سابق صدر آصف علی زرداری نے اچانک میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا ، انہوں نے یہ مطالبہ تقریباً انیس سال بعد کیا ، جو اپنی جگہ بڑا تعجب خیز ہے۔ اگر زرداری صاحب یہ مطالبہ اسی وقت کردیتے جب ان کی حکومت تھی اور محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیںتو اس کی پذیرائی ہوتی‘ لیکن نہ تو مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے سلسلے میں نامعلو م افراد کے خلاف ایف آئی آر کاٹی گئی اور نہ ہی کسی مطلوبہ شخص کو گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا، حالانکہ میر مرتضیٰ بھٹو کی اہلیہ غنویٰ بھٹو گزشتہ 19سال سے میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرانے اور ان کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کا پر زور مطالبہ کررہی ہیں، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔حقیقت یہ ہے کہ جن عناصر پر میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے سلسلے میں اُنگلیاں اُٹھیں انہیں بعد میں بڑے بڑے عہدوں سے نواز گیا۔ مطلب یہ ہوا کہ اس وقت کی حکومت اور اس کے بعد آنے والی حکومت جس کے سربراہ خود آصف علی زرداری تھے انہوں نے کبھی بھی میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرانے کا تردد نہیں کیا، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے خود اپنی بیگم محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل سے متعلق تحقیقات کرانے میںبھی کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جبکہ پی پی پی کے مخلص کارکن ان سے بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
موصوف میرمرتضیٰ بھٹو کے قتل کے سلسلے میں ان متحرک وفعال کارکنوں کو ہمنوا بنانے کی کوشش کررہے ہیں جو میر مرتضیٰ بھٹو سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں، اورابھی تک غنویٰ بھٹو کی قیادت میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔مزید برآں بعض سندھی سیاست داں پس پردہ آصف علی زرداری اور غنویٰ بھٹو کے مابین مصالحت و مفاہمت کرانا چاہتے ہیں، تاکہ دوناراض خاندان دوبارہ مل کر پی پی پی کو ایک بارپھر اُسی طرح کی عوامی پارٹی بناسکیں ‘ جیسے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں تھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں ناراض خاندانوں کو ملانے کی آرزو پی پی پی کے نیک اور مخلص کارکنوں کے ذہنوں میں پہلے بھی اور اب بھی موجود ہے، جو اتحاد کی صورت میں پی پی پی کو ملک گیر پارٹی کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ آصف علی زرداری کی موجودگی میں یہ دونوں خاندان ایک ہوسکیں گے، (ماضی کے اخبارات کے مطابق) بلکہ غنویٰ بھٹو کو اس بات کا یقین ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی سازش میں اُس وقت کی حکومت کے بعض ''ذمہ دار‘‘ افراد بھی شامل تھے۔ میر مرتضیٰ بھٹو کی بیٹی فاطمہ اور ذوالفقار جونیئر‘ آصف علی زرداری کی موجودگی میں دونوں خاندانوں کے مابین کسی قسم کے اتحاد یا پھر تعلقات کی بحالی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہی حال پی پی پی کے ان مخلص اور نظریاتی کارکنوں کا ہے جو یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ پی پی پی کے زوال کی ذمہ داری آصف علی زرداری اور ان کے دوستوں اور ان مفاد پرست عناصر پر
عائد ہوتی ہے، جنہوں نے نہ صرف کرپشن کا ارتکاب کیا ہے بلکہ پارٹی کو دیہی سندھ تک محدود کردیا ‘ جسے دوبارہ فعال کرنے کے لئے طویل عرصہ درکارہوگا، اور ایسے نظریاتی کارکنوں کی ضرورت ہے جو بے لوث ہوکر اسے دوبارہ عوام دوست پارٹی بنا سکیں۔ بلاول بھٹو بظاہر پی پی پی کے چیئرمین ہیں لیکن ان میں اس وقت پارٹی کو منظم کرنے اور اس کا کھویا ہوا وقار بحال کرنے کی نہ تو صلاحیت ہے اور نہ ہی توانائی۔ ان کی بہنیں پارٹی کی قیادت ایسے بارگراں کو نہیں اٹھا سکتیں ، کیونکہ انہیں وہ سیاسی تربیت ہی نہیں ملی جو بے نظیر بھٹو کو ابتدائی دنوں میں ان کے والد اور بعد میں بیگم نصرت بھٹو سے ملی تھی۔ بقول ناہید عباسی‘ زرداری صاحب انہیں پریس کانفرنس یا پارٹی اجلاس کے دوران سامنے لاکر عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن عوام اب دوبارہ دھوکہ کھانے کے لئے تیار نہیں۔ جو کچھ بھی پی پی پی کے گزشتہ آٹھ سالہ دور میں عوام اور ملک کے ساتھ ہوا ہے اس کے پیش نظر اب ان کا ووٹ کسی دوسری جماعتوں کو جائے گا۔
زرداری صاحب کو میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ انیس سال گزر جانے کے بعد نہیں کرنا چاہئے تھا۔ بلکہ اس کی بجائے وہ حکومت وقت سے بے نظیر بھٹو کے قتل کی ازسرنو تحقیقات کا پرزور مطالبہ کرتے، اور نواز شریف پر زور دیتے کہ ان کے قاتلوں کا سراغ لگا کر انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ لیکن انہوںنے میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کرکے اپنے آپ کو ایک بار پھر متنازع بنانے کی کوشش کی ہے، گزشتہ انیس سال سے غنویٰ بھٹو اور ان کے بچے میر مرتضی بھٹو کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ لیکن کہیں سے اس سلسلے میں انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے ، آج میر مرتضیٰ بھٹو کا خون حکومتوں اور عدالتوں سے انصاف طلب کررہا ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں بڑے لوگوں کے قتل کی تحقیقات کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکیں، چاہے وہ لیاقت علی خان کا قتل ہو، بے نظیر بھٹو کا یا پھر ضیاالحق کے طیارے کا فضا میں اچانک پھٹ جانے کا‘ اس سلسلے میں ہر طرف بسیط خاموشی چھائی ہوئی ہے، جبکہ انصاف کی طلب اور آواز اکثر صدابہ صحرا ثابت ہوئی ہے!