تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     25-09-2015

بکروں کا صفحہ

پیارے بکرو!
دراصل ہم یہ کالم آپ کے مالکوں کے اصرار پر لکھ رہے ہیں‘ جنہوں نے آپ کی قربانی دینی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے محبوب بکروں اور دیگر جانوروں کو پڑھ کر سنا بھی دیں گے‘ کیونکہ سال بھر کی صحبت کے بعد آپ لوگ اس قابل ہو گئے ہیں کہ ان کی بات سمجھ سکیں اور اس طرح کالم سے لطف اندوز ہو سکیں۔ واضح رہے کہ یہ کاوش آپ کے علاوہ بھی جملہ جانوروں کے لیے کی جا رہی ہے جن میں گائے‘ بیل‘ بھینس‘ بھینسا‘ بھیڑ‘ مینڈھا‘ اونٹ اور اونٹنی وغیرہ سب شامل ہیں تاکہ ہم پر کسی تعصب یا جانبداری کا الزام نہ لگ سکے؛ تاہم یہ آپ کی فضیلت ہے کہ وہ جگہ جہاں دیگر تمام جانور بھی خرید و فروخت کے لیے موجود ہوتے ہیں‘ اسے صرف اور صرف بکر منڈی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بعض کم ذوق لوگ اسے مال منڈی بھی کہتے ہیں لیکن عیدالاضحی کے موقع پر اسے بکر منڈی ہی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ آپ میں سے اکثر آج کل میں قربان ہو کر اللہ کو پیارے ہو جائیں گے؛ تاہم جو خوش نصیب یا بد نصیب بچ رہیں گے‘ یہ صفحہ ان کے بھی کام آتا رہے گا؛ البتہ ہم نے یہ کالم اپنے بکرے کو پڑھ کر سنایا تو اسے زبانی یاد ہو گیا‘ بلکہ اس نے اس میں چند اضافوں کے لیے بھی بے حد مفید تجاویز پیش کیں۔ امید ہے آپ کو ہماری یہ مخلصانہ کوشش پسند آئے گی۔
سبق آموز واقعات
٭ ایک بار ہمارے ایک ماہرِ حیوانات غیر ملکی دورے پر گئے تو وہ راستے میں ایک ریوڑ کو چرتے دیکھ کر خوش ہوئے اور وہاں تھوڑی دیر کے لیے رک گئے‘ چرواہے کے ساتھ گپ شپ شروع کر دی اور بھیڑ بکریوں کی پرورش کے سلسلے میں اسے کچھ مفید مشورے بھی دیے جس پر چرواہے نے خوش ہو کر اور شکر گزاری کے طور پر انہیں کہا کہ ان میں سے کوئی بکرا پسند کر کے لے جا سکتے ہیں؛ چنانچہ موصوف نے ریوڑ میں سے اپنی پسند کا دانہ اپنی گاڑی میں ڈال لیا۔ جب گفتگو ختم ہوئی اور ماہر مذکور نے جانے کی اجازت چاہی تو چرواہا بولا: ''آپ کا بہت بہت شکریہ‘ لیکن ہمارا کتا گاڑی میں سے نکال کر دیتے جائیں!‘‘
٭ ایک صاحب باہر گلی میں اپنے لہو میں لت پت بکرے کے پاس افسردہ کھڑے تھے کہ ایک راہگیر نے بکرے کی حالت دیکھی اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے تو شخص مذکور بولا:
''اسے میں نے قربانی کے لیے خریدا تھا۔ گھر میں جگہ نہیں تھی اس لیے اسے گلی میں باندھ کر تالہ لگا دیا تھا۔ کوئی کم بخت رات کو آیا اور اس کی کھال اتار کر لے گیا!‘‘
٭ ایک لومڑی جنگل میں بھاگی جا رہی تھی کہ کسی نے پوچھا: کیا بات ہے‘ اتنی خوفزدہ کیوں ہو اور کیوں بھاگ رہی ہو جبکہ تمہارے پیچھے بھی کوئی نہیں ہے‘ تو لومڑی نے جواب دیا کہ کچھ لوگ اونٹوں کو ہلاک کرتے پھرتے ہیں‘ تو شخص مذکور نے کہا کہ تم تو اونٹ نہیں ہو‘ تم کیوں ڈر کر بھاگ رہی ہو‘ تو وہ بولی: شاید وہ سمجھیں کہ میں بھی اونٹ کا بچہ ہوں۔
شکایات
٭ ایک بکرے کے استفسار پر اسے بتایا گیا کہ 'بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی‘ کا مطلب یہ ہے کہ بکرے کی ماں عید قربانی تک ہی اس کی خیر منا سکتی ہے۔
٭ ایک بکری نے شکایت کی ہے کہ مجھ پر دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کا الزام کیوں لگایا جاتا ہے‘ جبکہ ذبح ہونے کے خوف سے خون کے ساتھ ساتھ میرا دودھ بھی خشک ہو چکا ہے۔
٭ایک بھیڑ نے بھیڑ چال کی وضاحت چاہی ہے‘ حالانکہ یہ ان کے اتحاد و یگانگت کی مظہر ہے‘ جس کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں‘ کیونکہ اگر ہم نے جواب دے دیا تو بھیڑ چال چلتے ہوئے سبھی جواب دینے لگ جائیں گے۔
٭ ایک بکرے نے اس بات پر سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے کہ جہاں کوئی سین بطور خاص پسند آ جائے تو فلم بین حضرات بکرے بلانے لگ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انصاف سے کام لینا چاہیے اور ہمارے ساتھ ساتھ اونٹ اور بیل وغیرہ بھی بلانے چاہئیں!
٭ ایک بکرے نے پہاڑی علاقوں میں بزکشی کے کھیل کی سخت مذمت کی ہے۔
ضروری ہدایات
اونٹ کی قربانی سے پہلے اس سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ تمہاری کون سی کل سیدھی ہے‘ ورنہ وہ شتر غمزے دکھانا شروع کر دے گا اور قربانی بیچ میں ہی رہ جائے گی۔
بیل کو قربانی کے وقت یہ ہرگز نہ کہیں کہ 'آبیل مجھے مار‘ ورنہ وہ واقعی مارنا شروع کر دے گا اور اس طرح آپ کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
گائے چونکہ اللہ میاں کی گائے ہوتی ہے‘ اس لیے اس سے کوئی سوال جواب نہ کریں‘ نہ ہی کسی کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ آں دفتر را گائو خورد‘ اسے گائو تکیے کی بھی عادت نہ ڈالیں:
پسندیدہ اشعار
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
افسوس کہ دنیا سے سفر کر گئی بکری
آنکھیں تو کھلی رہ گئیں پر مر گئی بکری 
گرچہ چھوٹی ہے بات بکری کی
لیکن اونچی ہے ذات بکری کی
بندھی ہے بھینس کھونٹے سے نہ کوئی گائے رکھتے ہیں
مگر ہم دودھ کے بارے میں اپنی رائے رکھتے ہیں
پالتو ہیں کہ فالتو مت پوچھ
میں‘ کبوتر‘ چکور‘ کتا‘ بھینس
ابھی وہ دشت منتظر ہیں میرے
جن پہ تحریر پائے ناقہ نہیں
ڈرو نہ ساڈیاں شیراں توں
اندروں ساریاں بھیڈاں نیں
ایڈیٹر کی ڈاک
محترمی! میں ایک اہم مسئلے کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جس کسی کا دل چھوٹا یا کمزور ہو‘ اسے آپ لوگ بڑی آسانی سے بزدل یعنی بکرے بلکہ بکری کے دل والا کہہ دیتے ہیں‘ یہ بہت زیادتی ہے اور سراسر غلط بھی‘ کیونکہ اگر آپ نے ہمیں آپس میں لڑتے ہوئے کبھی دیکھا ہو تو آپ نے ملاحظہ کیا ہو گا کہ ہم کتنی بے جگری سے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے ہیں بلکہ ہمارا مقابلہ دیکھنے کے لیے شائقین دور دور سے کھنچے چلے آتے ہیں۔ لہٰذا استدعا ہے کہ اس سے احتراز کیا جائے اور کم از کم حکومت کو بزدل نہ کہا جائے کیونکہ اس کا دل بکری سے دس گنا چھوٹا‘ کمزور اور بیکار ہوتا ہے اور ہماری اس سے بڑی توہین اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
آج کا مقطع 
اللہ کو بھی خوش کیا دلبر کو بھی‘ ظفر
ہم خود ہی بقر عید پہ قربان ہو گئے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved