اگلے روز کشور ناہید کے کالم کا عنوان کچھ اس طرح سے تھا کہ ''شامی بچے کے ڈوبنے پر دُنیا بولی۔ ہم نہیں بولے‘‘ نہیں بی بی۔ ہم کیوں نہیں بولے‘ ہمارا مایہ ناز نظم گو ابرار احمد بولا۔ اس نے نظم لکھی اور ہم سب کی نمائندگی کر دی۔ تو سب سے پہلے وہی نظم:
ایلان کُردی کی خود کلامی
کوئی ہلچل سی تھی... شور تھا چار سو... جیسے چھت گر رہی ہو... مجھے کیا پتا کیا ہوا تھا کہیں... جب مجھے ساتھ لے کر چلے تھے... مری ماں نے سینے سے بھینچا ہوا... باپ کا ہاتھ بازو پہ تھا ... اور ہم چل رہے تھے... نہ جانے کدھر کو۔ سمندر کبھی میں نے دیکھا نہیں تھا... مگر کیسا منظر تھا... جی چاہتا تھا... اسی ڈولتی ڈوبتی نائو سے کود جائوں... نکل جائوں لہروں پہ اڑتا ہوا... پرندوں کی صورت چمکتا ہوا... مگر ماں نے سختی سے چمٹا کے... پانی کے اندر... مجھے کچھ کہا میں بھی بولا... مگر سانس... جانے اسے کیا ہوا... کوئی بڑھتی ہوئی پھانس تھی... کوئی سیال ظلمت ۔ تو پھر میں اُدھر... اپنے آنگن میں... اپنے کھلونوں میں... اور دوستوں سے لہکتے ہوئے باتیں کرتا ہوا... محو پرواز تھا... اور نیند آ رہی تھی... گھنی‘ گہری ‘ تاریک... ماں ۔ جانے کس خواب کو جا چکی تھی... بہت دیر تک... پانیوں نے تھپک کر سلایا مجھے... اسی ریت پر... جس پہ اب میں پڑا... اپنی پھیلی ہوئی پتلیوں میں... خدا دیکھتا ہوں... خدا۔ جس نے بھیجا مجھے... اس زمین پر... اسی ایک دن کے لیے!؟
(ایلان کردی شامی بچہ‘ جو ترکِ وطن کی کوشش میں ماں سمیت پانی میں ڈوب گیا اور ساحل سمندر پر اس کی لاش ملی)
آنکھ بھر اندھیرا
چمکتی ہیں آنکھیں... بہت خوبصورت ہے بچہ... وہ جن بازوئوں میں مچلتا ہے... لو دے رہے ہیں... چمکنے لگے ہیں پرندے... درختوں میں پتے بھی ہلنے لگے ہیں... کہ لہراتے رنگوں میں... عورت کے اندر سے... بہتی ہوئی روشنی میں... دمکنے لگی ہے یہ دنیا۔ وہ بچہ اسے دیکھنے جاتا ہے... ہنستے ‘ ہمکتے ہوئے... اس کی جانب لپکنے کو تیار... عورت بھی کچھ زیرلب... گنگنانے لگی ہے... لجاتے ہوئے... کسی سرخوشی میں... بڑھاتا ہے وہ ہاتھ اپنے ... تو بچہ اچانک پلٹتا ہے... اور ماں کے سینے میں چھپتا ہے۔ عورت سڑک پار کرتی ہے تیزی سے ‘ گھبرا کر چلتی چلی جا رہی ہے... ادھر۔ کوئی دیوار گرتی ہے... شاعر کے دل میں... وہیں بیٹھ جاتا ہے... اور جوڑتا ہے یہ منظر... اندھیرے سے... پھرتی ہوئی آنکھ میں۔
ایسا بھی کیا
نہیں کچھ نہیں‘ خیر ہے... ایسا ہوتا ہے... آنکھیں مناظر
سے ہٹتی ہیں... اور رات دن... جاگتی جو رہی ہیں... انہیں نیند گھیرے میں لیتی ہے... کیا ہوا تھا کبھی... کیا رہا تھا کبھی... مناظر کا کیا ہے... ابھی سامنے ہیں... ابھی اوٹ میں ہیں... تسلسل ہے‘ جس کی کڑی ٹوٹتی ہے... تو ہم چوٹ کھا کر پلٹتے ہیں... اپنی طرف... اور مٹی کی تارکیوں میں بھٹکتے ہیں جب۔ اور آنکھیں چمکتی... نئی زندگی سے نمی جوڑتی ... آگے بڑھتی ہیں۔ جن میں دبی مضطرب آگ ہے... منزلوں کے ہیولے ہوں چاروں طرف... ان کو بڑھنا تو ہے... آگے جانا تو ہے... تو پھر یوں کرو... اپنی گروی مسافت کے رستے گنو... یاد کر کے انہیں... جو درختوں کی صورت تمہارے لیے...راستوں میں رہے... اور ڈھونڈو وہ آنکھیں... کہ تم۔ جن کے خوابوں کی انگلی پکڑ کر... یہاں تک چلے... خواب ہونے لگے۔ بیتی راتوں کا اک بے نہایت قرینہ ہے... اندر ہی اندر... بہت دور تک۔ نیند میں خوش خرامی کرو... خود کلامی کرو... خیر ہے‘ ایسا ہوتا ہے... ہوتا رہے گا... تو پھر۔ ٹھیک ہے یار... ایسا بھی کیا ہے!
گردِ بے نیازی میں
کرو۔ جو جی میں آئے... توڑ کر رکھ دو... ہے جو کچھ بھی مرا... دل میں یا گھر میں... جس سے بھی... نسبت ہے میری ۔ مجھے کرنا بھی کیا ہے اب... کہ اپنی ہی کسی آواز میں گم ہوں... یہ رشتے بھی‘ کبھی... خوش رنگ کپڑے تھے' سجا کرتے تھے ہم پر'اور انہیں میلا بھی ہونا تھا' اُدھڑ جانا تھا آخر کو۔ یہاں جو ہمدمی کا واہم ہے... اصل میں زنجیر ہے... جبر مشیّت کی ۔ معیشت کی... کہ کب کوئی بھی دل‘ جا کر کبھی... دھڑکا کیا ہے... اور سینے میں۔ کہ کب اکڑی ہوئی گردن کو...سجدے نرم کرتے ہیں... رعونت تلملاہٹ ہے... ہنسی آتی ہے... ایسی بے ٹھکانہ تمکنت پر... رحم آتا ہے... تو بس یہ التباس دائمی... کچھ بھی نہیں... ماتھے پہ گہرائی تلک جائے' نشاں کی ٹیس سے بڑھ کر... مدارِ وقت میں... تنہا ہی چکر کاٹتا ہے... آخر نکل جاتا ہے انسان... اور کھو جاتا ہے... گردِ بے نیازی میں!
آج کا مطلع
یہ جہاں آدھا فقط آہنگ سے پیدا ہوا
اور جو باقی بچا وہ رنگ سے پیدا ہوا