تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     25-09-2015

Sicario

یہ فلم دیکھے ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ عید کے لیے طویل سفر کر کے گائوں پہنچا ہوں‘ مگر ابھی اس فلم کے اثر سے نہیں نکل سکا۔ ابھی اس فلم نے پوری طرح دنیا میں ریلیز ہونا ہے‘ صرف چند سینما ہائوسز میں اسے نمونے کے طور پر پیش کیا گیا۔ اسلام آباد میں یہ فلم نمائش پذیر تھی۔ اس کے بارے میں ایک نقاد نے کہا تھا کہ اب تک یہ سال کی بہترین فلم ہے۔ مجھے اس کی دو چیزوں نے بہت متاثر کیا۔ ایک کہانی اور دوسری اداکاری۔ میں نے اس اداکار کی اس سے پہلے کوئی فلم نہیں دیکھی تھی۔ اس نے کمال اداکاری کی ہے۔ فلم کے بعد میرے بڑے بیٹے نے گوگل کر کے بتایا کہ وہ اداکار پہلے ہی اکیڈمی ایوارڈ جیت چکا ہے۔ میں نے کہا‘ اسے اس فلم پر دوسرا آسکر ایوارڈ ملنا چاہیے۔ اس اداکار کا نام ہے: Del Toro Benicio جو پہلے انگریزی فلم 'ٹریفک‘ میں ایوارڈ جیت چکا ہے۔ جب فلم کا آخری سین آیا‘ جس میں ولن کے گھر فلم کا مرکزی کردار کھانے کی میز پر گن لے کر بیٹھا ڈرگ بیرن کی بیوی اور بچوں کی موجودگی میں جرائم کی فہرست سنا رہا ہوتا ہے‘ تو مجھے جھرجھری سی آ گئی۔ اسی وقت محسوس ہو گیا کہ یہ سین مجھ پر اچھے اثرات نہیں چھوڑے گا۔ 
فلم ختم ہوئی تو میرے چھوٹے بیٹے‘ جس کی عمر چودہ برس ہے‘ کے چہرے پر اداسی تھی۔ پوچھا: فلم کیسی لگی۔ وہ خاموش رہا۔ مجھے اس کے چہرے پر لکھی اداسی صاف نظر آرہی تھی۔ وہ مجھے دیکھتا رہا۔ پھر دھیمی آواز میں بولا: بابا فلم کا مزہ نہیں آیا۔ میں سمجھ گیا کہ اسے فلم کا آخری سین اچھا نہیں لگا‘ کیونکہ اس میں ایک ڈرگ سمگلر باپ کے جرائم کی فہرست اس کے بیوی بچوں کی موجودگی میں بتائی جا رہی تھی۔ بیوی اور بچے صدمے سے سن رہے تھے کہ ان سے محبت کرنے والا انسان اتنا ظالم بھی ہو سکتا ہے۔ 
ہو سکتا ہے شروع میں یہ آپ کو ایک نارمل فلم لگے۔ سی آئی اے اور ایف بی آئی کے چند افسران کا امریکہ اور میکسیکو کے بارڈر پر ڈرگ سمگلروں سے ڈیل کرنا، گوریلا کارروائیوں کا توڑ کرنا، انہیں مارنا، تلاش کر کے آپریشن کرنا کوئی اتنا بڑا موضوع نہیں کہ دعویٰ کیا جا سکے کہ کمال کا سکرپٹ تھا۔ ہالی ووڈ کی اکثر فلموں کے سکرپٹ ہوتے ہی ایف بی آئی اور سی آئی اے کے آپریشن یا ان کے سربراہوں کی غداریوں، ایجنٹس کی بیوفائیوں یا اپنے ملک کے ساتھ دھوکے کے بارے میں ہیں‘ لیکن یہ فلم جوں جوں آگے بڑھتی ہے‘ آپ اس میں کھو جاتے ہیں۔ آپ کو لگتا ہے‘ ایسے کردار آپ کے اردگرد رہتے ہیں۔ ایسے کردار جو اپنے خاندان اور بچوں کو اچھی زندگی دینے کے نام پر دوسروں کو قتل کرتے ہیں۔ کسی کی بیوی کو گولی مار دیتے ہیں‘ تو کسی کی بیٹی کو تیزاب میں پھینکوا کر مار ڈالتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کے خاندان کو ہی اچھی زندگی گزارنے کا حق ہے۔ کبھی ہم نے سوچا ہے‘ ہمارے جرائم یا لالچ کی قیمت کون ادا کرتا ہے؟ یہ ہمارے بچے ہی ادا کرتے ہیں۔ کبھی کسی باپ نے بچوں سے پوچھا کہ تمہیں میرے جرائم یا کرپشن سے کمائی گئی دولت کی ضرورت ہے یا میری؟ 
بچوں کو اپنا باپ چاہیے ہوتا ہے‘ جو ہر ویک اینڈ پر اسے سکول کے فٹ بال میچ پر لے جائے۔ گرائونڈ میں بیٹھ کر اسے کھیلتے دیکھے۔ اس کے ساتھ فلم دیکھے۔ رات کو اسے نیند نہ آ رہی ہو تو اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے کوئی کہانی سنائے تاکہ وہ سو جائے۔ 
اس فلم میں بھی پولیس مین ہے‘ جو اپنے بیٹے کو ہر ہفتے اس کے فٹ بال میچ پر لے کر جاتا ہے۔ بیٹے کو ناں نہیں کرتا اور بیٹا ہر ویک اینڈ پر انتظار کرتا ہے۔ ماں سے پوچھتا ہے وہ کب آئے گا‘ اور پھر وہ ایک دن وہ نہیں آتا۔ ماں اسے میچ کھلانے لے جاتی ہے۔ اس لمحے اس بیٹے سے پوچھا جائے کہ اسے باپ چاہیے جو بیٹھ کر اس کا میچ دیکھے یا دولت چاہیے جو اس کا باپ ناجائر طریقے سے کما رہا تھا، اس کا کیا جواب ہو گا؟ 
ہم میں سے کتنے لوگ غلط کام کرنے سے پہلے یہ پوچھنے کی جرأت رکھتے ہیں‘ بیٹا تم بتائو میرے پاس آپشن ہے۔ ایک اچھی زندگی دے سکتا ہوں... گھر، پیسہ، گاڑی، دولت... سب کچھ ممکن ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ایک دن میں پکڑا جائوں، اخبارات اور ٹی وی پر میری تصویریں چھپیں، تمہارے سکول کالج کے دوست تم سے پوچھیں۔ تمہیں مجھ سے ملنے تھانے یا پھر نیب کی حوالات، رینجرز کے دفاتر یا پھر جیل آنا پڑے۔ تمہیں جیل کے محافظوں کو مجھ سے ملنے کے لیے پیسے دینے پڑیں۔ اگر نیب نے پلی بارگین نہ مانی‘ تو ممکن ہے مجھے دس برس سزا ہو۔ کچھ کروڑ روپے جرمانہ بھی ہو۔ تم میرے بغیر دس برس اکیلے رہ لو گے؟ کیا اپنے دوستوں کو پھر بھی ملو گے‘ جنہیں علم ہے کہ جس گاڑی پر تم سفر کرتے ہو وہ حرام کے پیسوں سے کمائی گئی ہے؟ اور ہاں‘ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی دن میرے کسی فراڈ یا دھوکے سے تنگ کوئی شخص چند بدمعاش ہمارے گھر بھیج دے اور مجھے تم سب گھر والوں کی موجودگی میں گولی مار دے۔ 
بیٹا تم بتائو کیا کہتے ہو؟ 
کیا ہم میں سے کوئی اپنے بچوں سے یہ سب کچھ پوچھنے کی جرأت کر سکے گا؟ جن بچوں کے نام پر ہم سب کچھ کرتے ہیں کیا انہیں واقعی یہ دولت چاہیے بھی یا نہیں؟ ان کی دولت ان کا باپ ہے۔ جو ہر صبح انہیں سکول چھوڑنے جائے، سکول سے لینے آئے اور جب وہ تھکے ہارے اپنے بھاری بھرکم بستے اٹھا کر سکول گیٹ سے نکلیں‘ تو وہ ان کا بیگ ان سے لے کر پہلے ان کے گالوں پر پیار کرے اور پھر بیگ اپنے کندھے پر لٹکا کر گاڑی کی طرف چل پڑے۔ ویک اینڈ پر انہیں فلم دکھائے۔گھر میں بیٹھ کر ان کے ساتھ تاش کھیلے‘ برج کھیلے یا پھر ان کے لیے گھوڑا بنے اور وہ اس پر سوار ہوں۔
کیا چیز بچوں کو اعتماد دے سکتی ہے؟ دولت ضروری ہے لیکن اس دولت کے بدلے جو قیمت دینی پڑتی ہے‘ اس کے لیے ہم کتنے تیار ہوتے ہیں یا بچوں کو تیار کرتے ہیں؟ کیا ہم سوچ سکتے ہیں کہ جس رات کوئی بندہ کرپشن، دہشت گردی یا دیگر جرائم کی وجہ سے پکڑا جاتا ہو گا‘ اس کے بچے پوری رات سو سکتے ہوں گے؟ ماں اپنے بچوں کو کیا کیا جھوٹ بولتی ہو گی کہ اچانک ان کا باپ کہاں غائب ہو گیا ہے؟ پہلے بات چھپ جاتی تھی کہ ٹی وی چینلز نہیں تھے‘ سوشل میڈیا نہیں تھا‘ لہٰذا ماں جھوٹ بول لیتی تھی کہ بیٹا تمہارا باپ کاروبار کی غرض سے ملک سے باہر ہے۔ اب یہ بھی نہیں ہو سکتا۔ ایک لمحے میں سب کو پتہ چل جاتا ہے۔ جب پتہ چل جاتا ہے تو ماں کیا بتاتی ہو گی؟ وہی رٹے رٹائے جملے۔ نہیں بیٹا تمہارا باپ بے قصور ہے۔ اسے انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ دیکھ لینا وہ بہت جلد چھوٹ جائے گا۔ گھر پر درود و سلام کی محفلیں‘ قرآن خوانی شروع۔ درباروں پر پیروں کے ہاں حاضری‘ وکیلوں کی فیسیں‘ پولیس کو رشوت۔
جب باپ نیب سے ڈیل کر کے لوٹتا ہے تو کیا گھر میں کوئی سوال پوچھا جاتا ہے‘ بابا کیا ہوا تھا؟ آپ کو ہی کیوں پکڑا گیا؟ میرے دوست کے باپ کو کیوں نہیں؟ آپ نے ایسا کیا کیا تھا؟ باپ وہی جواب دے گا جو ان کی ماں دے چکی ہے؟ بیٹا تم تو جانتے ہو میں کوئی کام غلط نہیں کرتا۔ چند لوگوں کو میری دولت سے چڑ تھی۔ انہوں نے جھوٹی شکایت لگا دی تھی۔ اب اللہ کا شکر ہے میں ضمانت پر رہا ہو گیا ہوں۔ اگر کچھ کیا ہوتا تو عدالت سے ضمانت ملتی؟ چلو چھوڑو ان باتوں کو۔ بھول جائو۔ اب میں آ گیا ہوں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ کھانا کھائو۔ تو کیا بیٹا اور بیٹی مطمئن ہو کر دوبارہ اپنے باپ پر اعتبار کر لیتے ہیں کہ واقعی ہمارا معاشرہ ہی ایسا ہے۔ بے چارے ڈاکٹر عاصم حسین جیسے عزت دار کی ''پگڑی‘‘ اچھالی جاتی ہے۔ دیکھنے میں وہ کتنا معصوم لگتا ہے۔ 
سب بچے اپنے باپ کو ہیرو سمجھتے ہیں۔ اسے اچھا سمجھتے ہیں۔ بچے کبھی نہیں سوچیں گے کہ ان کے باپ نے ان سے جھوٹ بولا تھا۔ ان کی زندگیاں آسان کرنے کے لیے اس نے کتنی زندگیاں برباد کی تھیں۔ کیا ملا ڈاکٹر عاصم حسین جیسے ''عزت دار‘‘ لوگوں کو... کیا کریں گے اس پیسے کا کہ بیوی اور بیٹی در در پھر رہی ہیں۔
Sicario فلم ختم ہوئے ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ فلم کا آخری سین میرے سر پر سوار ہے۔ جاگتے سوتے ایک ہی بات ذہن پر تشدد کرتی ہے۔ ایک باپ اپنے بچوں کو آرام دہ زندگی دینے کے نام پر دوسرے بچوں کے باپ کیوں چھیں لیتا ہے اور ایک دن خود بھی اپنے بچوں سے ہی چھن جاتے ہیں۔
انہیں یہ سودا مہنگا کیوں نہیں لگتا؟
یاد آیا پچھلے سال نیویارک میں میاں مشتاق احمد جاوید نے ایک پاکستانی لڑکے کے بارے میں بتایا تھا‘ جو پولیس افسر کا بیٹا تھا۔ بیٹے کو امریکہ پہنچ کر اندازہ ہوا کہ باپ نے حرام کی کمائی سے پڑھنے بھیجا تھا۔ اس نے باپ کو وہیں سے سارے پیسے لوٹا دیے کہ بابا آپ نے حرام سے یہ دولت کمائی تھی‘ میں نیویارک میں دکان پر کام کر لوں گا‘ آپ کے دوسروں سے چھینے ہوئے مال پر نہیں پڑھوں گا۔
کتنے پاکستانی بچے ایسی جرأت کر سکیں گے؟
میں نے پھر بیٹے سے پوچھا فلم کیسی لگی۔ وہ کچھ چڑچڑا ہو کر بولا: بابا بتایا تو ہے مجھے فلم اچھی نہیں لگی۔
مجھے پتہ تھا ہر بچے کی طرح وہ بھی اپنے باپ سے کیا چاہتا تھا۔
اس کی آنکھوں میں تیرتی نمی مجھے بتا رہی تھی کہ ایک ایسا باپ چاہیے تھا جو اسے اچھی زندگی دینے کے نام پر دوسروں کا جینا حرام نہ کر دے، اس جیسے دوسرے بچوں کے باپ نہ چھین لے اور سب سے بڑھ کر اس کو ہر وقت یہ خوف نہ ہو کہ برسات کی کسی اندھیری رات میں جب اس کے سر میں شدید درد ہو اور تکلیف سے اسے نیند نہ آ رہی ہو، تو اس کے ساتھ لیٹ کر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر کر گزرے زمانوں کے اچھے، نیک اور بہادر شہزادوں کی کہانی سنانے والا کوئی نہ ہو! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved