کیا جنرل اختر ملک تفویض کئے گئے مشن میں ناکام ہو گئے تھے؟ اگر ایسا نہیں تھا تو پھر اس انتہائی نازک موقع پر اتنا بڑا بلنڈر کیوں اور کس کے کہنے پر کیا گیا؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے حقائق قوم کو جاننے کا پورا پورا حق ہے ۔جنرل اختر ملک کی زیرِ کمان ایک بریگیڈیئر‘ جسے جنرل ملک کی جگہ چھمب جوڑیاں کی کمان یحییٰ خان کے سپرد کئے جانے کا پہلے سے ہی علم ہو چکا تھا اور جو خود کو یحییٰ کیمپ کا آدمی کہتا تھا‘ نے چوبیس گھنٹوں تک اپنے ریڈیو ٹرانسمیٹر اور وائر لیس کو بند کیوں کئے رکھا۔ اس کے متعلق لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنی کتاب میں بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ 
اپنے آج کے مضمون میں آپریشن جبرالٹر کے ان گمنام مجاہدوں کا ذکر کروں گا کہ جب وہ کشمیر کی بیٹیوں اور بیٹوں کیلئے خود کو قربان کر رہے تھے تو اس وقت اﷲ کی ذات کے سوا انہیں دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں کسی انسان کی خوشنودی کیلئے نہیں بلکہ کشمیر کی مظلوم مائوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کی مدد کیلئے دی تھیں۔ وہ تو اسے خدا کا حکم سمجھ کر آتشِ نمرود میں کود ے تھے‘ جہاں سے ان کی لاشیں ملیں نہ جنازے اٹھے اور نہ ہی قبریں بنیں۔ اگر کسی کی لاش کا کوئی حصہ دشمن کے بھاری پلوں کو اڑاتے ہوئے بچ گیا‘ تو اسے وہیں پر سنگینوں سے کسی وادی میں گڑھا کھود کر دفن کر دیا گیا‘ جہاں نہ تو ان کی قبر پر کوئی پھول چڑھانے جاتا ہے اور نہ ہی کوئی فاتحہ پڑھنے ( قارئین سے درخواست ہے کہ اگر ہو سکے تو چندمنٹ کیلئے سب شہدا کے درجات کی بلندی کیلئے فاتحہ پڑھیں) 
بھارت کی لوک سبھا نے جب مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے بھارت میں باقاعدہ ضم کر لیا‘ تو اس کا صاف مطلب پاکستان اور دنیا بھر کو یہ پیغام دینا تھا کہ'' اقوام متحدہ کی قراردادیں بھارت جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے ا علان کر تا ہے کہ اب کشمیر نام کا کوئی متنازعہ اور عالمی مسئلہ نہیں رہ گیا بلکہ اب ہم کشمیر کا وہ حصہ‘ جس پر پاکستان کا کنٹرول ہے‘ ابھی بزور طاقت واپس لیں گے ‘‘۔ اس کے بعد عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے اور آزاد کشمیر پر بھارت کے کسی ممکنہ حملے سے پہلے ہی جبرالٹر اور گرینڈ سلام جیسے آپریشن کا آغاز کرنا پاکستان کیلئے ناگزیر ہو چکا تھا۔ جنرل اختر ملک کی کمان میں فوج کو پاکستان کے آپریشن گرینڈ سلام میں شروع سے ہی کامیابیاں ملنا شروع ہو گئیں اور چھمب جوڑیاں کے بعد جب اکھنور کی جانب پاکستان کا دبائو بڑھنے لگا تو بھارتی فوج نے جواب میں ٹیٹوال سیکٹر سے حملہ کر دیا۔ اس موقع پر آپریشن جبرالٹر کیلئے مقبوضہ علاقوں میں بھیجے گئے وطن کے سرفروش دشمن کی سپلائی لائن تباہ کرنے کیلئے عقب میں بہنے والی پہاڑی ندیوں پر بنائے گئے پلوں‘ جن کے ارد گرد بھارتی فوج کی نفری اور سپلائی ڈمپ قائم کئے گئے تھے‘ کو تباہ کرنے کیلئے حرکت میں آگئے۔ ان پلوں کی حفاظت کیلئے قائم کئے گئے پختہ مورچوں میں مشین گنوں سے مسلح فوجی دستے ہر وقت تیار کھڑے رہتے تھے ۔ ان پلوں کی اہمیت یہ تھی کہ ان کی تباہی سے دشمن کے اگلے دستوں کو ایمونیشن، پٹرول اور راشن سے محروم ہونا پڑتا۔ 
پاک فوج کے کیپٹن نثار اور اس کے جوانوں کو ٹیٹوال سیکٹر سے آزاد کشمیر کی جانب بڑھنے والی بھارتی فوج کے عقب میں واقع دو انتہائی اہم پلوں کو تباہ کرنے کا ٹاسک ملا۔ کیپٹن نثارکے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے دو سویلین مجاہد اور صوبیدار شیر عالم سمیت تیس جوانوں پر مشتمل نفری تھی۔ یہ دونوں پل ان کے موجودہ خفیہ بیس سے کوئی بائیس کلومیٹر پر واقع تھے۔ ساری رات یہ سرفروش کہیں چلتے ہوئے‘ کہیں پیٹ کے بل رینگتے ہوئے مجاہدین کی رہنمائی میں اپنے ٹارگٹ کی جانب بڑھتے رہے۔ ابھی صبح کا اجالا پوری طرح نہیں پھیلا تھا کہ کیپٹن نثار کو اپنا ٹارگٹ نظر آیا‘ جو اس سے کوئی ساٹھ ستر گز کے فاصلے پر تھا۔ اس پل کی حفاظت کیلئے ایک سکھ پلٹن تعینات تھی کیونکہ یہیں پر ایک سپلائی ڈ مپ بھی تھا۔ کیپٹن نثار کے دس جوانوں کا ایک دستہ نائک محمد دین کی قیا دت میں سیلابی ندی سے گزر کر پل 
کی دوسری جانب کوئی دس کلومیٹر دور پہنچا اور پھر اپنے ٹا رگٹ کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔ ندی کے دائیں جانب سے کیپٹن نثار کے ساتھ آئے مجاہدوں نے جس طرح اس پل کے اوپر والے حصے میں بھارتی سنتریوں کی موجودگی میں ڈائنا مائیٹ نصب کیا‘ وہ ناقابل یقین ہے۔ یہ سرفروش ڈائنا مائٹ کے فیتے کو آگ لگانے کیلئے آگے بڑھے تو پل پر گشت کرنے والے ایک سنتری سے سامنا ہو گیا۔ رسی کے جھٹکے سے اس کا شکار کرنے کے بعد مجاہد دوسرے کی جانب بڑھے ہی تھے کہ اسے خبر ہو گئی اور پھر رائفل کا ایک زور دار فائر فضا میں بکھر گیا۔ گولی ایک کشمیری مجاہد عبد الر حمان کے سینے میں لگی اور وہ ایک لمبی ہائے کے ساتھ زمین پر گرگیا‘ لیکن گرتے ہوئے وہ فیتے کو آگ لگا نا نہ بھولا اور ایک زور دار دھماکے سے پل سمیت اس کے بھی پرخچے اڑ گئے۔ دونوں جانب سے شدید فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا۔ ندی کے دوسری جانب اترنے والی پارٹی اپنے ساتھ مارٹر گنیں لے کر گئی تھی جس سے انہوں نے دشمن کے سپلائی ڈمپ کو تباہ کر دیا یہ کارروائی کم و بیش پندرہ منٹ جاری رہی اور پُل اور سپلائی ڈمپ سمیت پوری بھارتی پلٹن کا صفایا ہو گیا۔ کیپٹن نثار اور ان کے باقی جانثار وہاں سے ایک ہائیڈ آئوٹ میں جا چھپے۔ 
پانچ دن بعد کیپٹن نثار اور ان کی ٹیم دوسرے پل کی جانب بڑھے۔ اس پُل کے نیچے بہنے والی ندی سیلابی تھی۔ پل کی لمبائی ایک سو فٹ اور اونچائی پچاس فٹ سے کچھ زیا دہ تھی۔ اس کے دونوں جانب اونچی ٹیکریوں پر مشین گنیں نصب تھیں اور پہلے پل کی تباہی کی وجہ سے بھارتی سنتری ٹیکریوں پر چوکس کھڑے ہو کر مسلسل پہرہ دے رہے تھے۔ اس پُل کی حفاظت پر پوری ایک کمپنی تعینات تھی۔ یہ پل بہت ہی اہمیت کا حامل تھا۔ اسے مکمل تباہ کرنے کا ایک ہی ذریعہ تھا کہ بارود کے دھماکے ساتھ پل کے اوپر بچھائے گئے موٹے اور مضبوط تختوں کو جلادیا جائے۔ اس کیلئے پل پر پٹرول چھڑکنے کیلئے دو بڑے کین لئے یہ جانباز پل کی طرف بڑھنا شروع ہوئے اور آٹھ گھنٹے تک رینگ کر چلنے کے بعد صبح چار بجے اپنے ٹارگٹ پر پہنچ گئے۔ پل پر پٹرول کا بھر پور چھڑکائو کرنے کیلئے کیپٹن نثار تین جوانوں کے ساتھ پل کی طرف بڑھے۔ تاریکی میں آگے سرکتے ہوئے وہ پُل پر پٹرول بھی بہاتے گئے۔ پورا پل پٹرول سے بھر دیا گیا۔ ایک جوان نے ڈائنا مائٹ لگا دیا۔۔۔ اور پھر پورے پانچ بجے ماچس کی جلتی ہوئی تین تیلیاں پل پر گریں اور آگ کے شعلے آسمان کو چھونے لگے۔ ساتھ ہی بھارتی فوجیوں کی مشین گنیں آگ اگلنا شروع ہو گئیں۔ دشمن کی ایک مشین گن کے برسٹ نے کیپٹن نثار اور پھر صوبیدار شیر عالم کی جان لے لی اور وہ اس وطن اور آپریشن جبرالٹر پر قربان ہو کر شہادت کے مرتبے پر فائز ہو گئے۔ کاش ہمارے ملک میں بھی ارنسٹ ہیمنگوے جیسا کوئی ناول نگار ہوتا‘ جو آپریشن جبرالٹر کے ان جانبازوں اور جانثاروں جنہیں ہماری قوم جانتی تک نہیں‘ کیلئے ''They died with boots on"جیسے ناول لکھتا اور ان پر بھی ''Guns Of Navaron'' اور"Where the eagles dare''جیسی فلمیں بنائی جاتیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved