اقبالؒ نے عید کے پُر مسرت تہوار کے بارے میں لب کشائی کی تھی جواُمہ کے حوالے سے حقیقت نگاری کا شاہکار ہے ؎
عیدِ آزاداں شکوہِ ملک و دیں
عید محکوماں ہجومِ مومنین
گزشتہ روز سعودی عرب میں حج کے اہم رکن رمی جمرات(شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل) کے دوران ہجوم مومنین میں جس طرح بھگدڑ مچی اور سینکڑوں حجاج کرام لقمۂ اجل بن گئے وہ سعودی حکومت کے انتظامات میں خامی کا نتیجہ ہے نہ منیٰ کے اس حصہ میں تنگ راستوں اور رہنمائی کے فقدان کا شاخسانہ ‘بلکہ صرف اور صرف نظم و ضبط سے عاری ہجوم کی جلد بازی اور ضابطہ شکن عادت کا آئینہ دارہے۔
2006ء میں بھی رمی جمرات کے دوران ایسا ہی افسوسناک سانحہ ظہور پذیر ہوا تھا ۔اللہ تعالیٰ نے پہلی بار اس بندہ ٔعاصی کو حاضری کی توفیق بخشی لہٰذا ہر ایک سے احتیاطی تدابیر پوچھا کیے ۔ حافظ عبدالکریم صاحب نے ‘جن کا مکہ مکرمہ دوسرا گھر ہے‘ ہمیں تلقین کی کہ عرفات سے واپسی پر پہلے روز رات ایک بجے سے قبل طواف بیت اللہ اور آخری روز دوپہر ایک بجے سے قبل رمی جمرات سے گریز کریں‘ کیونکہ بالعموم انہی دنوں اور اوقات میں ہجوم زیادہ اور جلد بازی کا شکارہوتا ہے اور حادثات پیش آتے ہیں ۔ہم نے یہ نصیحت پلّے باندھ لی۔
عرفات سے منیٰ واپسی ہوئی تو ہم نے دو دن نصیحت پر عمل کرتے ہوئے احتیاط کے تقاضے پورے کئے مگر آخری روز چوک ہو گئی ۔ ملتان کے نوجوان صحافی طاہر لطیف جلدی میں تھے ۔وہ تقریباً گیارہ بجے رمی جمرات سے فارغ ہوئے اور ہمیں ترغیب دی کہ اس وقت رش نہیں‘ آسانی سے رمی جمرات کا مرحلہ طے ہو سکتا ہے مگر ہم لوگوں نے کان نہ دھرے ۔پروگرام ہمارا یہ تھا کہ رمی جمرات کے لیے جاتے ہوئے سامان ساتھ لے جائیں گے اور خیمہ میں واپسی کے بجائے مکّہ مکرمہ کا رخ کریں گے تاکہ طواف کے مراحل بھی طے کر لیں۔
برادرم اشرف ملخم کو جمرہ اول کے قریب سرکاری فرائض انجام دینے والے ایک دوست کا فون آیا جس نے ان سے پروگرام پوچھا ۔اشرف ملخم نے ہمیں بتایا کہ جمرہ اوّل کے قریب ایک کونے میں واپسی کے راستے پر دوست کا ٹرک کھڑا ہے‘ ہم اگر چلے چلیں تو سامان دوست کے ٹرک میں رکھ کر بآسانی کنکریاں مارنے کا عمل مکمل کرلیں گے اور پھر سامان لے کرپیدل ہی مکّہ مکرمہ چل پڑیں گے۔ سب نے اشرف ملخم کی تجویز پر صاد کیا۔ ہم نے اپنا سامان اٹھایا ‘ منیٰ کو الوداع کہا اور سوئے جمرات چل پڑے۔
بمشکل دو سو میٹر کا فاصلہ طے کیا ۔ جمرہ اوّل سے چند قدم کے فاصلے پر ہوں گے کہ سعودی پولیس نے روک دیا۔ ایمبولینسوں کے ہوٹر بج اٹھے‘ فضا میں ہیلی کاپٹر نمودار ہوئے اور لاکھوں لوگ دم بخود رہ گئے۔ چند قدم کے فاصلے پر لاشوں اور زخمیوں کے انبار تھے‘ جنہیں زمینی اور فضائی ایمبولینسوں کے ذریعے ریسکیو کیا جا رہا تھا۔ پتہ چلا کہ قریب کھڑے ٹرک سے ایک بیگ گرا‘ کسی حاجی کا پائوں پھسلا اور پھر چل سو چل۔ چشم زذن میں چار سو کے قریب حاجی شہید اور سینکڑوں زخمی ہو ئے ۔ پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کر کے بھگدڑ کو روکا اور حاجیوں سے سامان لینا شروع کر دیا۔رکنے پر ہمارا گرمی‘ دبائو اور اندیشہ ہائے دور درازسے جو حشر ہوا وہ الگ کہانی ہے۔ پندرہ سے بیس منٹ سانس روکے کھڑے رہے۔ حاجیوں پر جو گزری وہ ہم جانتے ہیں۔
اسی سال سعودی حکومت نے جمرات میں توسیع کا کریش پلان ترتیب دیا۔ ملٹی سٹوری فلائی اوورز بنائے اور آنے جانے کے راستے الگ کئے۔2012ء میں دوبارہ حج کی سعادت نصیب ہوئی تو سعودی حکمرانوں کے لیے دل سے دعائیں نکلیں۔ آسانی سے گئے ‘ شیطان کو کنکریاں ماریں اور دوسرے راستے سے کسی دھکم پیل کے بغیر بآسانی اپنے خیمے میں پہنچ گئے۔ کہیں بھی ہجوم بڑھا نہ آمدو رفت میں دقت ہوئی اور نہ بھگدڑ مچنے کا اندیشہ پیدا ہوا۔ تاہم پاکستان سمیت کئی ممالک کے حجاج کرام ون وے انتظامات کی خلاف ورزی پر مُصر ضرور نظر آئے جس کی وجہ سے حادثات جنم لیتے ہیں۔
اس بار کیا ہوا؟ جائے حادثہ پر موجود کوئی فرد ہی بتا سکتا ہے تاہم یہ بات یقینی ہے کہ یہ سانحہ حکومتی انتظامات میں نقص کے باعث نہیں‘ کسی اتفاقی واقعہ یا ضابطہ شکنی کا نتیجہ ہو سکتا ہے‘ تو سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ میری ناقص رائے میں مسلمانوں کاعجلت پسندانہ اجتماعی مزاج اور غیرمنظم و غیر ذمہ دارانہ طرز عمل ایسے حادثات کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ہم اپنے ملک میں نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ نہ بیرون ملک جا کر پابندی کی عادت اپناتے ہیں۔
بھگدڑ مچنے کے واقعات امریکہ و یورپ کے کئی ممالک میں پیش آ چکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل فٹ بال کا ایک میچ ختم ہونے کے بعد بھگدڑ مچی اور درجنوں لوگ کچلے گئے مگر ایک ہی جگہ دوسرا واقعہ کبھی رونما نہیں ہوتا۔ حکومتیں انتظامات میں موجود خامیاں دور کرتی ہیں اور لوگ اپنے رویوں پر نظرثانی کرتے ہیں۔
ہجوم مومنین مگر طواف بیت اللہ کے دوران بدنظمی کا شکار رہتا ہے اور رمی جمرات کے موقع پر بھی ۔ ہم پاکستان‘ بنگلہ دیش یا نائجیریا کے شہری بسوں‘ ویگنوں‘ ہوائی جہازوں پر چڑھتے اترتے‘ شاپنگ پلازہ اور ریستوران میں آتے جاتے جس جلد بازی‘ بے ترتیبی اور نفسا نفسی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ اس کا اعادہ حجاز مقدس میں مناسک حج کی ادائیگی کے دوران بھی ہوتا ہے۔ حجر اسود کو بوسہ دینے کا موقع ہو ‘ طواف میں مقام ابراہیم کو چھونے کا یا مسجد نبویؐ میں مقام صفہ پر نوافل ادا کرنے کا‘ دھکم پیل سے باز نہیں آتے اور دوسروں کی حق تلفی کو بھی معیوب نہیں سمجھتے۔
حج بنیادی طور پر ضبط نفس‘ مجاہدہ وریاضت اور ایثار و قربانی کی مشق ہے اور قدم قدم پر حزم و احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے ۔جن مقدس مقامات پر انسان کو مکھی اور مچھر مارنے کی اجازت نہیں وہاں آنے جانے‘ چلنے پھرنے ‘ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور دوران طواف‘ دیوار کعبہ و حجر اسود کو چھونے اور رمی جمرات کے موقع پر کسی ضعیف کمزور‘ بیمار اور تھکاوٹ کے شکار مہمانِ رسولؐ کا خیال رکھنے میں کس قدر احتیاط واجب ہے‘ محتاج بیان نہیں ‘سعودی شرطے قدم قدم پر توجہ دلاتے ہیں ‘ روکتے ٹوکتے ہیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں مگر بہت کم ان کی مانی جاتی ہے‘ ہر کوئی اپنی مرضی کرتا ہے اور حادثے کو جنم دے کر ہی ٹلتا ہے۔
جلدی میں ہم بہت ہوتے ہیں ‘شارٹ کٹ کو ترجیح دیتے ہیں اور کسی کا مشورہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ جگہ جگہ بورڈ لگے ہیں مگر بہت کم پڑھنے کی تکلیف گوارا کرتے ہیں۔ دوسرے کو دھکیل کر اپنے لیے جگہ بنانا اور آگے بڑھ کر مصیبت کو دعوت دیناکوئی ہم سے سیکھے۔ یہی ذہنیت اور عادت حادثات کا موجب بنتی ہے ؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اللہ تعالیٰ عمل سے زیادہ ہماری نیت کو دیکھتا ہے اور حسن عمل سے زیادہ اہم حسن اخلاق ہے۔ قربانی میں بھی اللہ کو گوشت نہیں ‘انسانی جذبہ پسند ہے مگر ہم ظواہر پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور مقصد عموماً اوجھل رہتا ہے جس کی وجہ سے دنیا و عقبیٰ کے نقصان کا اندیشہ رہتا ہے۔ کاش ہم ضبط نفس‘ مجاہدہ و ریاضت ‘ ایثار و قربانی‘ نظم و ضبط اور قاعدہ و قانون کی پاسداری کو اپنے کردار و عمل کا جزو لاینفک بنائیں جو سنت ابراہیمی ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اعلیٰ و ارفع تعلیمات کا غالب حصہ بھی۔
عازمین حج کی تربیت کا نظام ناقص ہے اور عمومی مزاج بدنظمی و بے ترتیبی سے مغلوب۔‘ حج‘ قربانی اور دیگر ارکان اسلام کی ادائیگی میں نمود و نمائش کا رجحان بڑھ گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قیمتی بکرے ‘ گائے بھینس کا گوشت بھی بانٹنے کی روایت کمزور پڑ رہی ہے اور جنہیں سال میں ایک بار پیٹ بھر کر گوشت کھانے کو ملتا ہے وہ ایام حج و قربانی میں بھی دال سبزی پر گزارا کرتے ہیں کیونکہ قربانی کا گوشت ہم باربی کیو پارٹیوں کے لیے محفوظ کرلیتے ہیں اور گوشت خوری کے بعد ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ قربانی آہستہ آہستہ رسم بنتی جا رہی ہے‘ اور عید شکوہ دین کے بجائے ہجوم مومنین ؎
رہ گئی رسم اذاں‘ روح بلالیؓ نہ رہی
فلسفہ رہ گیا‘ تلقین غزالیؒ نہ رہی