تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-09-2015

جنرل راحیل شریف کیوں مقبول ہیں؟

سامنے کی بات ہے کہ جنرل راحیل شریف کی مقبولیت بڑھتی کیوں جا رہی ہے اور سیاستدانوں کی گھٹ کیوں رہی ہے؟ کتاب میں لکھا ہے: آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر دل اندھے ہو جاتے ہیں۔ 
نندی پور کے منصوبے، بجلی کے شعبے میں 980 ارب روپے کی بے قاعدگیوں، رانا مشہود اور درآمدی گیس کی وجہ سے شریف حکومت دبائو کا شکار ہے۔ نقد نتیجہ اس کا یہ ہو گا کہ سول حکومت کچھ اور پیچھے ہٹے گی۔ فوج کا کردار کچھ اور بڑھ جائے گا۔ 
ایک صاحب نے بتایا: زرداری صاحب نے جنرل راحیل شریف کو پیغام بھیجا: بعض فوجی افسر خیانت کے مرتکب ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے خلاف کارروائی نہ رکی تو وہ جوابی اقدام کریں گے۔ جواب ملا کہ کسی جرم پر سویلین اگر ایک جوتے کا مستحق ہو گا تو فوجی افسر دو جوتوں کا۔ جنرل عاصم باجوہ سے بات کی تو انہوں نے کہا: ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا؛ اگرچہ اطلاع دینے والے کو خبر کی صحت پر اصرار تھا‘ مگر میرا خیال بھی یہی ہے کہ زرداری صاحب ایسی جسارت کر نہیں سکتے۔ جنرل کا دامن صاف ہے۔ فرض کیجیے، کسی بھی عسکری ادارے میں کوئی فوجی افسر خطاکار ہے‘ تو وہ اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔ اپنی اخلاقی پوزیشن ٹھیک رکھنے کا جس نے تہیہ کر رکھا ہو‘ سول حکومت کے برعکس، عزتِ نفس کی قیمت پر جنہیں اربوں روپے کا کاروبار نہ کرنا ہو، آپ ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ فوج نے اپنے جن افسروں کے خلاف کارروائی کی ہے، ان کے خلاف فوجداری مقدمات بھی چلائے جا سکتے ہیں۔ بسم اللہ کیجیے، خواجہ صاحب!
ایم کیو ایم کی التجا میں بھی ایک دھمکی پوشیدہ ہے۔ ''اگر ہمیں معاف نہ کیا گیا تو ہم بھی نہیں کریں گے‘‘۔ بلوچستان کے باغیوں سے ٹارگٹ کلرز کا کیا موازنہ؟ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ علیحدگی کی تحریکوں سے آخرکار مصالحت کی راہ ہی اختیار کی جاتی ہے۔ بلوچستان کے باغی تھک ہار کے اب ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ سات سو کے لگ بھگ سپر انداز ہو چکے اور سینکڑوں مزید آمادہ ہیں۔ ایم کیو ایم اگر اپنی غلطی اعلانیہ طور پر مان لے۔ مجرم اگر ہتھیار ڈالیں تو نرمی ان سے بھی کی جا سکتی ہے۔ ان کا ارشاد تو یہ ہے کہ ہمارا دامن دامنِ مریم ہے۔ مہاجر کارڈ وہ استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا قاتلوں اور بھتہ خوروں کے خلاف کارروائی ہے یا مہاجروں کے خلاف؟ ؎
شیخ صاحب خدا خدا کیجیے 
آپ کی منطقیں نرالی ہیں 
موسم بدل چکا، مرکزی اور صوبائی حکومتیں سوئی رہیں اور فوج نے امن قائم کرنے کا تہیہ کر لیا۔ اس لیے کہ ملک کی سلامتی خطرے میں تھی۔ اپنا مشن مکمل کیے بغیر اب وہ واپس نہیں جا سکتی۔ رائے عامہ کی ایسی بھرپور تائید اسے حاصل ہے کہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ لاہور کے حلقہ 122 میں نون لیگ اور تحریکِ انصاف‘ دونوں فوج کے نام پر ووٹ مانگ رہی ہیں۔ تحریکِ انصاف کے پوسٹروں پر جنرل راحیل شریف کی تصویر جگمگاتی ہے۔ ایاز صادق نے ووٹروں سے اپیل کی کہ اگر وہ فوج کے حامی ہیں‘ تو نون لیگ کو ووٹ دیں۔
فوج کی نگرانی میں الیکشن کا مطالبہ کچھ ایسا ناروا بھی نہیں۔ تازہ ترین سروے کے مطابق صرف 23 فیصد رائے دہندگان الیکشن کمیشن کو قابلِ اعتماد پاتے ہیں۔ بھرپور عوامی دبائو کے بعد بمشکل تمام اس نے بلدیاتی الیکشن کے ہنگام سینکڑوں ارب کے زرعی پیکیج کا نوٹس لیا ہے۔ سامنے کا سوال یہ ہے کیا الیکشن کمیشن کے معزز ارکان کو مستعفی نہ ہو جانا چاہیے؟ جسٹس کیانی نے کہاکہ اگر وہ بے عزتی محسوس کریں گے تو الگ ہو جائیں گے وگرنہ ہرگز نہیں۔ سبحان اللہ!
جنرل راحیل شریف کی مقبولیت نے سیاستدانوں کو ہراساں کر دیا۔ زرداری صاحب نے جنرلوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکی دی۔ پھر دم دبا کر بھاگ گئے۔ وزیرِ اعظم یہاں تک کہہ گزرے کہ ان کا اقتدار ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ کون سی سازش؟ ایسا الیکشن کمیشن وہ کیوں نہیں بناتے، جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ نندی پور کے باب میں وہ اپنی غلطی کیوں نہیں مانتے؟ خطا کاروں کو سزا کیوں نہیں دیتے؟ بجلی کے شعبے میں 980 ارب روپے کی بے قاعدگیوں کا حساب کیوں نہیں دیتے؟ ایل این جی کی قیمت پر قوم کو اعتماد میں کیوں نہیں لیتے؟
کراچی میں رینجرز نے انٹلی جنس اور آپریشن کی صلاحیت اس قدر بڑھا دی ہے کہ ''را‘‘ کی بہترین کوششوں کے باوجود دہشت گرد پسپا ہیں۔ لیاری کی گلیوں اور بازاروں میں موت بٹتی تھی۔ اب لوگ آزادانہ گھومتے ہیں۔ آٹھ دس بے گناہ افراد ہر روز قتل کر دیے جاتے، اب اکّا دکّا ہی واردات ہے۔ شکنجہ کسا جا رہا ہے اور گھیرا تنگ ہے۔ را کے ایجنٹ گرفتار ہو رہے ہیں۔ سندھ حکومت نے تو لوٹ مار محدود کرنے کی کوشش بھی نہ کی، دہشت گردوں کو جس سے وسائل مہیا ہوتے ہیں۔ یہ کام بھی رینجرز کو کرنا پڑا۔ اب بیس ہزار ایکڑ زمین کی الاٹمنٹ منسو خ کی گئی ہے۔ زرداری صاحب کو اگرچہ اب بھی اصرار ہے کہ رینجرز اور وفاقی حکومت مداخلت سے گریز کریں۔
جنرل راحیل شریف صرف اس لیے مقبول نہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کا عزم انہوں نے سچا ثابت کر دیا۔ بھارتی عزائم کو انہوں نے بے نقاب کیا اور ڈٹ کر کیا‘ وگرنہ وزیرِ اعظم تو دہلی کے سامنے بچھے جاتے تھے۔ زرداری صاحب نے ارشاد کیا تھا کہ ہر پاکستانی کے دل میں ایک بھارتی آباد ہے اور ہر بھارتی کے اندر ایک پاکستانی۔ برسبیلِ تذکرہ، امریکی ادارے ''پیو‘‘ کا تازہ ترین سروے بتاتا ہے کہ صرف اٹھارہ فیصد بھارتی پاکستان سے خوشگوار مراسم چاہتے ہیں۔ وہ دانا قوم نہیں، اپنے پڑوسی کے ساتھ جو حالتِ جنگ میں رہے۔ نکتہ مگر یہ ہے کہ بھارتی رہنما اور میڈیا تو پیہم پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے میں لگا رہتا ہے؛ حتیٰ کہ فلم انڈسٹری بھی۔ ہمارے مرعوب حکمران امن کی بھیک مانگتے ہیں۔ جی نہیں، ایساکبھی نہیں ہوتا۔ تنازعات کی گرہ کھولنے کی کوشش کی جائے مگر خوف کا توازن بھی لازم ہے۔ اقوام کے باہمی تنازعات کا انحصار ان کی قوّت پہ منحصر ہوتا ہے اور مفادات پر۔ 
سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا: لوگوں کے اندر ان کے رجحانات کی طرف سے داخل ہونے کی کوشش کرو۔ 
قوم کے اجتماعی لاشعور سے لاتعلق ہو کر کوئی پارٹی مقبول ہو سکتی ہے اور نہ کوئی رہنما۔ 1946ء میں قائدِ اعظم 76.5 فیصد ووٹ اس لیے جیت سکے کہ وہ قومی امنگوں کے ترجمان تھے۔ اقبالؔ اگر دلوں اور دماغوں میں بستے ہیں تو اس لیے کہ وہ ہماری اخلاقی، تہذیبی اور تمدنی اقدار کے علمبردار تھے۔ 1970ء میں بھٹو اگر مقبول ہوئے تو اس لیے کہ انہوں نے افتادگانِ خاک کی بات کی اور سر چڑھے آتے بھارت کو للکارا۔ 
جنرل راحیل شریف کو قومی امنگوں کا ادراک ہے۔ فیصلہ کرنے کی وہ قوت رکھتے ہیں۔ چیلنج کا انہوں نے سامنا کیا۔ بروئے کار آنے میں تاخیر کے مرتکب وہ نہیں ہوئے۔ ادھر سیاسی لیڈر ہیں، اقتدار اور دولت کے حریص۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎
آں شہنشاہے کہ ہم سوداگر است 
برلبِ او خیر است و اندر دل شر است
(بادشاہ اگر تاجر بھی ہو تو صرف اس کی زبان پر خیر ہوتا ہے، دل میں شر ہی شر) کیا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حکمران کی سب سے بڑی ترجیح پولٹری اور دودھ بیچنا ہو؟ کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ دشمن ممالک کے سامنے عاجزی اختیار کی جائے؟ سامنے کی بات ہے کہ جنرل راحیل شریف کی مقبولیت بڑھتی کیوں جا رہی ہے اور سیاستدانوں کی گھٹ کیوں رہی ہے؟ کتاب میں لکھا ہے: آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر دل اندھے ہو جاتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved