ملک ، معاشرے اور ریاستیں کچھ اصولوں اور ضابطوں کی محتاج ہوتی ہیں ۔ انہیں نظر انداز کر دیا جائے تو اوّل خرابی، پھر تباہی ہوتی ہے ۔آغازوہاں سے ہوتاہے ، جب انسان خود کو عقلِ کل سمجھتے ہوئے الہامی قوانین معطل کر دے ۔خدا نے کچھ قوانین نازل کیے ہیں ، معاشرہ اور ملک تو کیا ، ایک گھر بھی جن کے بغیر نہیں چل سکتا۔ مغرب عورت اور مرد کی برابری کا قائل ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ چیزوں میں عورت مرد سے بھی افضل ہے لیکن کچھ میں وہ کمترہے ۔ مثلاً اولاد کی جیسی محبت ماں کے دل میں ہوتی ہے اور جیسے وہ اس کی نگہداشت کرتی ہے ، باپ الٹا لٹک کے بھی ایسا نہیں کر سکتا۔ مغرب عورت کو خود مختاری کا تمغہ دیتاہے ۔نتیجے میں گھر برباد ہوجاتے ہیں ۔ طلاق اور بغیر شادی کے اکٹھے رہنا معمول بن جاتاہے ۔ بچّے باپ سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ کم عمری میںانہیں اپنی بقا کی جنگ لڑنا ہوتی ہے ۔ بالغ ہونے تک وہ اس قسم کی حیوانی نفسیات کے حامل ہوتے ہیں ، جن کے نزدیک مادی ترقی ہی سب کچھ ہوتی ہے ۔ اس پر اپنا گھر بار قربان کیا جا سکتاہے ۔
عورت اور مرد کی محبت‘ دیکھنے اور چھونے کی حس سے دماغ میں ہونے والی تبدیلیوں پر منحصر ہوتی ہے۔ مغرب آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کو بیوی کے ناز نخرے اٹھانے کی ضرورت نہیں ۔ آپ یہ عینک آنکھوں پر چڑھا لیجیے ۔ تھری ڈی اثرات (3-D Effects)سے آپ اپنے حواس اور دماغ کو دھوکا دیتے ہوئے انہی تمام محسوسات سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔ آپ ہر
دفعہ ایک نیا جیون ساتھی پا سکتے ہیں ۔ اب حاضر ہیں ، انسانی جلد رکھنے والے خوبصورت روبوٹ ۔ یہ آپ کی ضروریات کو پورا کریں گے لیکن ان کی کوئی شرائط ، کوئی ڈیمانڈ نہیں ہوگی ۔ سوال یہ ہے کہ جوانی اس عیاشی کی نذر کر کے جب آپ چالیس اور پچاس کے پیٹے میں پہنچیں گے تو کیا آپ کو ہمدردی کے بول بولنے والی شریکِ حیات اور اولاد کی ضرورت ہوگی یا نہیں ؟ کیا تنہائی آپ کو ذہنی بیمار نہ کر دے گی ؟ پھر یہ کہ سار ا معاشرہ جب اس رنگ میں رنگ جائے گا یا اکثریت جب ہم جنس پرست ہوگی تو آبادی بڑھنے کی بجائے گھٹنے لگے گی ۔ آپ غیر ملکیوں کے محتاج ہوں گے ، آہستہ آہستہ جن کی تعداد بڑھتی جائے گی ۔ یہ وہ حالات ہیں ، کئی ممالک جن کا سامنا کر رہے ہیں یا کرنے والے ہیں ۔ پھر حکومت مجبور ہوتی ہے کہ زیادہ بچّے پیدا کرنے والے مقامی افراد کو انعام و اکرام سے نوازے۔
قوانین نافذ کرنا ہوتے ہیں ۔ مغرب انسانی حقوق کا سب سے بڑا چیمپئن ہے ۔ اس کے باوجود قاتلوں کو وہاں سزائے موت نہیں دی جاتی تو کم از کم سلاخوں کے پیچھے رکھا جاتاہے ۔ ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے ۔ جسم میں ایک چپ نصب کر دی جاتی ہے ، جس سے خودکار نظام کے تحت نگرانی ہوتی رہے ۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری بہت مہربان شخصیت ہیں ۔ عین اس وقت ، جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف بدترین جنگ سے دوچار تھا، 2008ء سے 2013ء کے درمیان سزائے موت انہوں نے معطل رکھی ۔ 2009ء کے سوات اور جنوبی وزیرستان آپریشن (جو جنرل اشفاق پرویز کیانی کے مخالفین کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں ) میں ظاہر ہے کہ دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد گرفتار ہوئی ۔ اوّل تو پولیس، استغاثہ او رعدالتی نظام میں سقم اور ڈرے سہمے گواہوں کے باعث انہیں سزا نہیں ہوئی ۔ فیصلہ اگر سنا بھی دیا گیا تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے ان پر عمل درآمد بند کر رکھا تھا۔ یہ وہی پیپلز پارٹی ہے ، آٹھ ہزار ارب روپے
ڈکار جانے کے بعد بھی جو دہشت گردی کے ساتھ ساتھ کرپشن کو بھی جنرل ضیاء الحق کی پیداوار کہتی ہے ۔ خود کو وہ دہشت گردوں کا سب سے بڑا مخالف کہلواتی ہے لیکن انہیں وہ سزا دینے میں ناکام رہی ۔کیا ریاست کا خون بہانے والوں پر رحم غدّاری نہیں ؟
میاں نواز شریف کی حکومت آئی۔ سزائے مو ت پر عمل درآمد کا امکان پیدا ہوا تو طالبان نے دھمکی دی کہ لیگی قیاد ت کو نشانہ بنایا جائے گا۔کم از کم ایک پورا برس وہ ڈرے سہمے بیٹھے رہے ۔ بنوں اور ڈیرہ اسمٰعیل خان میں اے این پی اور تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومتوں میں جیلیں توڑ کر سینکڑوں جرائم پیشہ اور انتہائی مطلوب دہشت گرد رہا کرا لیے گئے ۔ ان میں صوبائی حکومتوں کے علاوہ مرکز میں لیگی حکومت بھی اس لیے قصور وار تھی کہ اس اثنا میں سزا یافتہ مجرموں کو اسے پھانسی پر لٹکادینا چاہیے تھا۔کیا یہ وہ مجرمانہ ـغفلت نہیں ، جس سے عسکریت پسندوں کے دل و دماغ سے خوف کا خاتمہ ہوا۔
1996ء کا کامیاب ترین پولیس آپریشن کرنے والے 200جوانوں اور افسروں کو چن چن کر قتل کر دیا گیا ۔ لیگی حکومت آئی تو قاتلوں کو پکڑنے کی بجائے، ایم کیو ایم کے ''شہدا‘‘کو زرِ تلافی ادا کیا گیا۔ آج اسی ایم کیو ایم کے اجمل پہاڑی اور صولت مرزا سمیت ان گنت کارکن ''را‘‘سے ٹریننگ لینے کا اعتراف کرتے ہیں ۔ بی بی سی کی رپورٹ سامنے آتی ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ کا کہنا ہے کہ بلوچ عسکریت پسندوں کی طرح اسے بھی معافی دی جائے، اس کے زخموں پر مرہم رکھا جائے ۔ سوال یہ ہے کہ بلوچ عسکریت پسند تو اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اسلحہ پھینک کر معافی مانگ رہے ہیں ۔ ایم کیو ایم کس بات کی معافی چاہتی ہے ، جب کہ خود کو وہ بے قصور کہتی ہے ۔ اگر وہ اپنے جرائم کا اعتراف کرے ۔اگر وہ یہ کہے کہ اسی نے اس خونیں کھیل کی بنیاد رکھی ، بعد میں پیپلز پارٹی اور اے این پی سمیت مذہبی فرقہ پرستوں نے جس کی پیروی کی تو قوم یقینا اسے معاف کر دے گی ۔ معافی مگر مانگنے والے کو دی جاتی ہے اور اعتراف کے بعد۔
فوج نے دبائو بڑھایا تو سزائے موت نافذ کی گئی ۔ پولیس ، استغاثہ اور عدالتی نظام میں سقم آشکار ہونے اور ا ن گنت عسکریت پسندوں کی رہائی کے بعد عسکری قیادت نے سیاسی رہنمائوںکو فوجی عدالتیں قائم کرنے پر قائل کیا۔ اب مجرموں کو سزا دی جار ہی ہے۔ انسانی حقوق کے چیمپئن بن کر کیا ہم دہشت گردی کی اس بدترین جنگ سے سلامت گزر سکتے ہیں ، جو پچا س ہزار سے زائد شہریوں کو نگل چکی ہے۔سالانہ 2000افراد شہرِ قائد میں قتل ہوتے رہے ۔ کیا کراچی میں 200پولیس افسروں اور جوانوں کے قتل پر ڈیڑھ عشرے تک خاموشی اختیار کرنے والی لیگی قیادت کراچی بد امنی میں حصے دار نہیں ؟آگے بڑھنا ہے تو پہلے اپنے گریبان میں جھانکیے ۔ اپنے دامن کو رفّو کر لیجیے ۔